پھلوں اور سبزیوں کو زیادہ دیر تک کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل اس وقت سے ہی تلاش کیا جا رہا ہے جب سے انسانوں کو ضرورت سے زیادہ خوارک مہیا ہوئی۔ خوراک زیادہ ہو تو اسے زیادہ عرصہ کے لیے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل اُس وقت سے ہی تلاش کیا جا رہا ہے جب سے انسانوں کو ضرورت سے زیادہ خوارک مہیا ہوئی۔ خوراک زیادہ ہو تو اسے زیادہ عرصہ کے لیے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

اس سوال کے شاید اتنے ہی جواب ہیں جتنی کھانے کی اقسام ہیں۔ قدیم روم میں انجیر کو سمندر کے نمکین پانی میں بھگو کر سورج کی حدت میں خشک کیا جاتا تھا جبکہ قدیم چین میں لیموں اور مالٹے موم سے ڈھک دیے جاتے تھے۔

15ویں صدی کے جاپان میں سبزیوں کو زیادہ دیر محفوظ رکھنے کے لیے ان پر سویا بین ملے دودھ کی تہہ لگائی جاتی تھی۔ 16ویں صدی کے برطانیہ میں اس کام کے لیے سور کی چربی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

گلتے ہوئے پھل اور خراب ہوتا اناج ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ایک اہم معاملہ تھا۔ آج کی دنیا میں شاید اس مسئلے کی نوعیت بدل چکی ہے کیوںکہ دنیا بھر میں ضائع شدہ کھانے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز صرف برطانیہ سے خارج ہونے والی ایسی گیسز کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہیں۔

خراب گوشت اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ گوشت کا سو گرام پھینکنے کا مطلب ہے کہ آپ نے تقریبا دس کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کی ہے۔ تاہم دنیا بھر میں ضائع ہونے والی خوراک کا سب سے بڑا حصہ سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل ہے جو سالانہ اوسطاً نصف ارب ٹن بنتی ہے۔

تو ایسے میں پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کا بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟

خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے زیادہ تر طریقوں میں پلاسٹک اور کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔ 2022 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کھیرے کو پلاسٹک میں محفوظ رکھنے کے ماحولیاتی فوائد پلاسٹک کے منفی اثرات سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔

دوسری جانب تازہ پھلوں اور سبزیوں کی عمر میں اضافے کے لیے کلورین، ہائیڈروجن، آکسائیڈ اور ٹرائی سوڈیئم فاسفیٹ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن اب صارفین کیمیائی طریقوں اور پلاسٹک کے استعمال سے گریز کرنے لگیں ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کلورین کے استعمال سے کینسر کی وجہ بننے والے کمپاونڈ بننے کا امکان ہوتا ہے جو سبزیوں اور پھلوں پر باقی رہ جاتا ہے یا پھر پانی میں مل سکتا ہے۔

جہاں تک پلاسٹک کا سوال ہے تو کئی لوگ زیادہ پلاسٹک کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھتے۔

یونیورسٹی آف میسیچوسٹس کے فوڈ سائنٹسٹ ڈیوڈ مککلیمینٹس کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ایسے طریقوں کی تلاش میں اضافہ ہوا ہے جن سے خوراک کو کیمیکلز کے بغیر محفوظ رکھا جا سکے۔

اگرچہ زیادہ تر نئی تکنیک ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں، چند ایسے طریقے منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں کیمیکلز کا استعمال نہیں ہوتا۔

ایسی ہی ایک تکنیک پھلوں اور سبزیوں کو ایسے حفاظتی مواد میں محفوظ رکھنے کی ہے جو کھایا جا سکتا ہے۔

1930 میں شہد کی موم سے سیب جیسے پھلوں کو محفوظ بنانے کا رواج پڑا۔ واضح رہے کہ سیب کا قدرتی چھلکا بھی اسے محفوظ بناتی ہے تاہم اکثر یہ درخت سے چنائی کے بعد صفائی کے عمل کے دوران ضائع ہو جاتا ہے۔

آج کل ایک ایسی ہی مصنوعی تہہ سیب، مالٹے اور لیموں سمیت دیگر پھلوں پر لگائی جاتی ہے۔

اس طریقے سے پھلوں کے اندر نمی کو خارج ہونے سے روکا جاتا ہے۔ تاہم بہتری کی کافی گنجائش ہے۔ اب سائنس دان ریشم اور شیل فش سے نکلے چیٹوسان سے لے کر جیلاٹن، سویا پروٹین سمیت مختلف قدرتی اجزا پر تجربات کر رہے ہیں۔

یہ تمام اجزا ایک پتلی تہہ کی صورت میں پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جس کی مدد سے گیس اور پانی کے اخراج میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور خوشبو کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

مککلیمینٹس کا کہنا ہے کہ چیٹوسان، جو شیل فش کے خول سے حاصل کیا جاتا ہے، خوراک کو محفوظ بنانے کی کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں سٹرابریز کو چیٹوسان کی تہہ سے ڈھکا گیا جس سے ان کی زندگی ساٹھ فیصد تک بڑھ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاستا کھانے سے وزن بڑھتا ہے یا پھر اس خوراک کے کچھ فوائد بھی ہیں؟

’میں کتنی کیلوریز لے رہی ہوں؟‘ کیا اس بنیاد پر غذا لینا صحت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے؟

پھل اور سبزیاں چھلکوں سمیت کیوں کھانی چاہییں؟

اسی طرح ٹماٹر کو چیٹوسان کی تہہ کی مدد سے تیس دن تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں مختلف کمپنیاں بھی تحقیق کے اس عمل کا حصہ ہیں۔ کیلیفورنیا کی اپیل سائنسز ایسے تیل پر کام کر رہی ہے جس کی مدد سے خوراک کی زندگی دوگنی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں ان کی مصنوعات کا استعمال محدود سطح پر کیا جانے لگا ہے جبکہ برطانیہ میں اس کمپنی نے ٹیسکو سے شراکت داری میں محفوظ شدہ لیموں اور مالٹے بیچنے کا معاہدہ کیا ہے۔

لیکوئڈ سیل ناممی ایک اور کمپنی برطانیہ میں پولی وینائل الکوہل سے بنی کوٹنگ کو آم اور ایوکاڈو پر استعمال کر رہی ہے۔

نینو ٹریٹمنٹ

ایک اور نیا طریقہ جس سے خوراک کو محفوظ بنانے پر غور ہو رہا ہے وہ نینو پارٹیکلز کا ہے یعنی ایسا مواد جو انتہائی چھوٹے حجم کے خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

مکلیمینٹس کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے کوٹنگ کے لیے استعمال ہونے والے مواد کو زیادہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

ایک تحقیق کے دوران، جس میں ایک ہفتے کے لیے کھلی رکھی ہوئی سادہ سٹرابیریز خراب ہو گئیں، چیٹوسان اور نینو سلور کی تہہ سے محفوظ اسی پھل کا صرف دس فیصد حصہ خراب ہوا۔

دوسری جانب سلور نینو پارٹیکلز سے محفوظ شدہ گاجر ستر دن تک ٹھیک رہی۔

نینو پارٹیکلز کو عام پلاسٹک پیکنگ میں ملا کر بھی پھل اور سبزیوں کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کو ایسے سینسرز میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو دکانداروں کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ خوراک کب کھانے کے لیے محفوظ نہیں رہی۔

کینیڈا کی مکمیسٹر یونیورسٹی کے محققین نے ایسے پیچ ایجاد کیے ہیں جو خوراک کی خرابی کے وقت سے پہلے ہی اطلاع دے سکتے ہیں۔

تاہم ایسی ایجاد کے ساتھ سوالات بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ چوہوں میں زنک آکسائیڈ کے نینو پارٹیکلز جگر اور گردے کے سرطان کا باعث بنے ہیں۔ سلور یا چاندی کے نینو پارٹیکلز بھی انسانی خلیوں پر اثرات چھوڑتے ہیں۔

گسٹاو نسٹروم سوس فیڈرل لیبارٹریز فار میٹیریئل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ خطرات جڑے ہیں اس لیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چاندی اور زنک کے نینو پارٹیکلز انسانی ٹشو میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے پلاسٹک پیکنگ میں ان کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

قدرتی دفاع

ایسے وائرس جو بیکٹیریا کو مار دیتے ہیں، ایک ممکنہ حل بن سکتے ہیں۔ انٹرا لٹکس نامی امریکی کمپنی ایسے ہی وائرس پر مبنی مواد بنا رہی ہے جسے خوراک کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مائیکریوز نامی کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر گیرٹ کیزر کا کہنا ہے کہ یہ وائرس، جن کو بیکٹیویوفیج کہا جاتا ہے، بیکٹیریا سیل کی دیوار پر حملہ آور ہو کر ان کو مار دیتے ہیں جیسے کسی غبارے میں سوئی چبھو دی جائے۔لیکن کیا یہ محفوظ ہیں؟

سیم نگن کورنیل یونیورسٹی میں فوڈ سائنس دان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بیکٹیریوفیج ہر جگہ موجود ہیں۔ ہم مکمل طور پر ان سے ڈھکے ہوئے ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ آنے والے برسوں میں ایسے کمرشل بیکٹیریوفیج دستیاب ہوں گے جن کو خوراک کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

پلازما پانی، اوزون کا استعمال، الٹرا ساوںد۔۔۔ یہ اور مختلف دیگر طریقے بھی زیر غور ہیں۔ خوراک کو مصنوعی روشنی کی مدد سے محفوظ بنانے کا طریقہ بھی ایک منفرد جواب ہو سکتا ہے۔

تاہم ان تمام تکنیکوں کے عام ہونے سے پہلے ہمیں یہ ثبوت درکار ہو گا کہ خوراک کے ساتھ ساتھ یہ انسانوں کے لیے بھی محفوظ ہیں۔

مککلیمینٹس کہتے ہیں کہ یہ تکنیک لاکھوں کروڑوں پھلوں اور سبزیوں پر استعمال ہونی ہے اور یہ ضروری ہے کہ اس کا استعمال سستا ہو۔

تاہم جب تک یہ جدید طریقے عام نہیں ہوتے، ہم سادہ حل تلاش کر سکتے ہیں جن میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم ضرورت سے زیادہ پھل اور سبزیاں نہ خریدیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.