انڈیا کی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم نریندر مودی پر نشر کی گئی بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کو مسترد کیا ہے جس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مودی بطور وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی پر نشر کی گئی بی بی سی کی دستاویزی فلم کو ’پراپیگنڈہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ نامی اس دستاویزی فلم میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مودی بطور وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کو روکنے اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں ناکام کیوں ہوئے۔
خیال رہے کہ 2002 میں مودی انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے جب وہاں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوئی تھیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ایک ٹرین میں آگ لگی اور اس واقعے میں 59 افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔
مودی نے بارہا اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ سنہ 2012 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس کیس میں نریندر مودی کو بے قصور قرار دیا تھا جبکہ اس فیصلے کے خلاف ہونے والی اپیل کو بھی گذشتہ سال خارج کر دیا گیا تھا۔
مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم پروپیگنڈا ہے: انڈین وزارت خارجہ
انڈین وزارت خارجہ نے مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ’مسترد شدہ بیانیے‘ کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے بی بی سی کی ڈاکومنٹری کو ’متعصب‘ کہا ہے۔ ان کے مطابق اس میں ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ اور ’جانبداری‘ کھل کر نظر آتی ہے۔
انھوں نے کہا ’ہم اس کے مقصد اور پس پردہ ایجنڈے پر سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اور ہم ایسی کوششوں کو ردعمل کے قابل نہیں سمجھتے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بی بی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈاکومنٹری کے لیے مفصل تحقیقات کی گئی ہیں اور اس میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت کئی لوگوں کا مؤقف شامل ہے۔ ’ہم نے انڈین حکومت کو جواب کا حق دیا تاہم اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔‘

بی بی سی کی مودی سے متعلق دستاویزی فلم کے دو حصے ہیں جن میں سے ایک 17 جنوری کو ریلیز ہوا جبکہ اس کی دوسری قسط 24 جنوری کو نشر کی جائے گی۔
اس کا خلاصہ کچھ یوں کیا گیا ہے کہ ’نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنھیں دو بار انڈیا کا وزیر اعظم منتخب کیا گیا اور انھیں اپنی نسل کے سب سے طاقتور سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
’مغرب انھیں ایشیا میں چینی تسلط کے خلاف دفاع کے طور پر دیکھتا ہے۔ انھیں امریکہ اور برطانیہ دونوں اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
اس خلاصے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تاہم نریندر مودی کی حکومت پر الزامات لگتے رہے ہیں اور اس کی وجہ انڈیا کی مسلم آبادی سے متعلق اس کا رویہ ہے۔‘
’اس سیریز میں ان الزامات کی حقیقت پر تحقیقات کی گئی ہے۔ مودی کی پس پردہ کہانی اور انڈیا کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت سے متعلق ان کی سیاست پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
گجرات فسادت: ’شہر جلتا رہا اور فوج ایئر پورٹ پر گاڑیوں کا انتظار کرتی رہی‘
انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ: گجرات فسادات کے ملزمان کو ضمانت کیسے ملی؟
مودی کی ہندو قوم پرستی بھی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ کیوں نہ بنی؟

پہلی قسط میں اس چیز پر نظر دوڑائی گئی ہے کہ نریندر مودی نے سیاست میں کون سے ابتدائی قدم لیے جس میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں عروج شامل ہے۔ اس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ کیسے گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے جہاں ’2002 کے فسادات پر ان کا ردعمل تنازع کا باعث بنا۔‘
جبکہ دوسری قسط میں 2019 کے بعد نریندر مودی کی حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھا گیا ہے۔ ’کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے لے کر شہریت کے نئے قانون تک، کئی متنازع پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر پُرتشدد حملے کیے۔‘
قسط کے خلاصے کے مطابق ’مودی اور ان کی حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے جن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف متعصب رویہ رکھتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ انڈین حکومت کے مطابق مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات میں اس تنظیم کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں جس کے بعد اس نے دلی میں اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں۔ ایمنسٹی اس الزام کی تردید کرتی ہے۔‘

برطانیہ کی ’غیر شائع شدہ رپورٹ‘، پارلیمنٹ میں وزیر اعظم رشی سونک کا ردعمل
یہ دستاویزی فلم برطانوی دفتر خارجہ کی ایک غیر شائع شدہ رپورٹ پر مبنی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2002 میں گجرات میں پُرتشدد ماحول پیدا کیا گیا اور مودی اس کے ’براہ راست قصور وار‘ تھے۔
مودی نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم برطانوی دفتر خارجہ کی رپورٹ لکھنے والے برطانوی سفارتکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آج بھی رپورٹ کے نتائج پر قائم ہیں۔
برطانوی سفارتکار نے کہا کہ ’ہماری تحقیقات کے نتائج اب بھی درست ہیں۔ 2002 کے دوران گجرات میں دو ہزار لوگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔‘
یہ تحقیقاتی رپورٹ اس وقت کے برطانوی وزیر جیک سٹرا کی ہدایت پر تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پُرتشدد واقعات کی شدت ذرائع ابلاغ میں چلنے والی خبروں سے کہیں زیادہ تھی اور ان فسادات کا مقصد مسلمانوں کو ہندو اکثریتی علاقوں سے نکالنا تھا۔
برطانوی پارلیمنٹ میں ایم پی عمران حسین نے وزیر اعظم رشی سونک سے پوچھا کہ کیا وہ سفارتکاروں کی اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہیں اور وزارت خارجہ کے پاس اس معاملے پر مودی سے متعلق مزید کیا معلومات ہے۔

اپنے جواب میں رشی سونک نے کہا کہ وہ ایم پی کی جانب سے کی گئی ’شخصیت سازی‘ سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طویل عرصے تک برطانوی حکومت کا مؤقف واضح رہا ہے اور یہ آج بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ہم دنیا میں کہیں بھی ظلم کو برداشت نہیں کرتے۔ تاہم میں معزز ایم پی کی جانب سے کی گئی بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔‘
بی بی سی کے ترجمان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’بی بی سی دنیا بھر کے اہم مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس دستاویزی فلم میں انڈیا کی اکثریت ہندوؤں اور اقلیت مسلمانوں کے درمیان تناؤ کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس کشیدگی میں وزیر اعظم مودی کی سیاست پر نظر دوڑائی گئی ہے۔‘
بی بی سی نے کہا ہے کہ اس دستاویزی فلم کے لیے گواہان، تجزیہ کاروں اور عام لوگوں سے بات کی گئی ہے جس میں بی جے پی کے لوگ بھی شامل ہیں۔
ادھر سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے کہا ہے کہ ’یہ بہت حیران کن رپورٹس تھیں۔ وزیر اعلیٰ مودی کے کردار کے حوالے سے سنجیدہ دعوے کیے گئے تھے اور یہ باتیں سامنے آئی تھیں کہ پولیس کو پیچھے رکھا گیا جبکہ ہندو انتہا پسندوں کو اُکسایا گیا۔‘
جیک سٹرا نے یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے پاس محدود راستے تھے۔ ہم کبھی انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ نہیں سکتے تھے لیکن یہ مودی کی ساکھ کے لیے نقصان دہ رہا۔‘