ایک روپیہ ملتا تو عید ہوجاتی ۔۔ فکروں سے آزاد ہمارا سہانا بچپن جو دور کہیں کھوگیا

image

پاکستان میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے، دیہاڑی دار مزدور ہو یا سرکاری ملازمین ہر شخص مہنگائی سے پریشان دکھائی دیتا ہے، آج آٹا، چینی، گھی، تیل سمیت ہر چیز کے دام آسمان کو چھور ہے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا دور بھی گزرا ہے جب ہر چیز انتہائی سستی اور زندگی فکروں سے آزاد تھی۔

لوگ کہتے ہیں کہ یاد ماضی عذاب ہے لیکن اکثر لوگوں کی ماضی سے ایسی یادیں جڑی ہوتی ہیں جو چاہ کر بھی بھلانا ممکن نہیں ہے، اسی طرح اگر ہم مہنگائی کی بات کریں تو 60ء سے 90ء تک کا دور انتہائی سستا تھا۔

آج سرکاری طور پر مزدور کی تنخواہ 25 ہزار ہے جس کا اس زمانے میں تصور بھی محال تھا بلکہ 3، 4 یا پانچ سو تنخواہ ایک خاندان کیلئے کافی ہوتی تھی، جہاز کا سفر ہو یا ٹرین کی سیر ہر جگہ مناسب ریٹس تھے۔

آج 100 روپے کلو سے زیادہ میں بکنے والا آٹا آنے کے حساب سے ملتا تھا اور ایک روپے کا نوٹ خریداری کیلئے بہت اہمیت رکھتا تھا جبکہ آج ہزار روپے کا نوٹ بھی اپنی وقعت کھوچکا ہے۔

آج مرغی کھانا ایک فیشن بن چکا ہے جبکہ ماضی میں گھروں میں مرغی صرف کسی کے بیمار ہونے پر ہی پکتی تھی جبکہ گھروں میں ہفتے بھر کا مینو پہلے سے سیٹ ہوتا تھا اور جمعہ کو چھٹی کے روز بریانی بنتی تھی۔ ایک گھر میں بننے والا کھانا آس پڑوس کے گھروں میں بھی بھجوایا جاتا تھا۔

عید تہوار پر نئے کپڑے ملتے تھے اور عیدی میں ملنے والے کرارے نوٹ خرچ کرنے کا دل ہی نہیں کرتا تھا، ایک روپے کا نوٹ اگر کبھی کوئی مہمان دے جاتا تو ہماری عید ہوجاتی۔ بازار کے کھانوں کا کوئی فیشن نہیں تھا بلکہ مہمانوں کی آمد کے ساتھ خاص پکوان بنتے اور محلے دار بھی ایک گھر میں آنے والے مہمانوں کو اپنے گھر مدعو کرنا خوشی کا باعث سمجھتے تھے۔

گرمیوں کی چھٹیاں ننھیال میں گزارنے کیلئے پورا سال انتظار کیا جاتا۔ محلے کا ہر بزرگ دادا یا چاچا اور خاتون پھوپھو یا خالہ کہلاتی تھی۔ پرائے رشتے بھی اپنوں سے زیادہ قریب لگتے تھے۔

ایک گھر میں شادی ہوتی تو پورا محلہ تیاریوں میں ساتھ ہوتا اور اگر کسی گھر میں میت ہوجاتی تو بھی محلے کے لوگ ہی انتظامات دیکھتے اور گھر والوں پر کوئی بوجھ نہ پڑنے دیتے۔

خواتین سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے اپنے گھروں کو سجانے میں وقت صرف کرتیں، بچوں کے کپڑے گھروں میں سلائی کرنا معمول کی بات تھی۔ گرمیوں میں  لڑکوں کی ٹنڈ کروادی جاتی اورایک ہی تھان لاکر مردوں کے ایک جیسے کپڑے سلوائے جاتے۔

گڑیاں گڈے کی شادیاں رچائی جاتیں اور گلی میں چھپن چھپائی اور پٹھو گرم کھیلا کرتے۔ کرکٹ میچ کیلئے محلے میں جس کے گھر ٹی وی ہوتا سب وہیں جمع ہوجاتے اور ڈرامہ دیکھنے کیلئے طویل کمرشل کے دوران بھی دم سادھے بیٹھے رہتے۔

کسی گھر میں کوئی بیمار ہوجاتا تو محلے داروں کی لائن لگ جاتی لیکن افسوس کہ آج ایک گھر میں کسی کو دوسرے کی خبر نہیں ہوتی، اس لئے اکثر سوچتے ہیں کہ فکر سے آزاد ہمارا سہانا بچپن نجانے کہاں کھوگیا۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.