میں اپنے ماں باپ کے جنازے پر بھی نہ پہنچ سکا ۔۔ میں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ 3 ماہ میں دنیا سے چلے جائیں گے، جانیں یہ شخص والدین کے غم میں اب کیا کر رہا ہے؟

image

والدین کے بغیر زندگی کا کوئی مول نہیں، جب تک والدین کا سایہ اولاد کے سر پر ہوتا ہے، ان کی بادشاہت ہوتی ہے، مگر جب والدین ہی آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں تو مانو زندگی میں کسی قسم کی کوئی خوشی باقی نہیں بچتی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین بیمار ہوں تو ان کی طبیعت دیکھ کر دل میں خدشات ظاہر ہونے لگتے ہیں، مگر جب اچانک ہی ان کا انتقال ہو جائے تو اس صدمے سے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

کچھ ایسا ہی اس نوجوان کے ساتھ ہوا جس کے والد کا انتقال ہوا اور پھر 3 ماہ میں والدہ بھی چل بسیں، جن کے جنازے پر یہ پہنچ نہ سکا اس کے لئے والدین کی موت کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہے۔

حارث کی کہانی:

حارث خان پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ہے جو15 برس کی عمر سے کینیڈا میں مقیم ہیں، پہلے تعلیم حاصل کی اور اب آئی ٹی کی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے والد 35 سال سے مسقط اور عمان میں نوکری کی وجہ سے قیام پزیر تھے۔

حارث کہتے ہیں کہ: '' مجھے میرے والد ہمیشہ سب سے پہلے سالگرہ کی مبارکباد دیتے تھے، لیکن اس سال میری سالگرہ سے صرف 2 دن قبل والد کی موت کورونا سے ہوگئی اور 3 ماہ کے اندر میری والدہ بھی کورونا کی وجہ سے مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلی گئیں۔ ''

حارث کہتے ہیں کہ: '' جب میرے والد کی حالت انتہائی نازک تھی اس وقت بھی انھوں نے میرے گھر والوں کو کہا کہ پیارے حارث کو برتھ ڈے وش کرنا نہ بھولنا۔‘ والد کو لاہور میں دفنایا گیا، تو میری بہن اور والدہ بھی لاہور میں کچھ روز کے لئے رک گئیں اور 3ماہ میں والدہ کا بھی انتقال ہوگیا، میں اپنے والدین کے جنازے پر شرکت نہ کرسکا۔

والدین کو کھونے کا غم کوئی مجھ سے پوچھے جس نے اکیلے رہ کر اس غم کا سامنا کیا، اور پھر میں نے سوچ لیا کہ اب میں کورونا سے متاثرہ مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کی خوب مدد کروں گا، پہلے میں نے صرف مسلم کمیونٹی کی مدد کی مگر پھر غیر مسلموں کی مدد بھی صرف اس لئے کی تاکہ باپ کو کھونے کا جو غم مجھے ملا وہ کسی کو نہ ملے، اپنی ماں کو کھونے کا وہ احساس جو آج بھی مجھے زخمی کرتا ہے وہ کسی اولاد کے حصے نہ آئے۔

حارث کہتے ہیں کہ: '' میں اور میری ٹیم روزانہ 80 کے قریب ضرورت مند افراد کو کھانا ان کے گھر پہنچاتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے بیس ہزارکینیڈین ڈالر (قریبا پچیس لاکھ پاکستانی روپے) کا کمیو نٹی فنڈ اکٹھا کیا ہے۔ دن بھر میں تقریباً دس افراد پر مشتمل کی ٹیم کھانا تیار کر کے اس چھوٹے سے شہر ریجائنہ میں ضرورت مند افراد کو پہنچاتی ہے۔

میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا خدا جہاں مجھے اتنی رحمتیں اور نعمتیں دے گا وہیں مجھ سے ماں باپ یوں آناً فاناً چھین لے گا۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts