کراچی میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پانچ برس قبل فرضی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے اور کہا ہے کہ استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 15 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اغوا اور جعلی پولیس مقابلہ تھا لیکن استغاثہ ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی اور اس عمل میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کر سکا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت 22 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 15 کو بری کر دیا گیا جبکہ عدالت کا کہنا ہے کہ سات مفرور ملزمان کے بارے میں فیصلہ ان کی گرفتاری کے بعد سنایا جائے گا۔
تمام ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی جبکہ رواں سال 14 جنوری کو مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو پیر کو سنایا گیا۔
اس کیس میں مدعیان کی قانونی ٹیم کے رکن وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ نقیب محسود کے اہل خانہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔
اپنی بریت کے فیصلے پر راؤ انوار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ جب تک سانس ہے تب تک لڑوں گا۔‘
پولیس مقابلے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا۔‘
نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھاجنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔
نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے اور ان کا موقف تھا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے بھی پولیس کی جانب سے مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔
بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ 'وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔'
راؤ انوار نے نقیب اللہکا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے اس واقعے کے بعد بی بی سی کو بتایا تھا کہ نقیب اللہ 2008 میں کراچی آئے تھے جہاں وہ حب چوکی میں فیکٹری میں کام کرتے تھے۔
ان کے مطابق نقیب اللہ نے کپڑے کے کاروبار کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے سہراب گوٹھ میں دکان بھی کرائے پر لے لی گئی تھی۔
نقیب اللہ کے قتل کے بعد ان کے والد محمد خان محسود اس مقدمے کے مدعی کے طور پر سامنے آئے تھے تاہم اس کیس کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی ان کی وفات ہو گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
کراچی کے متنازع ایس ایس پی راؤ طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر؟
نقیب اللہ محسود بے قصور قرار، تمام دائر مقدمات خارج
نقیب کے والد جنرل باجوہ کے وعدے کی تکمیل کے منتظر
نقیب اللہ کیس اور پی ٹی ایم
یہ نقیب اللہ کی ہلاکت ہی تھی جس کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دیا جانے والا دھرنا پشتون تحفظ موومنٹ کے سامنے آنے کی وجہ بنا۔
احتجاج کے ان دس روز میں منظور پشتین کی ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم پشتونوں کی ایک طاقتور آواز کے طور پر اُبھری اور اس کا نام تبدیل کر کے ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ رکھ دیا گیا۔
نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد منظور پشتین نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا اور پریس کلب کے باہر مظاہرین نے ڈیرہ ڈالا اور دھرنا دیا تھا۔
پی ٹی ایم نے ابتدائی طور پر چھ مطالبات پیش کیے جن میں راؤ انوار کی گرفتاری، سابقہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں اور فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور لاپتہ ہونے والے پشتونوں کی برآمدگی اور قبائلی عوام کے ناموس کی بحالی جیسے مطالبات شامل تھے۔