کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود سے جڑے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے اور فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود سے جڑے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے اور فیصلے میں کہا ہے کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
قتل کے اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت 18 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا۔
ان 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی جبکہ رواں سال 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو پیر کو سنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس کیس کی جے آئی ٹی نے پولیس مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔
وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ نقیب محسود کے اہل خانہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔
اپنی بریت کے فیصلے پر راؤ انوار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ جب تک سانس ہے تب تک لڑوں گا۔‘
پولیس مقابلے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا۔‘
نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا2018 میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کر دیے تھے۔
لگ بھگ پانچ سال قبل یعنی 13 جنوری 2018 کو کراچی میں علی الصبح ایک مبینہ پولیس مقابلے میں سابقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے چار نوجوانوں کی ہلاکت نے پاکستان میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا تھا۔
اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کی میت جب تدفین کے لیے جنوبی وزیرستان میں ان کے آبائی علاقے مکین پہنچائی گئی تو نہ صرف وزیرستان بلکہ ارد گرد کے قبائل میں بھی غم و عضے کی لہر دوڑ گئی۔
نقیب کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کی قیادت جنوبی وزیرستان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک نوجوان منظور پشتین کرنے لگے جنھوں نے پہلے ہی سے ایک تنظیم بنا رکھی تھی لیکن ان کی تنظیم کی کوئی آواز یا شناخت تھی۔
نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد منظور پشتین نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا اور پریس کلب کے باہر مظاہرین نے ڈیرہ ڈالا اور دھرنا دے دیا۔ جہاں سے منظور پشتین کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور دھرنے کی حمایت بڑھنے لگی۔
احتجاج کے ان دس روز میں منظور پشتین کی ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم پشتونوں کی ایک طاقتور آواز کے طور پر اُبھری اور اس کا نام تبدیل کر کے ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ رکھ دیا گیا۔
پی ٹی ایم نے ابتدائی طور پر چھ مطالبات پیش کیے جن میں راؤ انوار کی گرفتاری، سابقہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں اور فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور لاپتہ ہونے والے پشتونوں کی برآمدگی اور قبائلی عوام کے ناموس کی بحالی جیسے مطالبات شامل تھے۔
راؤ انوار نے نقیب اللہکا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔یہ بھی پڑھیے:
نقیب اللہ محسود بے قصور قرار، تمام دائر مقدمات خارج
قبائلی نوجوان کی ’جعلی‘ پولیس مقابلے میں ہلاکت سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کیا اپنی مقبولیت کھو رہی ہے؟
نقیب کے والد جنرل باجوہ کے وعدے کی تکمیل کے منتظر
جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نےپولیس مقابلے میں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے اور قرار دیا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ 'وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔'
بعض تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق ابتدا میں انتہائی سبک رفتاری سے پاکستان بھر میں معروف ہونے والی یہ تحریک، فوج پر ’بے جا تنقید‘، پاکستانی اداروں کی جانب سے اس تنظیم پر غیرملکی ایجنسیوں سے روابط اور مالی معاونت حاصل کرنے جیسے الزامات، پی ٹی ایم کے اندر طرز سیاست پر موجود مبینہ اختلاف اور قبائلی علاقوں میں کچھ حد تک عوامی مسائل کے حل ہونے کے باعث، شاید اب اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔
تاہم سیاسی مبصر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ شاید ان وجوہات کی بنا پر غیر پشتون علاقوں کی حد تک پی ٹی ایم کی مقبولیت میں کمی آئی ہو مگر پشتون علاقوں میں بدستور یہ ایک مقبول تحریک ہے جسے عوامی پذیرائی حاصل ہے۔