حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں چینی کے کم ذخائر کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر مختلف عوامی حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ ابھی چند ماہ قبل ہی تو چینی کے وافر مقدار کا کہہ کر چینی برآمد کی گئی تھی اور اب چینی کی قلت ظاہر کرکے درآمد کی جارہی ہے۔
چینی کے اسٹاک کے حوالے سے اس قدر تضاد کے حوالے سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کا چینی کی برآمد کا فیصلہ غلط تھا یا اب درآمد کرنے کا غلط ہوگا ؟ اور ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں جو نقصانات ہو رہے ہیں اس کا زمہ دار کون ہے؟
وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین سے ہماری ویب نے ان سوالات کے جوابات کے لیے رابطہ کیا لیکن بجٹ اجلاسوں میں مصروفیت کی وجہ سے ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
مارکیٹ میں چینی کی دستیابی اور قیمتوں کی تازہ صورتحال:
مارکیٹ ذرائع کے مطابق چینی کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن اچھی خاصی مہنگی ہوگئی ہے، چینی جب برآمد ہونے کے بعد مجموعی طور پر چینی کی فی کلوگرام قیمت میں 50 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔
تاجر رہنما مزمل رؤف چیپل نے ہماری ویب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تھوک مارکیٹ میں ڈیمانڈ کے مطابق چینی کی سپلائی نہیں دی جارہی ۔ ملز سے جتنا آرڈر کرتے ہوئے اس کی آدھی سپلائی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں، مزمل روف کے مطابق چینی کی ایکس مل قیمت 175 روپے جبکہ ریٹیل میں185 روپے تک فروخت ہورہی ہے۔ کیا چینی کی درآمدسے چینی کی قیمت کم ہوجائےگی؟
مزمل رؤف نے بتایا کہ ایسا ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ اس وقت 550 ڈالرفی ٹن چینی کی امپورٹ لاگت ہے یعنی درآمد ہونے کے بعد چینی 200 روپے میں پڑے گی البتہ اگر حکومت تمام ڈیوٹی ہٹا دے تو لاگت کم ہوسکتی ہے۔
چینی مافیاکون؟
میڈیا میں طویل مدت سے چینی مافیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اس مافیا یا نیٹ ورک میں کون لوگ ہیں اور یہ نیٹ ورک کس طرح کام کرتا ہے؟
اس بارے میں حاصل معلومات کے مطابق اس نیٹ ورک میں سب سے مرکزی کردار شوگر ملز مالکان کا ہے یہ واحد انڈسٹری ہے جس میں کوئی بھی عام صنعت کار یا تاجر نہیں بلکہ ہر شوگر ملز مالک کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے، بیشتر شوگر ملز مالکان قومی وصوبائی اسمبلیوں میں ہیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے اپنے شوگرملز ہیں شوگر ملز مالکان ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور گنے کی امدادی قیمت طے ہونے سے لے کر چینی کی درآمد وبرآمد کے تمام فیصلے اپنے حق میں کرکے معمول کی کمائی کے علاوہ بھی بڑی بڑی دیہاڑیاں بناتے رہتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان کے ساتھ ملک بھر کی تھوک مارکیٹوں میں بڑے ڈیلرز کی ایک بڑی نیٹ ورک بھی جڑی رہتی ہے جو چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کو بڑھانے میں ساتھ دیتے ہیں۔
چینی مافیا کا سب سے بڑا ہتھیار ،اعدادوشمار میں ہیر پھیر !
ملک میں گنے کی فصل کتنی ہوئی اور اس سے کتنی چینی حاصل ہوئی اور چینی کے کتنے اسٹاک ہیں ؟ ذرائع کے مطابق حکومتی اداروں کے پاس درست اعداد وشمار نہیں ہوتے۔وفاقی ادارہ شماریات، فوڈ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ، اسٹیٹ بینک سمیت تمام حکومتی ادارے اندازوں کے مطابق اعداد وشمار جاری کرتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان ٹیکس سے بچنے کے لیے تیار چینی کی سپلائی کرتے ہوئے بھی درست انٹری نہیں کرتے، فیڈرل بورڈ ریونیو کی جانب سے ٹریک اینڈ ٹریس سٹم کی تجویزبھی دی گئی ہے لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا۔ چینی بڑی مقدار میں افغانستان بھی اسمگل ہوتی ہے جس سے اسٹاک کے حوالے سے صورتحال مزید مبہم ہوجاتی ہے۔ شوگرملز مالکان اور ان سے جڑے ڈیلرز اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گنے کی خریداری کے وقت افواہیں اڑائی جاتی ہیں کہ چینی کے اسٹاک بہت زیادہ ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسانوں سے سستا گنا خریدلیا جاتا ہے دوسری جانب حکومت سے سبسڈی حاصل کرلی جاتی ہے اور کسانوںکی جانب سے جب فوری ادائیگی نہ ہونے پر احتجاج ہوتا ہے تو بینکوں سے رعائتی قرضے بھی حاصل کرلیے جاتے ہیں۔
چینی میں سٹہ مافیا کس طرح کام کرتا ہے اسی طرح چینی برآمد کرنی ہو تو چینی کے وافر اسٹاک کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور جب درآمد کرنا ہو یا چینی کی قیمتیں بڑھانی ہو تو اسٹاک کم ہونے کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں انہی افواہوں کی بنیاد پر ایک باقاعدہ سٹہ مافیا بھی کام کرتا ہے جس کا کام چینی کی خرید وفروخت کے بجائے بیٹھے بٹھائے قیمتوں پر سٹہ کھیلنا ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سٹہ مافیا کا طریقہ کار یہ ہے کہ چینی گوداموں میں پڑی رہتی ہے اور وہ زبانی سودے کرتے ہیں یہ سودے ایک پرچی کے ذریعے ہوتی ہے جسے ڈی اوز یعنی ڈیلوری آرڈرز کہتے ہیں قیمت بڑھنے پر ڈی اوز مہنگے بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے۔
چینی کی قیمتیں بڑھاکر ماہانہ کی کتنی دیہاڑی بنائی جارہی ہے؟
جس طرح چینی کی پیداور اور اسٹاک کا بالاکل ٹھیک ڈیٹا دستیاب نہیں اسی طرح پاکستان میں ماہا نہ یا سالانہ کتنی کھپت ہے اس بارے میں بھی متضاد دعوے کیے جاتے ہیں، بعض جگہ سرکاری سطح پر پانچ لاکھ 33 ہزار ٹن ماہانہ کھپت ظاہر کیا جاتا ہے جب کہ شوگر ملز اور ڈیلرز کی جانب سے اس سے بھی زیادہ کھپت کا دعو یٰ کیا جاتا ہے اگر پانچ لاکھ ٹن ماہانہ کھپت بھی مان لی جائے تو چینی کی قیمت میں تقریباً 50 روپے اضافے کے حساب سے ماہانہ معمول کی کمائی کے علاوہ 25 ارب روپے کی اضافی دیہاڑی بنائی جارہی ہے یعنی 25 ارب روپے عوام کے جیبوں سے نکل کر شوگرملز مالکا ن اور چینی کے ڈیلرز، سٹہ بازوں اور بڑے ہول سیلرز کے جیبوں میں جارہے ہیں۔
کیا چینی درآمد کرنی چاہیے؟
سابق ممبر قومی اسمبلی محمود مولوی کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی حکومت کو آج تک اندازہ نہیں ہوسکا کہ چینی امپورٹ اور ایکسپورٹ کب کرنی چاہیے۔
محمود مولوی کے مطابق وافر مقدار میں چینی موجود ہے، حکومت چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیے فوری کریک ڈاؤن شروع کرے، محمود مولوی نے چینی درآمد کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران خود چینی کے کاروبار سے وابستہ ہیں ،کئی شوگر ملز مالکان اسمبلیوں کا حصہ بھی ہیں چینی امپورٹ کرنے کے فیصلے سے کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، سابق ممبر قومی اسمبلی کے مطابق ایکسپورٹ کی اجازت دینے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ معاملے کی تحقیقات کے لیے نیب اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنانی چاہیے۔