آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مصر کے لوگ نماز جنازہ کے بعد مردے کو اپنے گھر کے ہی ایک مخصوص کمرے میں رکھ آتے تھے اور کمرے کو سِل سے بند کر دیتے تھے۔ اپنے گھروں میں مُردوں کیے لیے بنایا جانے والا یہ کمرہ زیر زمین موجود ہوتا تھا۔
مصر کے بعض گھرانے آج بھی مُردوں کو اسی طرح دفن کرتے ہیں۔ ان کی تعزیت کا طریقہ کار بھی مختلف ہے، یہ لوگ تدفین کرنے کے بعد رات میں دروازے کے باہر ٹینٹ لگا دیتے ہیں، ٹینٹ کو قمقموں سے روشن کرتے ہیں، اور اپنے تمام دوست احباب ، رشتہ داروں کو اطلاع کرتے ہیں، گھر کے مرد اور خواتین سوٹ پہن کر ٹائی لگا کر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، لوگ بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں، لواحقین سے ملاقات کرتے ہیں اور ٹینٹ کے اندر کرسیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔
مصر میں لوگ تعزیت کے لیے قالین یا دریاں نہیں بچھاتے بلکہ یہ لوگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی وہاں آمد ہوتی ہے اور وہ لاؤڈ اسپیکر پر قرآن پاک کی تلاوت کا آغاز کر دیتے ہیں، تلاوت مکمل ہوتے ہی تعزیت کا وقت بھی اختتام پزیر ہو جاتا ہے اور لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ تعزیت کے دوران کھانا دیتے ہیں اور نہ ہی اس تقریب کے بعد تعزیت کی اجازت ہوتی ہے۔ مصر میں شہروں اور دیہات میں تعزیتی محفلوں کے لیے ہال بھی بن چکے ہیں، یہ ہال “مناسبات” کہلاتے ہیں اور یہ میرج ہال کی طرح کام کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ہال کا خرچ نہیں اٹھا نہیں سکتے وہ گلی میں ٹینٹ لگا کر تعزیت کا مرحلہ مکمل کر لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ مندرجہ بالا تمام معلومات سینئرصحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کے کالم “مصری کیسے لوگ ہیں” سے حاصل کی گئی ہے۔