ڈاکٹر کرس ویبسٹر کو چند منٹ میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے ہسپتال میں آنے والی مریضہ ایک ’سنگ دل قاتلہ‘ ہے۔

ڈاکٹر کرس ویبسٹر کو چند منٹ میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے ہسپتال میں آنے والی مریضہ ایک ’سنگ دل قاتلہ‘ ہے۔
’مجھے پتہ تھا‘، انھوں نے بی بی سی کو بتایا۔ ’میں نے سوچا اچھا، یہ کام تم نے کیا ہے، تم نے ان سب کو زہر دیا ہے۔‘
آسٹریلیا میں وکٹوریا کے مضافات میں ایک چھوٹے سے ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر کرس نے اس صبح دو مریضوں کی جانب بچانے کی کوشش کی تھی جنھیں ایرن پیٹرسن نامی خاتون نے جولائی 2023 میں دوپہر کے کھانے میں زہر ملا کر دیا تھا۔
یہ زہر مشروم کی شکل میں تھا اور جن افراد کو یہ دیا گیا ان میں ایرن کی ساس، سسر سمیت ایک اور خاتون ہیدر بھی شامل تھیں۔
ایرن کو اپنے ساس، سسر سمیت اس خاتون کے قتل میں جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ثابت ہو چکا ہے کہ انھوں نے ایک مقامی راہب این کو، جو اس خاتون کے شوہر تھے، بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی جو چند ہفتوں کے علاج کے بعد صحتیاب ہو گئے تھے۔
تاہم جب اس دن ہیدر اور این ڈاکٹر کرس کے پاس پیٹ میں شدید درد کی شکایت کے ساتھ پہنچے تھے تو طبی عملے کو لگا تھا کہ یہ کھانے سے پیدا ہونے والا مسئلہ ہے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران ڈاکٹر کرس نے بتایا کہ مریضہ نے انھیں بتایا تھا کہ انھوں نے شاندار کھانا کھایا تھا۔
انھیں اس گوشت پر شک ہوا جو یہ لوگ کھا چکے تھے اور انھوں نے احتیاطی تدبیر کے طور پر خون کے نمونے حاصل کیے اور تجزیے کے لیے بھجوا دیا۔
جلد ہی انھیں ایک اور ڈاکٹر کا فون آیا جو 90 منٹ کے فاصلے پر ڈان اور گیل، ایرن کے ساس اور سسر، کا علاج کر رہے تھے۔
اس فون کو سنتے ہی ڈاکٹر کرس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا کیوں کہ ان کو بتایا گیا کہ مسئلہ گوشت میں نہیں تھا بلکہ اس میں زہریلے مشروم ملائے گئے تھے۔ دونوں مریض موت کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔
ڈاکٹر کرس نے فوری طور پر اپنے مریضوں کا علاج بدل دیا اور انھیں بہتر ہسپتال میں منتقل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ یہی وہ موقع تھا جب ہسپتال کے فرنٹ ڈیسک پر گھنٹی بجی۔
کھڑکی سے دیکھا جا سکتا تھا کہ باہر ایک خاتون کھڑی ہیں جو خود بھی گیسٹرو کی شکایت کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر کرس کہتے ہیں ’میں نے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے؟ اور اس نے کہا ایرن پیٹرسن۔ پتہ چلا کہ کھانا اسی نے بنایا تھا۔‘
ایرن نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ یہ ایک حادثہ تھاڈاکر کرس ایرن کو اندر لے آئے اور انھوں نے بتایا کہ ان کو شک ہے کہ وہ اور ان کے مریض خطرناک زہر کا شکار ہو چکے ہیں۔
ڈاکر کرس نے ایرن سے سوال کیا کہ انھوں نے کھانے میں کیا ڈالا تھا۔ ’اس کا جواب تھا، وول ورتھز۔ اور اچانک سے میرا دماغ منجمند ہو گیا۔‘
اس لمحے میں، ڈاکٹر کرس کے مطابق، دو چیزوں نے انھیں یقین دلایا کہ یہ خاتون ہی قاتلہ ہے۔ ان کے مطابق ’اگر وہ جنگلی مشروم استعمال کرنے کا دعوی کرتیں تو شک نہیں ہوتا لیکن یہ کہنا ہے کہ وہ مقامی سٹور سے مشروم لائیں مشکوک تھا۔‘
دوسری وجہ یہ تھی کہ اس بات سے قطعہ نظر کے ان کے دو انتہائی قریبی عزیز چند میٹر کی دوری پر شدید بیمار پڑے تھے، ایرن نے ایسا کوئی ردعمل نہیں دیا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں۔
ڈاکٹر کرس کہتے ہیں کہ ’میں نہیں جانتا کہ وہ ان کی موجودگی سے بھی آگاہ تھی۔‘
ہسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹیجڈاکٹر کرس نے ایرن کے طبی معائنے کے لیے انھیں نرسوں کے حوالے کیا اور اس ہسپتال روانہ ہوئے جہاں سے انھیں فون آیا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ جوڑے کو ایمبولنس میں ڈالا جا رہا تھا۔
لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس بارے میں زیادہ سوچتے۔ انھیں ہسپتال واپس آنا پڑا کیوں کہ ایرن نے طبی مشورے کے برخلاف ہسپتال چھوڑ دیا تھا اور ان کے فون پر کال کرتے ہوئے ڈاکٹر کرس کو خیال آیا کہ انھیں پولیس کو بتانا چاہیے۔
ان کی اس فون کال کی ریکارڈنگ میں سنا جا سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ’میں ڈاکٹر کرس ویبسٹر بول رہا ہوں، لیونگاتھا ہسپتال سے، مجھے ایک مریضہ کی فکر ہے جو ممکنہ طور پر مشروم کے زہر سے متاثرہ ہے لیکن وہ ہسپتال سے جا چکی ہے۔‘ یہ ریکارڈنگ مقدمہ کے دوران عدالت میں بھی سنائی گئی تھی۔
ڈاکٹر کرس نے آپریٹر کو ایرن کا نام اور پتہ بتایا تو انھوں نے پوچھا کہ ’وہ بس ایسے ہی نکل گئی؟‘ ڈاکر کرس نے جواب دیا کہ ’وہ یہاں صرف پانچ منٹ رکی تھی۔‘
مقدمے کے سماعت کے دوران ایرن نے کہا کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو کھانا دینے واپس گئی تھیں اور ہسپتال واپس آنے سے پہلے تھوڑی دیر انھوں نے آرام کیا تھا۔
جب استغاثہ نے ان سے سوال کیا کہ ’جب آپ کو بتایا گیا تھا کہ آپ کو ممکنہ طور پر جان لیوا زہر دیا گیا ہے تو اس کے بعد بھی آپ نے یہ کیا؟‘ ایرن نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے آپ ایسا نہ کریں لیکن میں نے ایسا ہی کیا۔‘
پولیس ان کے گھر پہنچتی اس سے پہلے ایرن خود ہی ہسپتال لوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹر کرس نے ان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے بچوں کو بھی لے کر آئیں۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ایرن کو خدشہ تھا کہ ان کے بچے خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔ ’میں نے کہا وہ خوفزدہ اور زندہ رہ سکتے ہیں یا مر سکتے ہیں۔‘
ایرن نے عدالت میں جیوری کو بتایا کہ وہ جھجھک نہیں رہی تھیں بلکہ ’ڈاکٹر ان پر چلا رہا تھا۔‘
عدالت کو بتایا گیا کہ ایرن اور ان کے بچوں کے معائنے اور طبی ٹیسٹ میں زہر کے نشانات نہیں ملے اور 24 گھنٹے بعد انھیں گھر بھیج دیا گیا۔
دو سال بعد جب ڈاکٹر کرس کو علم ہوا کہ ایرن کو سزا ہو چکی ہے تو وہ ہل کر رہ گئے۔ وہ اس مقدمے میں ایک اہم گواہ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایرن کو ذمہ دار ٹھہرانے میں، جنھیں وہ بدی کی تعریف کہتے ہیں، حصہ لینا‘ ان کے لیے بہت اہم تھا۔
تاہم ان کے لیے اس سے اہم این ولکنسن کا زندہ بچ جانا تھا جو واحد مریض تھے جو زندہ بچے۔ ’اس سے مجھے کچھ آرام ملا۔‘