پاکستان کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب واقع راجوری اور پونچھ اضلاع میں انڈین فوج، پولیس اور نیم فوجی ایجنسیاں ہندو اقلیتیوں کو مسلح کیوں کر رہی ہے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے راجوری ضلع کے ڈانگری اور دراج گاؤں ایک دوسرے سے 70 کلومیٹر دُور ہیں لیکن دونوں بستیوں میں یکساں خوف پایا جاتا ہے۔
ڈانگری میں گذشتہ ہفتے مشتبہ شدت پسندوں نے تین گھروں میں داخل ہو کر دو بچوں سمیت سات افراد کا قتل کر دیا تھا۔
12 سال قبل دراج میں بھی ایک مسلح شخص، عبدالرشید کے گھر میں داخل ہوا تھا اور اس کے نوجوان بیٹے شفیق احمد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
فرق اتنا ہے کہ ڈانگری کے قتل میں مشتبہ شدّت پسندوں کا ہاتھ تھا، جبکہ دراج میں ہوئے قتل میں سرکاری سرپرستی والی ’ویلیج ڈیفینس کمیٹی‘ یا وی ڈی سی کا مسلح اہلکار ملوث تھا۔
زیادتیوں کی ایسی درجنوں شکایات کے بعد انڈین حکومت نے سنہ 2018 میں ان کمیٹیوں کو غیر مسلح کر دیا تھا، لیکن ڈانگری کی واردات کے بعد نئے ’ویلیج ڈیفینس گارڈز‘ وی ڈی جی کو ایک بار پھر نئے اور جدید ہتھیاروں اور تربیت کے ساتھ مسلح کیا جا رہا ہے۔

ڈانگری میں کیا ہوا تھا؟
راجندر کا کہنا ہے کہ ’دیپک کی سرکاری نوکری لگ گئی تھی اور اگلے روز اُسے جوائن کرنا تھا‘ مقامی رہائشی اور متاثرہ خاندان کے سربراہ راجندر کمار کہتے ہیں کہ ’لوگ نئے سال کی شروعات پر خوش تھے۔ شام کے چھ بجے تھے کہ ہمارے گھر میں کچھ مسلح افراد گھُس گئے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اسی وقت میرا بیٹا دیپک کمار گھر واپس آ رہا تھا ایسے میں مسلح افراد نے واپس نکلتے ہوئے انھیں بھی گولی مار دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘
ڈانگری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ راجندر کمار کے گھر سے نکل کر مسلح حملہ آور تھوڑی دُوری پر واقع مزید دو گھروں میں گھُس گئے اور مجموعی طور پر تین گھروں پر حملہ کر کے دو بچوں سمیت سات افراد کو ہلاک کیا ہے۔
راجندر کا کہنا ہے کہ ’دیپک کی سرکاری نوکری لگ گئی تھی اور اگلے روز اُسے جوائن کرنا تھا۔‘
دوسری صبح راجندر کے گھر میں ایک زور دار بم دھماکہ ہوا جو پولیس کے مطابق حملہ آوروں کی طرف سے نصب کیے گئے بارودی مواد کی وجہ سے ہوا۔ اس دھماکے میں راجندر کمار کی بہن سیجل کمار زخمی ہو گئیں تھیں۔
18 سالہ سیجل آج بھی خوفزدہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں رات کے دوران ڈرتی ہوں، کہیں کوئی آواز سنائی دے تو مجھے غش آتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں جنھوں نے یہ قتل کیے ہیں وہ پکڑے جائیں۔‘
راجندر کمار بھی کہتے ہیں کہ ’مجرموں کو جب تک پکڑا نہیں جاتا، سکیورٹی اہلکاروں کے گشت اور وی ڈی جی کے قیام سے کچھ نہیں ہو گا۔‘
18 سالہ سیجل کہتی ہیں کہ ’میں رات کے دوران ڈرتی ہوں، کہیں کوئی آواز سنائی دے تو مجھے غش آتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں جنھوں نے یہ قتل کئے ہیں وہ پکڑے جائیں‘وی ڈی جی کی تشکیلِ نو

راجوری اور پونچھ اضلاع پاکستان کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب واقع ہیں۔ ان اضلاع کے علاوہ دریائے چناب اور پیرپنچال پہاڑی سلسلے کی دوسری جانب واقع ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ اضلاع میں بھی فوج، پولیس اور نیم فوجی ایجنسیاں ہندو اقلیتیوں کو مسلح کر رہی ہے۔
راجوری کے لام علاقے میں فوج کے ایسے ہی ایک کیمپ میں بی بی سی سے کئی رضاکاروں نے بات کی۔ گُرودیو سنگھ حال ہی میں ایم اے کی ڈگری لے چکے ہیں، لیکن وہ بھی اس تربیت کا حصہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی حملہ آور قتل کر کے چلا جائے اور بعد میں فوج اور پولیس آئے۔ ہم اپنا بچاؤ خود کرنا چاہتے ہیں۔ کم از کم اتنا تو ضرور ہو گا کہ اگر وہ مارتے ہیں تو ہم بھی ماریں گے۔‘
ذرائع کے مطابق گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران ان اضلاع میں 30 ہزار ’تھری ناٹ تھری‘ رائفلیں تقسیم کی گئی ہیں۔
وی ڈی جی اہلکاروں کو اب دوبارہ تربیت دی جا رہی ہے جس کے بعد وہ اپنی بستیوں میں گشت کریں گے۔
تاہم لام گاؤں کے وی ڈی جی رضاکاروں کے رہنما پرمیندر سنگھ کہتے ہیں کہ ’حملہ آور کے پاس جدید اے کے 47 (کلاشنکوف) بندوق ہوتی ہے اور ہمیں جنگ عظیم دوم میں استعمال کی گئی تھری ناٹ تھری بندوق دی گئی ہے، جو ایک فائر کرتی ہے اور پھر اسے دوبارہ لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں جدید ہتھیار دیے جائیں اور ہماری تنخواہ بھی مقرر کی جائے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: ’سرحدوں پر امن لیکن شہروں میں تشدد‘
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: کیا بی جے پی کی حکومت جموں کشمیر میں دوبارہ کچھ نیا کرنے والی ہے؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’ہائیبرڈ‘ عسکریت پسندی کتنا بڑا خطرہ ہے؟
12 سال پہلے دراج گاؤں میں کیا ہوا تھا؟

دراج گاوٴں ڈانگری سے 70 کلومیٹر ایک نہایت اونچے پٹھار پر آباد ہے۔ سنہ 2010 میں وی ڈی جی کی جگہ ویلیج ڈیفنس کمیٹی یعنی وی ڈی سی ہوا کرتی تھی۔اُسی سال ایک وی ڈی سی اہلکار ماسٹر عبدالرشید کے گھر میں داخل ہوا اور فائرنگ کرنے لگا، تاہم عبدالرشید اور اس کے گھر کے باقی افراد نے مزاحمت کی جس کے بعد وی ڈی سی اہلکار نے اُن کے بیٹے شفیق احمد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
شفیق کی بیوہ نسرینہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا بیٹا تین سال کا تھا۔ ایک دن پہلے ہم باتیں کر رہے تھے کہ بیٹے کو اچھے سکول میں داخل کریں گے، لیکن وہ خواب دوسرے روز چکنا چُور ہو گیا۔‘
ایک بار پھر وی ڈی جی کی تشکیل سے نسرینہ اور اس جیسی متعدد خواتین خوفزدہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اُس وقت اُن پر کنٹرول نہیں تھا تو آج کیسے ہو گا۔ ہم خود کو کیسے محفوظ سمجھیں۔ بہت ڈر لگتا ہے۔‘
واضح رہے گذشتہ برسوں کے دوران وی ڈی جی رضاکاروں پر قتل، بلیک میل اور زیادتیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ایسے 20 سے زیادہ معاملات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ تاہم ماسٹر عبدالرشید نے کئی برس تک طویل قانونی لڑائی لڑی اور بالاخر چند برس قبل ان کے بیٹے کے قاتل کو عمر قید کی سزا ہوئی۔
’ہمیں انصاف تو ملا، لیکن اس نئے ماحول میں ہمیں ڈر لگتا ہے۔ کیا گارنٹی ہے کہ ویسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔‘
نسرینہ کہتی ہیں کہ ’اگر اُس وقت اُن پر کنٹرول نہیں تھا تو آج کیسے ہو گا۔ ہم خود کو کیسے محفوظ سمجھیں۔ بہت ڈر لگتا ہے‘ ’خطرہ تو سب کو ہے، مسلمانوں کو بھی ہتھیار دیجیئے‘
دراج کے سرپنچ فاروق انقلابی کہتے ہیں کہ سکیورٹی صورتحال سب کے لیے یکساں ہوتی ہےدراج کے سرپنچ فاروق انقلابی کہتے ہیں کہ ’سکیورٹی صورتحال سب کے لیے یکساں ہوتی ہے۔
’ہندوؤٴں کو خطرہ ہے تو مسلمانوں کو بھی خطرہ ہے۔ ہمیں وی ڈی جی کی تشکیل سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جب ایک فرقے کو ہتھیار دیے جائیں تو دوسرا فرقہ غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہاں شفیق احمد کے قتل جیسی متعدد وارداتیں ہوئی ہیں، حکومت بھی جانتی ہے۔ اگر شہریوں کو ذاتی حفاظت کے لیے مسلح کرنا ہی ہے تو مسلمانوں کو بھی مسلح کریں۔‘