لاہور کے نجی سکول میں تشدد کا واقعہ: ’بچوں کو سخت سزائیں دینے کی بات کرنے کی بجائے اصل مسئلے کو سمجھیں‘

لاہور کے ایک نجی سکول میں تین نوعمر طالبات کی جانب سے اپنی ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے دو دن بعد بھی اس پر خوب بحث جاری ہے۔
child
Getty Images

لاہور کے ایک نجی سکول میں تین نوعمر طالبات کی جانب سے اپنی ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کے واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے دو دن بعد بھی اس پر خوب بحث جاری ہے۔

سنیچر کو لاہور کی ایک مقامی عدالت نے صوبائی دارالحکومت کے ایک نجی سکول میں ایک طالبہ پر مبینہ تشدد کرنے والی تین نوعمر طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔

اس حوالے سے جج نے معاملے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے پولیس کو اس واقعے میں ملوث تینوں طالبات کو 30 جنوری تک گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شروعات میں تو ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سے صارفین جذبات میں آ کر ان لڑکیوں کو کڑی سزائیں دینے کی بات کرتے رہے تاہم وقت کے ساتھ کچھ وکلا اور دیگر صارفین کی جانب سے اس بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی تجویز دی گئی۔

وکیل صلاح الدین نے اس بارے میں لکھا کہ ’اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے؟ سزا کے طور پر ہفتہ بھر کے لیے معطلی اور ایک ہی جملہ ایک ہزار مرتبہ لکھنے کی روایت ختم ہو چکی ہے؟‘

گلوکارہ حدیقہ کیانی نے ٹوئٹر پر اس واقعے پر تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس طرح سے رونما ہونے والے ان تمام واقعات کے بارے میں سوچیں جن کی ویڈیو نہیں بن پاتی مگر ہمارے بچوں کا ایسی صورتحال کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس طرح کے واقعات کو ’ہم اسے اس طرح نہیں جانے دے سکتے۔ اپنے بچوں سے بات کریں، ان کی توجہ حاصل کریں اور شفقت سے ان کی نگہبانی کریں۔۔۔ اپنے بچوں کا تحفظ کریں اور انھیں دنیا کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط بنائیں۔‘

کچھ صارفین نے اسے ’ایلیٹ کلاس‘ کے مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ان ہی بچوں میں سے اکثر کل بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے۔

کچھ صارفین نے اگر اس واقعے کی تھانے اور کچہری تک پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے تو وہیں صارفین نے نوعمر طالبات کو قبل از گرفتاری ضمانت ملنے پر عدلیہ پر تنقید کی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور پھر ان پر ہونے والے تبصروں کی طرح اس ویڈیو سے متعلق کئی زاویوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔

کچھ صارفین کو یہ شکوہ بھی ہے کہ جب کوئی معاملہ سوشل میڈیا کے دور میں ’کسی معاملے پر غم و غصے کا اظہار کرنے سے لائیکس تو ملتے ہیں لیکن اصل مسئلے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔‘

صارفین کی بڑی تعداد جہاں یہ ویڈیو کو شیئر کر کے اس واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے وہیں ایسے صارفین بھی موجود ہیں جنھوں نے اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے کچھ عملی تجاویز بھی دی ہیں۔

طالبہ
Getty Images

صحافی ضرار کھوڑو نے صارفین سے ٹوئٹر پر یہ درخواست کی کہ وہ ان طالبات کے رہائشی پتہ ظاہر نہ کریں۔

اس حوالے سے دیگر صارفین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان طالبات کے نام بھی خفیہ رکھنے چاہییں کیوںکہ اس سے ان کی زندگیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

سید احمد حسنشاہ نامی صارف نے لکھا کہ گھر، سکول اور معاشرے میں اصلاحی رویے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق اس واقعے کا منفی پہلو صرف طالبات کا ایک ساتھی طالبہ پر تشدد کرنا ہی نہیں بلکہ واقعے کی جگہ پر وہاں موجود تماشہ دیکھنے والو کا کردار بھی قابل گرفت ہے جو اس پر خوش ہو رہے تھے اور وہ اس واقعے کو روکنے کے بجائے ویڈیو بنانے اور اپ لوڈ کرنے میں مشغول تھے۔

علی حفیظ نامی صارف نے لکھا کہ اس واقعے پر غفلت کی مرتکب سکول کی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لینے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ایک طالبہ کی جان خطرے میں تھی۔

ان کے مطابق ’ابھی تک اس سکول کی طرف سے اس واقعے پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی اور نہ ہی میں نے یہ دیکھا کہ طلبہ کی ذہنی اور جسمانی صحت سے متعلق کوئی حفاظتی انتظامات اٹھانا اس سکول کے کلچر کا حصہ ہو۔‘

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی شزا فاطمہ خواجہ نے سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ ’کب جبر ایک جرم بن جاتا ہے اور جبر اور تشدد میں کہاں فرق کیا جاتا ہے؟‘

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک صارف نے یہ بھی لکھا کہ ’بچوں کو سخت سزائیں دینے کی بات کرنے کی بجائے، اس بارے میں بات کریں کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔‘

اس حوالے سے طالبات کو سزائیں دینے اور انھیں جیل بھیجنے کی بات کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے صارف مینا نے کہا کہ ’میں نے پاکستان میں بچہ جیلوں کا حال بھی دیکھا ہے، وہاں ایک بچہ ریڑھی سے سیب چوری کرنے کے جرم میں چھ ماہ سے قید تھا۔‘

https://twitter.com/aimaMK/status/1616784055894155264?s=20&t=91be2vC8prrUDdxIRwTcow

ایف آئی آر میں کیا لکھا گیا ہے؟

پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ دو روز سے اس واقعے سے متعلق ویڈیو کو بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین نوعمر طالبات اپنی ایک ساتھی طالبہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

متاثرہ طلبہ کے والد نے اس واقعے کے خلاف مقامی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی ہے۔

ایف آئی آر میں  انھوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی کو ساتھی طالبات نے منصوبہ بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے چند روز قبل ایک طالبہ کے والد کو ایک ویڈیو بھیجی تھی جس میں طالبہ کی جانب سے منشیات کے استعمال کی بات کی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس کی بنیاد پر اب اس طالبہ نے بدلہ لینے کے لیے دیگر دو طالبات کے ساتھ مل کر ان کی بیٹی کو ’جان سے مارنے‘ کی کوشش کی۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد ان تین طالبات نے ایک مقامی عدالت سے رجوع کیا اور 50، 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی عبوری ضمانت منظور کر لی گئی۔

لاہور کے ایک سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے سامنے پہلی بار اس نوعیت کا مقدمہ آیا ہے اور انھوں نے احتیاط سے نہ صرف مقدمے کا اندراج یقینی بنایا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ان نوعمر طالبات کے مستقبل کو پولیس کارروائی سے نا قابل تلافی نقصان نہ پہنچے۔

ان کے مطابق یہ ایک عام ایف آئی آر سے ہٹ کر طالبات کا مسئلہ تھا جو کہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ چونکہ متاثرہ لڑکی کے والد نے ایف آئی آر میں طالبات کی جانب سے نشے کے استعمال اور اقدام قتل جیسے الزامات بھی عائد کیے ہیں، تو ان پہلوؤں پر تفتیش جاری ہے۔

تاہم جہاں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اس ویڈیو کو شیئر کیا جا رہا ہے وہیں بہت سے صارفین پاکستان کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اور نوعمر طلبہ تک اس کی رسائی کے معاملے پر بھی بحث کر رہے ہیں۔

schools
Getty Images

خیال رہے کہ لگ بھگ چار ماہ قبل یعنی ستمبر 2022 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت ایک اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے پرویز الہی کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید اور فروخت کی پاداش میں کم از کم دو برس قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جیسی سزائیں جلد ہی متعارف کرائی جائیں گی۔

اس اجلاس میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی متعارف کرانے پر اتفاق ہوا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کو یقنی بنایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کے لیے ایک آزاد ادارہ اور اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

انسداد منشیات کا ادارہ اے این ایف منشیات نیٹ ورکس کے خلاف کتنا موثر ہے؟

’شراب، چرس باآسانی یونیورسٹی میں مل جاتی ہے‘

’اُس نے میرے منھ میں بندوق رکھ کر کہا اگر بکواس بند نہ کی تو گولی مار دوں گا‘

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات قانون سازی سے حل کیے جا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے بی بی سی نے ماہرین تعلیم سے بات کی ہے۔

ھبا اکبر لمز میں قانون پڑھاتی ہیں۔ بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ اس معاملے میں کم عمر لڑکیاں ملوث ہیں اس لیے یہی بہتر ہوتا کہ اس معاملے کی ایف آئی آر درج نہ کروائی جاتی اور سکول اور گھر کی سطح پر ہی اسے حل کر لیا جاتا۔

ان کے مطابق یہ قانونی سے زیادہ معاشرتی مسئلہ ہے۔ ایسے واقعات میں کہیں سکول میں طالبات کا آن لائن جبر، ہراسانی اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، مگر ان سب مسائل کا حل سزائیں نہیں۔

Pakistan
BBC

’یہ پورے معاشرے کی ناکامی ہے‘

ھبا اکبر کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی سے متعلق بیانات دیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ نارکوٹکس کے معاملے پر پہلے سے ہی پاکستان کے بہت سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی روشنی میں ملک میں موجود ان مسائل پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور یوں تعلیمی ادارے بھی اس طرح کی برائیوں سے بچ سکیں گے۔

ان کے مطابق ’ہم ہمیشہ سزاؤں کی طرف جاتے ہیں جبکہ ہمیں منفی رجحان کو معاشرتی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘

ھبا اکبر کے مطابق والدین کو اپنے بچوں سے ڈر کا تعلق رکھنے کے بجائے دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہیے تاکہ وہ اس پر بات کر سکیں۔ ان کے مطابق ’یہ تو کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ بچوں سے دوستی رکھیں اور اگر وہ کسی معاشرتی دباؤ کی وجہ سے منشیات کے استعمال جیسے مسائل کا شکار ہیں تو پھر اسے شرم کا مقام نہ بنائیں بلکہ انھیں اعتماد دیں کہ وہ یہ سب بلاخوف شیئر کر سکیں۔‘

ھبا اکبر کے مطابق پاکستان جیسے معاشرے میں طالبات اس وجہ سے بھی اپنے مسائل پر بات نہیں کرتی ہیں کہ ’اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا تو پھر وہ جلدی ان کی شادی کروا دیں گے یا دیگر پابندیاں عائد کریں گے۔‘

انگبیں مرزا لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ میں آفس آف ایکسیس ایبلٹی اینڈ انکلیوژن کی ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کے مطابق وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جو سب سے بڑی کمی محسوس کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ یہاں سوک ایجوکیشن کا تصور نہیں ہے۔

انگبیں مرزا کے مطابق سوک ایجوکشن کے ذریعے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون کیا ہے اور اس پر عملدرآمد معاشرے کے آگے بڑھنے کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے۔

’اختلاف کیسے کرنا ہے، معاشرتی ذمہ داریاں کیا ہیں، کسی کی بات بری لگے تو کیا کرنا ہے۔۔۔ یہ  سکول کا کام بنتا ہے کہ وہ بچوں کو سوشلائز کریں اور مختلف موضوعات اور مسائل پر بحث کا آغاز کریں۔‘

پروفیسر عدنان فیصل اس بات سے متفق ہیں کہ مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ قانون کی عملداری کا ہے اور اگر اس میں کوئی خامی ہے تو پھر سکول کی انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق قانون کے مطابق کسی تعلیمی ادارے کی حدود میں سگریٹ اور پان کی دکان بھی نہیں کُھل سکتی تو ایسے میں اگر سکول کے اندر تک منشیات پہنچ جائے تو پھر ایسے میں ہمارا مستقبل اندھیرے میں جانے کا خدشہ ہے۔

عدنان فیصل کے مطابق تعلیمی اداروں کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور تحفظ پر بھی کام کریں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.