ایران کے خلاف فتح کا دعویٰ کرنے والے نتن یاہو پر سے ’کئی اسرائیلیوں کا اعتماد اُٹھ رہا ہے‘

مارچ میں اسرائیلی وزیر اعظم نے جنگ بندی کے ایک ایسے عمل کو ٹھکرایا جس سے مثبت نتائج حاصل ہوئے تھے۔ انھوں نے ایسا فیصلہ کیا جسے مبصرین نے ’سیاسی خود کشی‘ کہا۔ اب رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق قبل از وقت انتخابات نتن یاہو کے لیے مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔
نتن یاہو
Reuters
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق قبل از وقت انتخابات کا ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ نتن یاہو کو ایران کے خلاف 12 روزہ لڑائی سے جو مقبولیت ملنے کی امید تھی وہ نہیں مل پائی

مارچ میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایسے جنگ بندی کے عمل کو ٹھکرا دیا جس سے نتائج حاصل ہو رہے تھے۔ انھوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جسے مبصرین نے ’سیاسی خود کشی‘ قرار دیا تھا۔

غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر سٹیو وٹکوف کی ثالثی میں ایک ایسے وقت میں تشکیل پایا تھا جب امریکی صدر نے دوسرے دور صدارت کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔ اس سے اسرائیلی جیلوں میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کی تحویل میں درجنوں یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔

اگلے مرحلے میں مزید یرغمالیوں کی گھر واپسی ممکن ہو سکتی تھی جبکہ اسرائیلی فوجیوں کا غزہ سے مرحلہ وار انخلا ہو سکتا تھا۔ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں جنگ کے خاتمے پر بات چیت ہونی تھی۔

اس لڑائی سے تھکے ہارے اسرائیلی اور فلسطینی حالیہ تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگ کے خاتمے پر غور کر رہے تھے لیکن بنیامن نتن یاہو ابھی جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے تھے۔

غزہ میں حملے جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کو ’پوری طرح ختم نہیں کر دیا جاتا۔‘

غزہ میں بقیہ یرغمالیوں کی محفوظ واپسی کو بظاہر دوسری ترجیح بنایا گیا۔ (غزہ میں شہریوں کے نقصان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔)

کئی اسرائیلیوں، خاص کر یرغمالیوں کے لواحقین، نے اس فیصلے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔

انھوں نے نتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سیاسی بقا کے لیے یرغمالیوں کی محفوظ واپسی اور قوم کی بہتری کی قربانی دے رہے ہیں۔

حالیہ سرویز میں نتن یاہو عرف ’بیبی‘ کی شہرت میں کمی آئی۔ انھیں حکومتی اتحادیوں کو متحد رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو اور قدامت پسند مذہبی جماعتوں کے وزرا شامل ہیں۔

تین ماہ بعد نتن یاہو اپنے دشمن ایران کے خلاف ایک بڑی فوجی فتح کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ اب قبل از وقت انتخابات اور بطور وزیر اعظم ایک اور دور اقتدار کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

اس ہفتے کے اوائل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران 75 سالہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اب بھی کئی ’مشن‘ مکمل کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسا کرتے رہیں گے جب تک اسرائیل کے ’عوام‘ ان سے اس کا تقاضہ کریں گے۔ وہ اسرائیل کے سب سے طویل مدت تک رہنے والے وزیر اعظم ہیں۔

ہفتے کے اواخر میں نتن یاہو نے ایرانی جوہری پروگرام کی تباہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ایک ایسا ’موقع‘ قرار دیا جسے ’نظر انداز نہیں جا سکتا۔‘ نتن یاہو نے کہا کہ حماس کو شکست دی جائے گی اور بقیہ یرغمالیوں کو آزاد کرایا جائے گا جس کے بعد وہ وسیع علاقائی معاہدے کریں گے۔

مگر رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق قبل از وقت انتخابات کا ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ نتن یاہو کو ایران کے خلاف 12 روزہ لڑائی سے جو مقبولیت ملنے کی امید تھی وہ انھیں نہیں مل پائی۔

نتن یاہو
Reuters
بہت سے اسرائیلی نتن یاہو پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے غزہ جنگ کو غیر ضروری طور پر طول دے کر عالمی سطح پر اسرائیل اور اس کے معاشی عزائم کو نقصان پہنچایا

اعتماد

اسرائیل کے ایوان کنیست کی 120 نشستوں پر مخلوط حکومت قائم ہے۔ نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اخبار ماریو کے سروے کے مطابق نتن یاہو کی جماعت کو دائیں بازو کی چھوٹی جماعتوں سے حمایت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔

اسی سروے میں بتایا گیا کہ 59 فیصد اسرائیلی شہری یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے غزہ میں لڑائی ختم کروانا چاہتے ہیں۔

49 فیصد نے پوچھے جانے پر کہا کہ نتن یاہو کی سیاسی خواہشات وہ واحد وجہ ہے کہ جنگ جاری ہے۔

اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر تمار ہرمین نے کہا کہ ’وہ بہت باصلاحیت سیاسی کردار ہیں۔ اسرائیل میں ایسا کوئی باصلاحیت سیاستدان نہیں۔‘

لیکن وہ کہتے ہیں کہ نتن یاہو کا بڑا مسئلہ ’اعتماد‘ کا ہے۔

انھیں ایسا سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے جس نے طاقت سے جڑے رہنے کے لیے کئی بار موقف بدلا، اسی لیے اسرائیل کی اکثریت اب ان پر اعتماد نہیں کرتی۔

ایک نیا سروے جلد پروفیسر ہرمین کے ادارے کی طرف سے جاری کیا جائے گا۔ اس کے مطابق نتن یاہو ’50 فیصد اکثریت بھی نہیں حاصل کر پاتے، اس اعتماد سے کہ آیا اسرائیلی ان پر مکمل یا جزوی اعتماد کا اظہار کریں۔‘

ان کے مطابق قبل از وقت انتخابات نتن یاہو کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔ ’یہ ایران پر حملے سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں آپ کو نہیں معلوم کہ آپ چھ ماہ بعد کس پوزیشن پر ہوں گے۔‘

اگرچہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا داؤ بظاہر کام کر رہا ہے مگر نتن یاہو کی نظروں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ جنم لے رہا ہے۔

آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کئی حلقے اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف متحرک ہو رہے ہیں۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ ایک اور دورِ اقتدار کے خواہاں ہیں۔

نتن یاہو
Reuters
امریکی صدر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ نتن یاہو کے خلاف ٹرائل ’فوری طور پر منسوخ‘ ہونا چاہیے یا کم از کم انھیں معافی ملنی چاہیے

کرپشن کے الزامات

اگلے ہفتے نتن یاہو کو ایک ہائی پروفائل کرپشن کیس میں عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے، اس کیس میں انھیں رشوت اور دھوکہ دہی سمیت سیاسی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے اپنے مصروف شیڈول اور خصوصی ایمرجنسی (ایران جنگ) کی وجہ سے ہائی کورٹ کی سماعت میں ایک بار پھر تاخیر کی کوشش گزشتہ ہفتے کے آخر میں مسترد کر دی گئی تھی۔

نتن یاہو اور ان کے حمایتی متعدد بار یہ تاثر دینے کے کوشش کر چکے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف یہ کیس سیاسی انتقامی کارروائیوں کا حصہ ہے لیکن ان کے مخالفین بھی اتنے ہی پرعزم ہیں کہ انھیں انصاف کا سامنا کرنا ہو گا۔

امریکی صدر ٹرمپ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ نتن یاہو ایک ’عظیم ہیرو‘ اور ’جنگجو‘ ہیں جن کا ٹرائل ’فوری طور پر منسوخ‘ ہونا چاہیے یا کم از کم انھیں معافی ملنی چاہیے۔

یاد رہے کہ یہ وہی امریکی صدر ہیں جنھوں نے کچھ روز قبل ہی اسرائیلی وزیر اعظم کو عوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ کیونکہ ایران جنگ بندی معاہدے کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے خاتمے کی دھمکی دی جا رہی تھی۔

لیکن ٹرمپ کی حالیہ مداخلت کو اسرائیل میں کئی لوگ غیر عقلمندانہ دے رہے ہیں۔

اپوزیشن رہنما یائر لیپڈ نے کہا ہے کہ ٹرمپ کو ’ایک خودمختار ریاست کے قانونی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘

پروفیسر ہرمین کہتے ہیں کہ اسرائیل کے بارے میں ٹرمپ کا بظاہر متضاد موقف اور نتن یاہو کے کیس میں ان کی مداخلت کی کوشش ’ہمارے ساتھ بنانا ریپبلک جیسا سلوک‘ کرنے کے مترادف ہے۔

بہت سے اسرائیلی نتن یاہو پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے غزہ جنگ کو غیر ضروری طور پر طول دے کر عالمی سطح پر اسرائیل اور اس کے معاشی عزائم کو نقصان پہنچایا حالانکہ بہت سے سابق جنرلز کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں عسکری طور پر جتنا ممکن ہو سکتا تھا، اتنے نتائج حاصل کیے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بین الاقوامی کریمنل کورٹ نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف وارنٹ جاری کر رکھے ہیں تاہم اسرائیلی حکومت، نتین یاہو اور یوو گیلنٹ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں اب تک 55 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔

زیادہ تر مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور ابھی بھی کئی اسرائیلی یرغمال ہیں، ملک میں نئے انتخابات کا تصور کرنا مشکل ہو گا۔

لیکن نتن یاہو کے بہت سے ناقدین اور مخالفین گزشتہ برسوں میں یقینی طور پر یہ کبھی نہیں جان سکے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا اگلا اقدام کیا ہو سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.