وادی سون سکیسر دنیا کی قدیم ترین وادیوں میں سے ایک ہے۔ اس جنت نظیر وادی میں موجود چٹانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کروڑوں برس پرانی ہیں اور یہ وادی کسی زمانے میں سمندر کی تہوں میں رہی ہے۔ اس جنت نظیر وادی میں انگہ نام کا ایک گاؤں ہے۔یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب خوشاب بھی سرگودھا کا ایک مضافاتی قصبہ تھا تو اس موضع کی بات ہی کیا۔ تقسیم سے تین دہائیاں قبل 20 نومبر 1916 کو اس گاؤں کے ایک معروف مذہبی خانوادے میں احمد شاہ نامی بچے کا جنم ہوا۔یہ بچہ آگے چل کر احمد ندیم قاسمی کے نام سے مشہور ہوا جنہوں نے شاعری کی تو ان کا شمار اردو کے چند اہم ترین شعرا میں ہوا۔ افسانہ نگاری کی تو دیہی پس منظر کچھ یوں اپنی کہانیوں میں سمویا کہ پڑھنے والے اَش اَش کر اٹھے۔
کالم نگاری کی تو صاحبِ اسلوب کالم نگار قرار پائے۔ ادبی صحافت میں ’فنون‘ کے ذریعے تین نسلوں کو متاثر کیا۔
مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے ایک ہم عصر شاعر پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارا استاد تو اچھا ہے مگر ’یک فنی‘ ہے۔ یعنی اس کو شاعری کے سوا کچھ نہیں آتا۔اس وقت بھی اور موجودہ عہد میں تو خاص طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی فرد کسی ایک شعبہ میں ہی اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کر سکتا ہے مگر امریکی صحافی ڈیوڈ اپسٹن سمیت بہت سے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ مختلف شعبوں میں تجربہ رکھنے والے لوگ نئی اور تخلیقی سوچ کا اظہار کرنے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ قاسمی نے بہت پہلے یہ مفروضہ درست ثابت کر دیا تھا۔ چناںچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑے شاعر تھے یا افسانہ نگار؟معروف نقاد اور ادیب ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کا احمد ندیم قاسمی سے پہلا تعارف بطور افسانہ نگار ہوا تھا مگر ان کی شاعری نے بھی ان کو اپنی جانب متوجہ کیا، وہ اپنے مضمون ’قاسمی صاحب‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کئی سال کی بات ہے، 1948 کا سال رہا ہو گا یا شاید 1949 کا۔ ان دنوں ترقی پسند ادب کے چرچے ہر طرف تھے۔ اس لیے میں بھی ان کے نام سے آشنا تھا لیکن ان کی شاعری کے توسط سے نہیں بلکہ ان کے افسانوں کے توسط سے۔ نظم کا آخری بند میرے دل پر کچھ ایسا نقش ہوا کہ آج تک دھندلایا نہیں ہے۔زندگی کو سنوارنے کی مہمکب مقدر کے اختیار میں ہےیہ زمیں پہ خلا کی رقاصہآدم نو کے انتظار میں ہےزمین کے لیے خلا کی رقاصہ کا استعارہ، مجھے بہت اچھا لگا۔‘احمد ندیم قاسمی نے ادبی سفر کا آغاز سنہ 1931 میں اس وقت کیا جب اسی برس جنوری میں تحریک آزادی کے نامور رہنما مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ان کی نظم لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔انہوں نے مگر اسی دور میں افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے اور اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا جس کی تعریف بے مثل سعادت حسن منٹو نے بھی کی جس کا اظہار انہوں نے اختر شیرانی کو لکھے خط میں کچھ یوں کیا:’رومان صحیح معنوں میں ‘جوان افکار‘ کا علم بردار ہے، اس کے شمارے میں جتنے افسانے شائع ہوئے ہیں، سب کے سب فنی نقطہ نگاہ سے معیاری ہیں، خاص کر ’بے گناہ‘ مجھے بے حد پسند آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے قابل مصنف احمد ندیم قاسمی بی اے سے تعارف حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘
احمد ندیم قاسمی نے ادبی صحافت میں ’فنون‘ کے ذریعے تین نسلوں کو متاثر کیا۔ (فائل فوٹو: ریختہ)
بعد ازاں منٹو نے احمد ندیم قاسمی کے نام خط میں ان کے افسانے ’بے گناہ‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ کا افسانہ ’بے گناہ‘ واقعتاً میں نے بے حد پسند کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے جذبات میں ڈوبے ہوئے افسانے اردو میں بہت کم شائع ہوئے ہیں۔‘
یہ اس بے مثال دوستی کی ابتدا تھی جو منٹو کی وفات تک برقرار رہی۔ دونوں میں خط و کتابت بھی ہوتی رہی جسے قاسمی نے ’منٹو کے خطوط ندیم کے نام‘ کے عنوان سے یکجا کیا۔ اس میں بہت سے ایسے خطوط مل جائیں گے جن میں منٹوؔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی قاسمی کا ہی بڑا پن ہے کہ انہوں نے یہ خطوط شائع کیے۔وہ خود کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’صرف ندیم کے نام منٹو کے خطوط کو یکجا کر دینے میں سوائے اس کے کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ تخصیص سے بظاہر مرتب کی خودنمائی کا پہلو نکلتا ہے لیکن جب آپ منٹو کے خطوط پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اگر میرے پیش نظر خودنمائی ہوتی میں ان خطوط کو یکجا ہی نہ کرتا۔ اس لیے کہ منٹو نے جگہ جگہ میری ناکام تحریروں کی جانب اشارے کیے ہیں، مجھے جذبات زدہ قرار دیا ہے۔‘احمد ندیم قاسمی کے فنِ افسانہ نگاری کا ذکر ہوا تو اردو کی معروف افسانہ نگار اور ناول نگار الطاف فاطمہ لکھتی ہیں کہ ’انہوں نے اپنے عہد کو اس کی تمام تر سچائیوں اور ان سچائیوں کے اندر چھپے درد و کرب کو اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ جب ہم ان کا کوئی افسانہ پڑھیں گے، اس کی وساطت سے اس مخصوص موضوع کا پورا ماحول اور پورا تاثر ایک جیسی وحدت بن کر قاری کے اندر اترتا ہے جیسے وہ اس ماحول اور زمانے کے اندر موجود ہو اور اسی کا حصہ ہے۔‘
احمد ندیم قاسمی کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا تو اس کی تعریف سعادت حسن منٹو نے بھی کی۔ (فائل فوٹو: رضا رومی ڈاٹ کوم)
یوں تو قاسمی کے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ تعداد میں ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں سے کم نہیں ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’پرمیشر سنگھ‘، ’کپاس کے پھول‘ اور ’مامتا‘ شامل ہیں مگر ان کا افسانہ ’گنڈاسا‘ اس لیے یادگار ہے کہ اس نے پاکستانی فلمی منظرنامے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔
قاسمی کے دیگر افسانوں کی طرح اس افسانے میں بھی دیہی پس منظر ہے جس کا مرکزی کردار مولا نامی ایک پہلوان ہے۔ کہانی سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:’اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آکر نہایت وحشت سے بولنے لگی ’تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تو نے۔۔‘ وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی۔ ’تو تو رو رہا ہے مولے؟‘ مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے سے بولا۔ ’تو کیا اب روؤں بھی نہیں۔‘اس افسانے کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید یہ اردو کے ان چند افسانوں میں سے ایک ہے جس کے اثرات نے پاکستانی فلمی صنعت کا رُخ ہی موڑ دیا اور فلموں میں ’گنڈاسا‘ کلچر کی آمد کا باعث بنا۔ پاکستان کی سب سے کامیاب فلم ’مولا جٹ‘ کی کہانی اسی افسانے سے ماخوذ ہے۔قاسمی نے اپنے افسانوں کے انداز کو حقیقت پسندی کے اسلوب سے جدا کرنے کے لیے ان کے لیے صداقت پسندی کی اصطلاح استعمال کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حقیقت یک رخی ہوتی ہے جب کہ صداقت میں کسی بھی سچائی پر کئی پہلوؤں سے روشنی پڑتی ہے۔ قاسمی کے بقول ’اگر ہم حقیقت پسندی اور صداقت پسندی کے فرق کو اپنے ذہنوں میں واضح کر لیں تو ادب و فن میں حقیقت کے اظہار سے متعلق ہماری الجھنیں دور ہو سکتی ہیں۔‘
پاکستان کی سب سے کامیاب فلم ’مولا جٹ‘ کی کہانی احمد ندیم قاسمی کے افسانے سے ماخوذ ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب)
محبت ایک ایسا موضوع ہے جو قاسمی کے افسانوں کے علاوہ شاعری میں بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ ان کے قریباً 35 افسانے محبت کے موضوع پر ہیں۔ ان کی شاعری میں بھی جا بجا رومان نظر آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اصل جوہر نظم میں کھلا مگر انہوں نے اپنی غزل میں بھی ایسے یادگار شعر کہے جو ضرب المثل بن گئے جیسا کہ ان کے یہ اشعار:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گامیں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گاتیرے پہلو سے اٹھوں گا تو مشکل یہ ہےصرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گایا ان کا شعر:دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتامیں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوںان کے ان شعروں میں موجود رومانویت ان کے افسانوں میں بھی نظر آتی ہے اور ان کی نظموں میں بھی جن کے بارے میں ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں کہ ’جہاں تک نظم کا معاملہ ہے، ندیم صاحب کی بڑی صفت یہ تھی کہ ان کے تخیل میں کچھ اس طرح کی آسمان گیری ہے جو اقبال کی یاد دلاتی ہے اور اقبال ہی سے متاثر معلوم ہوتی ہے۔ یعنی اقبال جس آسانی اور بے تکلفی سے فلک، چاند، تاروں، سورج، خلائے بسیط اور زمان و مکان پر مبنی استعارے اور پیکر اپنی نظم اور غزل میں استعمال کرتے، کچھ اس طرح کی آسمان گیری قاسمی صاحب کے یہاں بھی ہے۔‘
احمد ندیم قاسمی نے اپنے طویل فنی سفر کے دوران 50 سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ (فائل فوٹو: سنگ میل)
ایک افسانہ نگار اور شاعر ہونے کے علاوہ قاسمی کا ایک اور تعارف یہ ہے کہ انہوں نے کالم نگاری کا اپنا منفرد اسلوب متعارف کروایا۔ انہوں نے فکاہیہ کالم بھی لکھے اور سنجیدہ بھی مگر ان میں ان کا اپنا منفرد انداز برقرار رہا۔ ظفر اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’ندیم صاحب کا کالم ان کی شگفتہ و شاداب اور ہنس مکھ طبیعت کی پوری طرح آئینہ داری کا حامل ہوا کرتا تھا۔ البتہ بعد میں مثلاً جنگ میں آنے کے بعد انہوں نے سنجیدہ کالم ہی لکھے حالاں کہ ان کی شگفتہ گوئی آخر دم تک ان کے ساتھ رہی۔‘
قاسمی نے پاکستان کے ابتدائی ایام میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔ ادارت چھوڑنا پڑی، معاشی خسارہ برداشت کرتے رہے مگر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ ان کی صحافتی زندگی ان کے اس شعر کی عملی تعبیر تھی:کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلامہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیںقاسمی صاحب کا ایک اور اہم کام ’فنون‘ کا اجرا تھا جس نے اردو ادب تخلیق کرنے والے نئے ادیبوں اور شاعروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم کیا جس پر وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کھل کر کر سکتے تھے۔ یہ جریدہ قاسمی کے آخری دور تک جاری رہا اور پیرانہ سالی کے باوجود قاسمی خود خطوط کے جواب دیا کرتے اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ ان کی اصلاح بھی کیا کرتے۔ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں کہ ’اپنے بہترین دنوں میں ’فنون‘ سے زیادہ تازہ کار، فکر انگیز مضامین اور عمدہ شعر و افسانہ چھاپنے والا کوئی رسالہ پاکستان میں موجود نہ تھا۔ کراچی کے رسالے نئی تحریروں کے بارے میں بہت محتاط بلکہ قدامت پرست تھے لیکن قاسمی صاحب ہمیشہ نئی اور متنازعہ ہو جانے والی تخلیقات کے جویا رہتے تھے۔‘
ایک افسانہ نگار اور شاعر ہونے کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کا ایک اور تعارف یہ ہے کہ انہوں نے کالم نگاری کا اپنا منفرد اسلوب متعارف کروایا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
قاسمی وزیر آغا مرحوم کے ساتھ اپنے اختلافات یا پھر فیض کے بارے میں رائے زنی کرنے کی وجہ سے بھی خبروں میں رہے مگر اس سے ہٹ کر وہ ایک ایسے ادیب تھے جنہوں نے صرف ادب ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ اُن کی موجودگی نئے آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ تھی۔ اس لیے تو انہوں نے فخریہ انداز میں کہا تھا،
ندیم میرے جلو میں تھی نسل مستقبلمیں صرف ایک تھا اور بے شمار ہو کے چلایہ بے مثل افسانہ نگار اور شاعر آج ہی کے روز 10 جولائی 2006 کو لاہور میں طویل علالت کے بعد چل بسے۔ اس وقت ان کی عمر 90 برس تھی۔انہوں نے اپنے طویل فنی سفر کے دوران 50 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن میں شاعری کے 11 اور افسانوں کے 17 مجموعے شامل ہیں۔ آخر میں ان کی نظم کا یہ حصہ دیکھیے جو ان کے مجموعہ کلام ’ارض و سما‘ میں شامل ہے:آئو جینے کی کوشش کریںزندگی موت کی طرح ایک بار ملتی ہےایک بار جی بھر کے جی لیںموت آئے تو ہم زندگی کا سفر ختم کرنے کو تیار بیٹھے ہیںکوئی تمنا ادھوری نہ ہویعنی کچھ اور جینا ضروری نہ ہو!