اردن کی فلسطینی نژاد ملکہ رانیہ کی جیف بیزوس کی شادی میں شرکت پر تنقید کیوں؟

امریکی ارب پتی شخصیت اور ایمازون کمپنی کے بانی جیف بیزوس کی اٹلی میں اپنی منگیتر لورین سانشیز سے شادی کی شاہانہ تقریب کے دوران جہاں احتجاجی مظاہرے اور دیگر تنازعات نے جنم لیا وہیں اردن کی ملکہ رانیہ کی اس شادی میں شرکت بھی خاص طور پر مشرقِ وسطٰی میں زیرِ بحث ہے۔
Queen rania
Getty Images

امریکی ارب پتی شخصیت اور ایمازون کمپنی کے بانی جیف بیزوس کی اٹلی میں اپنی منگیتر لورین سانشیز سے شادی کی شاہانہ تقریب کے دوران جہاں احتجاجی مظاہرے اور دیگر تنازعات نے جنم لیا وہیں اردن کی ملکہ رانیہ کی اس شادی میں شرکت بھی خاص طور پر مشرقِ وسطٰی میں زیرِ بحث ہے۔

اٹلی کے خوبصورت شہر وینس اس سال کی مہنگی ترین شادی میں دنیا بھر کی مشہور شخصیات نے شرکت کی۔

یہ ارب پتی کاروباری شخصیت جیف بیزوس اور فوکس ٹی وی اور اے بی سی ٹاک شو دا ویو کی سابق میزبان لورین سانشیز دونوں کی دوسری شادی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ سے متعلق بی بی سی اردو کی تحاریر براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں

لورین اور جیف گذشتہ کئی برسوں سے ایک ساتھ ہیں اور مئی 2023 میں ان دونوں کی منگنی ہوئی تھی۔

اس شادی میں 200 افراد کو مدعو کیا گیا تھا جن میں فیشن ڈیزائنر ڈيان وون فورستنبرگ، ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور داماد جیرڈ کشنر بھی شامل تھے۔

تاہم عرب سوشل میڈیا پر شہزادی رانیہ کی اس شادی میں شرکت کے حوالے سے جہاں ان کے لباس کی تعریف کی جا رہی ہے وہیں ان پر ایمازون کی اسرائیل میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں کی گئی سرمایہ کاری کے تناظر میں تنقید کی جا رہی ہے۔

Queen Rania
Getty Images

انسٹاگرام پر ایک صارف بوطینہ عزابی نے لکھا کہ ’میرا خیال تھا کہ صرف ملکہ رانیہ اس شادی میں شریک ہیں۔ لیکن میں غلط تھی۔ ان کے بچوں نے بھی اس میں شرکت کی۔ ایک فلسطینی ملکہ، ایک ایسے ملک سے جس کی سرحدیں خون آلود غزہ سے ملتی ہیں، ایک ایسے شخص کی خوشی میں شریک ہیں جس کا پراجیکٹ نمبس معاہدہ اسرائیل کو مصنوعی ذہانت اور کلاؤڈ ٹولز فراہم کرتا ہے جو اس قتل عام میں استعمال ہو رہے ہیں۔‘

’ان کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں لیکن غزہ کے آسمان سے بم گرتے ہیں اور نوبیاہتہ دلہنیں ملبے لے دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ صرف اس صورتحال کو نظرانداز کرنا نہیں بلکہ غداری کرنے جیسا ہے۔‘

خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ’قتلِ عام‘ کے الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ غزہ میں وزارتِ صحت کے مطابق جنگ میں اب تک اسرائیلی حملوں میں 50 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ اردن کے کردار پر عرب دنیا میں اس وقت تنقید ہوئی تھی جب اس نے سنہ 2024 ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے ڈرون اور میزائل مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

اردن کی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ آبجیکٹس اس لیے مار گرائے گئے تھے کیونکہ یہ اردن کے لوگوں کے لیے خطرہ تھے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ہماری فوج اُردن کے دفاع کے لیے مستقبل میں بھی کسی بھی ملک کی جانب سے کیے گئے حملے کو پسپا کرے گی اور اپنی قوم، اس کے شہریوں، اپنی فضائی حدود اور علاقے کی حفاظت کرے گی۔'

تاریخی طور پر اُردن کو امریکہ کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے تاہم اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط میں بہتری 1990 کے عشرے میں آئی جب دونوں ممالک کے درمیان امریکی ثالثی کے باعث معاہدہ طے پایا۔

حالیہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران بھی اردن کی جانب سے اپنے فضائی حدود پر ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

ایمازون کی کلاؤڈ سروسز اور اسرائیل کا پراجیکٹ نمبس

ایمازون کی جانب سے دو برس قبل اسرائیل میں 2037 تک سات اعشاریہ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں ایمازون ویب سروسز کے ڈیٹا سینٹرز کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

خطے میں ایمازون کی کلاؤڈ سروسز ملک کی حکومت کو اسرائیل میں موجود ڈیٹا سینٹرز کے ذریعے ایپلی کیشنز چلانے اور ڈیٹا سٹور کرنے کا موقع دیتا ہے۔

یہ اسرائیل کے 'پراجیکٹ نمبس' کا ایک اہم ستون ہے جس میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروسز مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔

اسرائیلی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری معلومات کے مطابق 'پراجیکٹ نمبس' ایک متعدد سالوں پر محیط فلیگ شپ منصوبہ ہے جسے اسرائیل کے مختلف حکومتی اداروں کے علاوہ ملک کی وزارتِ دفاع، اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) اور دیگر حکومتی شراکت دار بھی شامل ہیں۔

ویب سائٹ کے مطابق 'پروجیکٹ نمبس' دراصل اسرائیلی حکومت کی کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروسز کی ضرورت کے اعتبار سے ایک اہم نظام ہے اور اسے ملک کی نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکی جریدے رسپانسیبل سٹیٹ کرافٹ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس 10 جولائی کو اسرائیلی فوجی کی سینٹر آف کمپیوٹنگ اور انفارمیشن سسٹمز یونٹ کی کمانڈر کرنل رخیلی ڈیمبنسکی نے عوامی طور پر پہلی مرتبہ تصدیق کی تھی کہ اسرائیلی فوج ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کی گئی کلاؤڈ سٹوریج اور مصنوعی ذہانت کی سروسز کو غزہ میں جنگ کے دوران استعمال کرتا ہے۔

ڈیمنسکی کی لیکچر سلائڈز میں ایمازون ویب سروسز ( اے ڈبلیو ایس)، گوگل کلاؤڈ اور مائیکروسافٹ ازورے کے لوگو شامل تھے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں ان کلاؤڈ سروسز کے ساتھ جس طرح مصنوعی ذہانت اور بگ ڈیٹا کے حوالے سے سروسز ملی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے سے ہماری فوج کو غزہ کی پٹی پر 'انتہائی مؤثر آپریشنل مدد' ملی ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں گوگل اور ایمازون میں کام کرنے والے ملازمین کی جانب سے اپنی کمپنی کے پراڈکٹس اسرائیلی فوج کی جانب سے مبینہ طور پر غزہ جنگ میں استعمال کرنے کے حوالے سے تنقید کی گئی تھی۔

queen rania
Getty Images

ملکہ رانیہ کون ہیں؟

ملکہ رانیہ اردن کی ملکہ اور شاہ عبداللہ دوم کی اہلیہ ہیں۔ وہ فلسطینی نژاد ہیں اور مغربی کنارے کے شہر تلکرم سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کی پیدائش کویت میں ہوئی تھی۔

انھوں نے قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی سے بزنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سنہ 1991 کی خلیجی جنگ کے بعد وہ اور ان کا خاندان اردن کے دارالحکومت عمان منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کی ملاقات اس وقت کے شہزادہ عبداللہ سے ہوئی جس کے بعد دونوں کی شادی عمل میں آئی۔

ملکہ رانیہ ماضی میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور اس جنگ کے حوالے سے بیانات دیتی رہی ہیں۔

سنہ 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے چند روز بعد امریکی ٹی وی چینل سی این این کی اینکر کرسٹیان امان پور کو انٹرویو دیتے ہوئے ملکہ رانیہ نے کہا تھا کہ 'اردن سمیت پورے مشرق وسطیٰ کے لوگ، غزہ کی تباہی پر دنیا کے ردعمل سے حیران اور مایوس ہیں۔

'عرب دنیا کی نظروں میں مغرب 'شریک جرم' ہے، مغربی ممالک غزہ پر حملوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے پر فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر شریک ہیں۔'

انھوں نے اس انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ حماس کو ختم بھی کردیا گیا تو قابض اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت جاری رہے گی۔

اسی طرح گذشتہ برس امریکی میڈیا کو انٹرویو میں ملکہ رانیہ کا کہنا تھا کہ 'اسرائیل نے صرف ایک مرتبہ سات اکتوبر دیکھا، فلسطینی 156 بار اییسے واقعات جھیل چکے ہیں۔

امریکی میڈیا کو انٹرویو میں ملکہ رانیہ نے کہا کہ بمباری کے ساتھ امداد تباہی و بربادی اور قتل عام کو نہیں روک سکتی، غزہ میں جنگ فوری طور پر رکنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کرنے کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔

ملکہ رانیہ کا کہنا تھا کہ 'فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھنا اسرائیل کا پیدا کردہ المیہ ہے، اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسی وجہ سے فلسطینی، اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔'

اردن
Getty Images

اردن کے شاہی خاندان اور اس کے اسرائیل سے روابط کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

جغرافیائی اعتبار سے اُردن مشرقِ وسطیٰ میں ایک اتنہائی حساس مقام پر موجود ہے۔ اُردن کی سرحدیں سعودی عرب، عراق اور شام کے علاوہ اسرائیل اور غربِ اردن کے ساتھ بھی لگتی ہیں۔ اس کی بحیرۂ احمر کے ساحلی پٹی صرف 16 میل پر محیط ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق اُردن کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس میں 90 فیصد سے زیادہ افراد عرب ہیں اور یہاں کی سرکاری زبان بھی عربی ہے۔ اُردن میں فلسطین اور شام سے بڑے پیمانے پر افراد ہجرت کر کے آ چکے ہیں۔

ملک میں بادشاہت کا راج ہے اور اس وقت شاہ اُردن عبداللہ دوئم ہیں۔ یہ ہاشمی گھرانہ (الھاشیمون) ملک کو سنہ 1946 میں برطانیہ سے باقاعدہ آزادی ملنے کے بعد سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہے۔

بادشاہ عبداللہ دوئم کی سرکاری ویب سائٹ میں ہاشمی خاندان کی تاریخ اور اس کا شجرہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق شاہ اردن کا شجرہ پیغمبرِ اسلام اور ان کے پردادہ ہاشم سے جا ملتا ہے۔

20ویں صدی سے پہلے چار سو سال تک اس علاقے پر سلطنتِ عثمانیہ کا راج تھا تاہم پھر پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کا اتحادی ممالک کے مخالف جنگ لڑنے کے فیصلے نے مکہ کے اس وقت کے امیر مکہ شریف حسین بن علی کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا جواز فراہم کیا جو برطانیہ سمیت دیگر اتحادی قوتوں کی معاونت کے باعث سنہ 1916 میں عرب بغاوت کی شکل میں پورا ہوا۔

سنہ 1917 میں اینگلو عرب افواج نے اس خطے کا کنٹرول سنبھال لیا جس میں فسلطین کا علاقہ بھی شامل تھا اور سنہ 1921 میں فلسطین کو اس خطے سے الگ کر کے 'ٹرانس جارڈن' کی بنیاد رکھی گئی اور عبداللہ جو بعد میں اُردن کے پہلے بادشاہ بنے، کو حکمرانی سونپ دی گئی۔

برطانیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ مکہ کے امیر شریف حسین بن علی سے متنازع بیلفور ڈیکلریشن پر دستخط کروانے اور اس کے عوض ایک بھاری رقم دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ مانے۔ اس کے بعد اتحادی ممالک کی جانب آلِ سعود کے ساتھ اتحاد کر لیا گیا۔

بیلفور ڈیکلریشن دراصل برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو یہودیوں کی رہائش کے لیے ایک ملک فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا متنازع دستاویز تھا۔

سنہ 1946 تک اس خطے پر برطانیہ کے زیرِ انتظام حکومت چلتی رہی تاہم سنہ 1946 میں یہ ایک خودمختار ریاست بنی اور اسے 'المملکت الاردنیۃ الہاشمیۃ' کہا جانے لگا۔

سنہ 1948 سے 1973 کے درمیان اُردن اسرائیل سے چار جنگیں لڑ چکا ہے جن میں پہلی عرب اسرائیل جنگ 1948، 1967 کی جنگ حرب، 1967 سے 70 کے درمیان لڑی گئی حرب الاستنزاف اور 1973 کی یوم کپور جنگ شامل ہیں۔

تاہم امریکی صدر بِل کلنٹن کے دور حکومت میں سنہ 1994 میں اُردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے باعث کبھی کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوا۔

حکومتِ اردن کی ویب سائٹ کے مطابق اردن کے جھنڈے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے، یہ جھنڈے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے جھنڈے سے متاثر ہے۔

اس میں تین مختلف رنگ اور ایک سرخ رنگ کی مثلث یا تکون (ٹرائی اینگل) موجود ہے جبکہ جھنڈے پر سات کونوں والا ستارہ بھی موجود ہے۔

اس ستارے کا ہر ایک کنارہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی پہلی سورۃ سورۃ الفاتحہ کی سات آیات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ستارہ ہی اس جھنڈے کو فلسطین کے جھنڈے سے الگ کرتا ہے۔

جھنڈے پر موجود سرخ تکون یا ٹرائی اینگل جبکہ تین مستطیل (ریکٹینگلز) اردن کی تاریخ میں اس پار حکمرانی کرنے والی تین خلافتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سیاہ مستطیل خلافتِ عباسیہ، سفید خلافتِ بنو امیہ جبکہ سبز خلافتِ فاطمیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

غزہ جنگ کے دوران ان روابط میں کیا تبدیلی آئی؟

امریکی تھنک ٹینک دی ایٹلانٹک کونسل کی جانب سے رواں برس ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر سنہ 2023 کے بعد سے غزہ جنگ کو دو برس ہونے پر اردن نے متعدد ایسے سفارتی اقدامات کیے ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا اسرائیل کے ساتھ رشتہ تناؤ کا شکار ہے۔

اردن نے نومبر 2023 میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ ایک توانائی منصوبے سے کنارہ کشی اختیار کی تھی، اسرائیل کے لیے اپنے سفیر کو واپس بلایا تھا، مئی 2024 میں اسرائیلی سفیر کو اردن سے بے دخل کر دیا تھا اور اسرائیل پر ہتھیاروں کی درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

جنوری 2025 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد سے بادشاہ عبداللہ اور اردن کے وزیرِ خارجہ نے اسرائیل کو اپنے بیانات میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور فلسطینیوں کی غزہ سے ہمسایہ ممالک میں منتقلی پر تنقید کی ہے۔

رواں برس ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اردن کے بادشاہ عبداللہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو اردن منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔

ملاقات کے بعد ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ 'اردن غزہ اور غربِ اردن میں فلسطینیوں کی منتقلی' کے خلاف 'ثابت قدم' ہے۔ یہ عرب دنیا کا ایک مؤقف ہے۔'

خیال رہے کہ صدر ٹرمپ رواں برس یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اردن اور مصر کے لیے امداد روک دیں گے اگر انھوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی سے اتفاق نہ کیا۔

تاہم رپورٹ کے مطابق فوجی اور انٹیلیجنس کی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان روابط اب بھی قائم ہیں۔ اردن امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے میزائلوں اور ڈرونز کو تباہ کرتا رہا ہے۔

رواں برس اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر کے اہلکاروں نے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے اس وقت کے چیف آف سٹاف اور امریکی سینٹ کام کے کمانڈر سے ملاقات کی تھی اور خطے کی سکیورٹی میں تعاون کے حوالے سے بات کی تھی۔

اسرائیل اور اردن کے حکام خفیہ طور پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں جن میں وہ خطے میں سکیورٹی خدشات پر بات چیت کی تھی جن میں بشارالاسد کی شام میں حکومت کا خاتمہ اور اسرائیل کی وہاں فوجی مہم شامل ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.