اس مچھلی سے آپریشن میں استعمال ہونے والا دھاگہ بنتا ہے، چین میں اس کے پوٹے کو سونے کی طرح سنبھال کر رکھا جاتا ہے، سوا مچھلی کا پوٹا کھانے کے علاوہ بوقت ضرورت بیچا بھی جاتا ہے، پاکستانی ماہی گیر اکثر سوا مچھلی پکڑنے کیلئے بھارتی نیوی کا شکار بھی بن جاتے ہیں، اس مچھلی کی خصوصیات اور استعمال کے بارے میں وہ معلومات جو شائد آپ کو پہلے نہ پتا ہوں۔
ٹھٹھہ میں چند روز پہلے پکڑی گئی قیمتی 591 سوہا مچھلیاں 50 کروڑ روپے میں نیلام کی گئیں، یہ قیمتی اور نایاب 591مچھلیاں 3 لانچوں کے ماہی گیروں نے پاک بھارت سرحد کے قریب واڑی کریک کے ساحلی علاقے سے پکڑی تھیں۔
یہ قیمتی "سوہا "مچھلیاں فشریز کراچی میں نیلام کی گئیں اور اب قیمتی اور نایاب مچھلیاں بیرون ملک بھجوادی جائینگی۔ یوں تو مچھلی پورا سال کھائی جاتی ہے لیکن سردی میں مچھلی کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔پاکستان کے تمام صوبوں میں میٹھے اور کھارے پانی کی مچھلی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔
پاکستانی مچھلی کو دنیا کے مختلف ممالک میں ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے،مچھلی چاہے جتنی بھی ذائقہ دار اور فائدہ مند کیوں نہ ہو لیکن لاکھوں روپے کلو کی بات آسانی سے ہضم نہیں ہوتی لیکن یہ حقیقت ہے۔یہ مچھلی کیوں اتنی مہنگی ہے اور اس کی خصوصیات کیاہیں۔ اس سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان نے مالی سال 2021/22کے دوران جنوری تا جولائی تک چھ ماہ میں صرف سی فورڈز کی ایکسپورٹ سے 231 ملین ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کمایا۔
اب آتے ہیں کہ 519 مچھلیاں کیسے 50 کروڑ میں فروخت ہوئیں ۔یہ کوئی عام مچھلیاں نہیں بلکہ دنیا کی مہنگی ترین مچھلیوں کی ایک نسل تعلق رکھتی تھیں۔اس مچھلی کو پاکستان میں "سوا" ۔ "کر" اور کروکر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس مچھلی کا حقیقی نام ارگائیروسومس جیپونیکس (Argyrosomus japonicus) یا مولوئے (Mulloway) ہے۔
اس مچھلی میں ایک خاس قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مہنگا ہونے کی وجہ اس مچھلی میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس پوٹا کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے جاتی ہے۔
یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں یہ پوٹے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔چین کے لوگ اس پوٹے کو ناصرف شوق سے کھاتے بلکہ گھروں میں سونے (گولڈ) کی طرح سنبھال کر بھی رکھتے ہیں۔
جس طرح ہم ضرورت پر پڑنے پر سونے کو بھاری قیمت پر فروخت کرتے ہیں اسی طرح چینی لوگ اس پوٹے کو ضرورت کے وقت بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔سوا مچھلی کا پوٹا چینی ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس مچھلی کے بلیڈر کو لین دین کیلئے کرنسی کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں اکثر سوا مچھلی پائی جاتی ہے جبکہ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس مچھلی کی آماجگاہ ہے۔ اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔
سوا مچھلی کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں، یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔3 لاکھ روپے سے شروع ہوکر کروڑوں روپے تک فروخت ہونے والی یہ مچھلی اپنی قدر وقیمت کی وجہ سے تیزی سے ختم ہورہی ہے۔
ماہی گیر کئی کئی روز کی محنت مشقت کے بعد اکثر ناکام لوٹتے اور کئی کئی روز کے انتظار کے بعد اب ایک ، دو مچھلیاں ہی ہاتھ آتی ہیں۔گزشتہ دنوں پکڑی جانے والی 591 مچھلیاں 50 کروڑ میں فروخت ہوئیں جس کے بعد غریب ماہی گیر کروڑ پتی بن گئے ہیں۔