’میں نے خفیہ طور پر اپنے ریپ کرنے والے شخص کا اعتراف ریکارڈ کیا‘

اپنے ریپسٹ کے اعترافی بیان کی آڈیو منظر عام پر لانے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے کو بتانا چاہتی تھیں کہ جسمانی تشدد پہنچانے والا ایک انسان کتنا ’مکار‘ ہوسکتا ہے۔
ریپ، سکاٹ لینڈ، مقدمہ، ایلی ولسن
BBC

اپنے ریپسٹ کے اعترافی بیان کی آڈیو منظر عام پر لانے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہ معاشرے کو بتانا چاہتی تھیں کہ خواتین پر جسمانی تشدد کرنے والا انسان حقیقی زندگی میں کتنا ’مکار اور چالاک‘ ہو سکتا ہے۔

25 سال کی ایلی ولسن نے اپنے ہینڈ بیگ میں پڑے فون سے ڈینیئل کی آڈیو ریکارڈ کر لی تھی جس میں وہ اپنے جرائم کا اعتراف کر رہے تھے۔

گذشتہ سال جولائی میں ریپ کا الزام ثابت ہونے پر ڈینیئل کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ایلی ولسن کہتی ہیں کہ ان کے پاس بطور ثبوت آڈیو اور تحریر شدہ اعترافی بیان تھا جسے انھوں نے عدالت میں پیش کیا، تاہم ان شواہد کے باوجود عدالت نے سزا دینے کا اکثریتی فیصلہ سنایا کیونکہ جیوری کے تمام اراکین فیصلے سے متفق نہیں تھے۔

ایلی پر دسمبر 2017 سے فروری 2018 کے درمیان ڈینیئل کی جانب سے حملے کیے گئے اور یہ وہ وقت تھا جبڈینیئل یونیورسٹی آف گلاسگو میں طب کے طالب عالم تھے۔

ڈینیئل کے خلاف جرم ثابت ہونے کے بعد ایلی ولسن نے اپنی شناخت چھپانا چھوڑ دی اور تب سے وہ متاثرین کے حق میں مہم چلا رہی ہیں۔

ایلی ولسن یونیورسٹی میں سیاست کی طالب علم اور چیمپیئن ایتھلیٹ تھیں۔

انھوں نے حملوں کے بعد خفیہ طور پر ڈینیئل کے ساتھ اپنی گفتگو ٹوئٹر پر جاری کر دی۔ اس گفتگو میں وہ ان سے پوچھتی ہیں کہ ’کیا آپ کو اس کی سمجھ نہیں آتی کہ مجھے کتنا بُرا لگتا ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ’میں نے آپ کا ریپ نہیں کیا‘ جبکہ آپ نے ایسا کیا ہے؟‘

ڈینیئل جواب دیتے ہیں کہ ’ایلی، ہم دونوں کو معلوم ہے میں نے ایسا کیا ہے۔ جن لوگوں سے میں چاہتا ہوں کہ وہ میری بات کا یقین کریں، وہ میری بات مانتے ہیں۔ میں انھیں ایک دن سچ بتا دوں گا، لیکن ابھی نہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے کیے پر کیسا محسوس کرتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’مجھے یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ میں جیل میں نہیں ہوں۔‘

ایلی ولسن کے اس ٹویٹ کو دو لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔

ایلی ولسن
BBC
ایلی ولسن چیمپیئن ایتھلیٹ بھی ہیں

ملزم کے اعترافی بیان کے باوجود ’جیوری نے متفقہ فیصلہ نہیں دیا‘

انھوں نے بی بی سی سکاٹ لینڈ کو بتایا کہ انھوں نے یہ اعترافی آڈیو کلپ اس لیے جاری کیا کیونکہ کئی لوگ یہ سوال کرتے تھے کہ اُن کے پاس ایسا کون سا ثبوت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس پر کافی مثبت ردعمل آیا ہے جبکہ ایک چھوٹی اقلیت نے انھیں بُرا بھلا کہا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے اس شخص کا اعترافی بیان آن لائن شائع کیا تو تب بھی بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ’اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘

آڈیو اعتراف کے علاوہ ایلی ولسن نے ایسے ٹیکسٹ میسجز بھی محفوظ کر رکھے تھے جن میں ڈینیئل اپنے کیے پر پچھتاوے کا اظہار کرتے پائے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود انھیں یہ پریشانی تھی کہ اس مقدمے میں سزا نہیں ہو گی۔ ’فیصلہ متفقہ طور پر جاری نہیں ہوا۔‘

’آپ کے پاس تحریری اعتراف، آڈیو اعتراف بھی ہو تو جیوری میں سب آپ کا یقین نہیں کریں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے معاشرے کا پتا چلتا ہے۔‘

ایلی ولسن نے ماضی میں کہا تھا کہ عدالتی کارروائی کا حصہ بننا ان کے لیے پریشان کن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ملزم کے وکلا نے ان پر ذاتی حملے کیے اور انھیں ہی اس ظلم کا قصوروار ٹھہرایا۔ ولسن نے کہا کہ تفتیش کے دوران ان کی ’توہین کی گئی اور پریشان کیا گیا۔‘

وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ انھوں نے حال ہی میں عدالت کا تفصیلی تحریری فیصلہ دوبارہ پڑھا ہے جسے پڑھ کر انھیں دوبارہ بہت بُرا محسوس ہوا کیونکہ اس میں ان کے بارے میں اچھی باتیں نہیں کہی گئی تھیں۔

ولسن نے کہا ہے کہ ڈینیئل کو ’کامیاب طالب علم اور ایتھلیٹ‘ کے طور پر پیش کیا گیا جس کا روشن مستقبل ہے اور وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں معلوم تھا کہ وہ ایسا بیانیہ بنا کر سب کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ کوئی ریپسٹ نہیں۔‘

’میں لوگوں کو حقیقت بتانا چاہتی تھی، خاص طور پر ان لوگوں کو جو ان پر یقین کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ٹوئٹر پر آڈیو شائع کی کیونکہ وہ بتانا چاہتی تھیں کہ تشدد کرنے والے کتنے ’دھوکے باز‘ ہوتے ہیں۔

’میں بتانا چاہتی تھی کہ ایسے لوگ تشدد کر سکتے ہیں اور وہ بند دروازوں کے پیچھے الگ رویہ رکھ سکتے ہیں۔‘

جب 2020 میں ولسن نے پولیس کو ریپ کی شکایت درج کرائی تو ڈینیئل کو گلاسگو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا جہاں دونوں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ پولیس کی جاری تحقیقات کے باوجود ایڈنبرا یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ حیرانی کا باعث تھا کیونکہ میں ایڈنبرا میں طالبات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ ممکنہ طور پر متاثرین بن سکتی تھیں۔‘

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یونیورسٹیاں ’مبینہ ریپسٹ کے حقوق کو طلبہ کے حقوق پر ترجیح کیسے دے سکتی ہیں؟‘

’مجھے ڈر ہے کہ یونیورسٹیاں لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مناسب انتظام نہیں کر پا رہیں۔‘

ایلی ولسن
BBC

’یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا‘

ایلی ولسن نے کہا ہے کہ ’میں کبھی اسے تبدیل نہیں کر پاؤں گی جو میرے ساتھ ہوا۔ یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے درد کا کسی جگہ اظہار کر سکوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں اس طرح مثبت انداز میں معاشرے میں تبدیلی لا سکوں گی اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کر سکوں گی۔ میں صبح اسی جذبے کے ساتھ اُٹھتی ہوں جب مجھے محسوس ہو کہ اب میں مزید اس احساس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔‘

ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طلبہ کی حفاظت ان کی ترجیح ہے اور وہ کسی بھی طالب علم کی بےضابطگی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ ’ہمارے داخلے کے طریقہ کار میں ماضی کے جرائم میں سزا پانا یا ان تحقیقات کا ذکر کرنا ضروری نہیں جو ابھی جاری ہوں۔‘

تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھتے ہیں اور اپنے داخلے کے طریقہ کار میں تبدیلیاں لاتے رہیں گے تاکہ طلبہ محفوظ محسوس کریں۔

سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹیوں کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ ایلی اور سکاٹش حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ طلبہ کی فلاح کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ذاتی معلومات کی حفاظت سے متعلق قوانین میں تبدیلی سے بہتری کا موقع پیدا ہوا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.