امریکہ کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑی قانونی فتح حاصل ہو گئی ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے امریکہ میں پیدائشی حق شہریت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک صدارتی حکم نامے کے خلاف ضلعی عدالتوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناعی کو محدود کر دیا ہے۔چھ کے مقابلے میں تین کے اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ایک وفاقی ضلعی جج کے پاس پورے ملک میں صدارتی احکامات کو روکنے کا اختیار ’شاید کانگریس کی جانب سے دی گئی عدالتی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔‘یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر سے متعلق تھا جس کا مقصد امریکہ میں پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنا تھا لیکن عدالت نے براہ راست اس حکم کی آئینی حیثیت پر کوئی رائے نہیں دی۔اس فیصلے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کئی دیگر متنازع پالیسیوں کو قانونی رکاوٹوں سے آزاد کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’دی ٹُرتھ‘ پر ’بڑی فتح‘ لکھا اور صحافیوں کو بتایا کہ ان کے پاس ایسی پالیسیوں کی ’پوری فہرست‘ ہے جو اب کسی بھی ملک گیر عدالتی رکاوٹ کے بغیر نافذ کی جا سکتی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غیرقانونی یا عارضی ویزے پر امریکہ میں مقیم غیرملکیوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ حکم نامہ میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن کی عدالتوں کی جانب سے معطل کیا گیا تھا۔جمعے کو سامنے آنے والے اس فیصلے کی اکثریتی رائے جسٹس ایمی کونی بیریٹ نے تحریر کی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی مقرر کردہ جج ہیں۔انہوں نے لکھا کہ ملک گیر حکم امتناعی ’ہماری قوم کی زیادہ تر تاریخ میں موجود نہیں رہا۔‘ان کے مطابق ’اگر عدالت یہ نتیجہ اخذ کرے کہ ایگزیکٹو برانچ نے غیرقانونی عمل کیا ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ عدالت بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے۔‘
جسٹس سونیا سوٹومائر نے کہا کہ ’یہ فیصلہ حکومت کو آئین سے تجاوز کرنے کی کھلی اجازت دیتا ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تاہم تین لبرل ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں خبردار کیا کہ اس فیصلے سے عدلیہ کی حکومت کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کی طاقت کمزور ہو سکتی ہے۔
جسٹس سونیا سوٹومائر نے کہا کہ ’یہ فیصلہ حکومت کو آئین سے تجاوز کرنے کی کھلی اجازت دیتا ہے۔‘دوسری جانب قانونی ماہرین نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔یونیورسٹی آف الینوائے شکاگو کے قانون دان سٹیون شون نے کہا کہ ’یہ فیصلہ وفاقی عدالتوں کی طاقت کو محدود کرتا ہے اور اس سے امریکہ میں انفرادی آئینی حقوق کے تحفظ کا ایک پیچیدہ نظام جنم لے سکتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ایک ہی قانون کی مختلف ریاستوں میں مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں جو امریکی عدالتی نظام کے لیے خطرناک نظیر بن سکتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ ضلعی عدالت کے حکم امتناعی کو صرف مقدمے میں شامل فریقوں تک محدود رکھا جائے۔واضح رہے کہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکہ میں غیرقانونی یا عارضی قیام پذیر والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت نہیں دی جائے گی مگر تین مختلف عدالتوں نے اس حکم کو 14ویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا تھا جو واضح طور پر کہتی ہے کہ ’تمام افراد جو امریکہ میں پیدا ہوئے، وہ امریکی شہری ہیں۔‘