20 سال پہلے افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور آج ایک مرتبہ پھر طالبان نے افغانستان کو اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری دنیا دہشت گرد کہتی ہے جبکہ ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں، ہم نے طالبا ن کے بارے
میں وہ چیزیں تو دیکھی ہیں جو امریکی حکومت یا یو این او نے ہمیں دکھائی ہیں، البتہ اس سکے کا دوسرا پہلو بھی ہے جو ہمیں ایک برطانوی صحافی ریڈ لی نے بتایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ:

''
مجھے پکڑ کر لے گئے، تو لگا کہ وہ میرے ساتھ زیادتی کریں گے، مجھے ماریں گے، مجھے زبردستی قید کریں گے، میری عزت پر انگلی اٹھائیں گے، مجھے بدنام کریں گے، مجھ سے زبردستی اسلام قبول کروائیں گے، لیکن حقیقت میں جب تک میں ان طالبانوں کی قید میں رہی ان میں سے کسی ایک مرد نے بھی نہ تو مجھے انگلی یا ہاتھ لگایا اور نہ ہی مجھے گندی نگاہوں سے دیکھا، مجھ سے بات بھی اتنی دور کھڑے ہو کر کرتے تھے کہ 3 فٹ کا فاصلہ ہو، میری تلاشی بھی ایک خاتون نے لی تھی اور جب مجھے شک ہوا کہ ان کو لگتا ہے کہ مین نے اپنے پاس اصلحہ چھپایا ہے تو میں نے اپنا سکرٹ تھوڑا سا اٹھایا لیکن اس وقت میں حیران رہ گئی کہ طالبان مجھ سے 7 فٹ کے فاصلے پر چلے گئے اور پیٹ کرکے کھڑے ہوگئے، کبھی بھی کسی دن بھی بھوکا یا پیاسا نہیں رکھا، سگریٹ پینے سے منع نہیں کیا، یہاں تک کہ بائبل بھی پڑھنے کے لئے دی
''

میں حیران تھی کہ یہ طالبان دہشت گرد جن پر پوری دنیا تھو تھو کرتی ہے، ان کو دہشت گرد کہتی ہے یہ اتنے رحم دل اور انصاف پسند، عزت پسند لوگ ہیں
۔
میں نے ایک دن بھوک ہڑتال کردی تھی دورانِ قید تو ان لوگوں نے مجھے طرح طرح کے کھانے پیش کئے، میری ایک مہمان کی طرح آؤ بھگت کی اور میں بیہوش ہوگئی تھی، میرے لئے ڈاکٹر کا انتظام کیا، مجھ سے بات کی ، مجھے سمجھایا تو مجھےا ندازہ ہوا کہ یہ لوگ تو بالکل الگ ہیں اور بہت اچھے ہیں۔''
ریڈ لی نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے چھوڑ دو گے تو میں اسلام قبول کرلوں گی، لیکن ان کی جانب سے ایسا کوئی دباؤ مجھ پر نہ ڈالا گیا اور جب میں برطانیہ واپس آئی تو 3 ماہ بعد قرآن ترجمے سے پڑھا، مجھے پتہ چلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ امن پسند اور اصول پسند دین اسلام ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ مجھے لگتا ہے کہ طالبان اسی حکمتِ عملی سے چلتے رہے ارو مسجدِ اقصیٰ بھی قید سے آزاد ہو جائے گی۔