کوئی سے کالا قانون قرار دے رہا ہے تو کوئی اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلنے کی سازش قرار دے رہا ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس آرٹیکل میں “ہماری ویب“ کے قارئین کو بتایا جائے گا کہ پی ایم ڈی اے دراصل کیا ہے اور اس کے نام سے اٹھنے والا شور دراصل کس وجہ سے ہے۔
پی ایم ڈی اے کیا ہے؟
پی ایم ڈی اہے کا پورا نام ہے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی البتہ پہلے اس کو پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا نام دیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے مطابق یہ ان کا خیال ہے جسے بہت جلد قانون کی شکل دے دی جائے گی۔ البتہ جس طرح اپوزیشن اور صحافتی ادارے اس کے خلاف متحد ہیں سینیٹ چئیر مین فیصل جاوید نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ پیایم ڈی اے کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں میڈیا اراکین کے ساتھ اپوزیشن کے سیاستدانوں نے ایک جلسہ کیا جس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے اور شہباز شریف نے پی ایم ڈی اے کو کھلے الفاظ میں کالا قانون قرار دیا۔
اس کا فریم ورک دیا جاچکا ہے
پی ایم ڈی اے کا فی الحال کوئی مسودہ نہیں البتہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے بتایا ہے کہ اس کا فریم ورک دیا جاچکا ہے اور فریم ورک پر جس طرح کی تجاویز دی جائیں گی اسی حساب سے اس قانون کو مسودے کی شکل دی جائے گی۔ البتہ اس کے فریم ورک میں کچھ نکات ایسے ہیں جس پر صحافیوں کو اعتراض ہے جبکہ حکومت ان کے جواب بھی دے چکی ہے۔
جعلی خبریں شائع کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانہ
پی ایم ڈی اے کے فریم ورک کے مطابق ااگر کوئی شخص جعلی خبریں شائع کرے تو اس پر دس کروڑ کا جرمانہ عائد ہوگا اور اگر کسی ادارے کی جان سے غلط یا جھوٹی خبریں شائع کی جائیں گی تو ادارے پر پچیس کروڑ کا جرمانہ جاری کیا جائے گا۔ ایک صحافی سے سوال جواب کے دوران فواد چوہدری نے بتایا کہ ملکوں میں جرمانے خوف پیدا کرنے کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں اگر جرمانے زیادہ نہیں ہوں گے تو لوگ جعلی خبریں بنانے سے خوف نہیں کھائیں گے۔
جرمانے خوف دلانے کے لئے ہی لگائے جاتے ہیں
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں بھارت اور ملک دشمن افراد کا پروپیگینڈہ ہے جس کے خلاف ایک ایسا قانون بننا ضروری ہے جسے حرکت میں لا کر ملک دشمن عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے علاوہ پی ایم ڈی اے بہت سے معاملات میں صحافیوں کا تحفظ بھی کرے گا جیسے کہ ایسے تمام میڈیا ہاوسز کے خلاف کارروائی عمل میں لائے گا جو اپنے ماتحت افراد کی تنخواہیں وغیرہ روکتے ہیں۔ اس ایک بل کے تحت تمام میڈیا چینلز جس میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پیجز سب کو ایک ہی قانون کے تحت چلانا ممکن ہوسکے گا۔