پورن سٹار کی چوری شدہ تصاویر پر مبنی محبت کا آن لائن فراڈ جس میں پھنس کر لوگ لاکھوں ڈالر لٹا بیٹھے

متاثرین سے جعلی آن لائن پروفائلز کے ذریعے وینیسا کا نام اور ماضی کی تصاویر استعمال کرتے ہوئے پیسے بٹورے گئے جسے رومانوی سکینڈلز کی زبان میں میں ’کیٹ فشنگ‘ کہا جاتا ہے۔
stolen image
BBC

ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ایک سابق پورن سٹار کیتصویروں کو دھوکے سےاستعمال کر کے لوگوں سے ہزاروں ڈالر بٹورے گئے ہیں۔ نادانستگی میں اتنے سارے رومانوی سکیمز(فریب)میں ملوث ہو جانا کیسا محسوس ہوتا ہے؟

لگ بھگ ہر دن وینیسا کومختلف مردوں کی جانب سے ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کا وینیسا کے ساتھتعلق (ریلیشن شپ) ہے۔

ان مردوں میں سے کچھکو تو یہ تک گمان ہے کہ وینیسا ان کی بیوی ہیں۔

ان پیغامات میں بہت سے مرد غصے میں تو کچھ الجھن میں ہوتے ہیں اور وینیسا سے اپنی اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ یہ رقم انھوں نے یومیہ اخراجات، ہسپتال کے بلوں، یا رشتہ داروں کی مدد کے لیے انھیں بھیجی تھی۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔

وینیسا ان مردوں کو جانتی تک نہیں۔ واضح رہے کہ ان کا پورا نام ہم ان کی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے یہاں تحریر نہیں کر رہے۔

سنہ 2000کے وسط سے ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو آن لائن رومانس کے زریعے دھوکہ دینے کے لیےاستعمال کیا جا رہا ہے جو اس زمانے کی ہیں جب وینیساپورن انڈسٹری میں کام کرتی تھیں۔

ان متاثرین سے جعلی آن لائن پروفائلز کے ذریعے وینیسا کا نام اور ماضی کیتصاویر استعمال کرتے ہوئے پیسے بٹورے گئے جسے رومانوی سکینڈلز کی زبان میں میں ’کیٹ فشنگ‘ کہا جاتا ہے۔

رقوم کے مطالبے کے ان ہزاروں پیغامات او ٹرولنگ نے وینیسا کو پریشان کیے رکھا۔

’مجھے ان پیغامات سے ڈپریشن شروع ہو گیا اور میں اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے لگی کہ اگر میری تصاویر وہاں موجود نہ ہوتیں تو یہ مرد مجھے کبھی اس دھوکے کے لیے استعمال نہ کرتے۔‘

وینیسا نے تقریباً آٹھ سال تک ایک کیمگرل (انٹرنیٹ پر ویب کیم کے ذریعے پورن) کے طور پر کام کیا تھا۔

چونکہ وہ شروع میں تھوڑی شرمیلی تھیں تو انھوں نے خود کو ’جینیسا برازیل‘ کی شناخت دی اور خود کو یقین دلانا شروعکیا کہ ’ یہ (کیم گرل) میں نہیں بلکہ یہ جینیسا ہے، اس لیے مجھے شرمانا نہیں چاہیے۔‘

انھوں نے اپنے نام میں برازیل کا نام صرف اس لیے نہیں لگایا کہ وہ وہاں پیدا ہوئی تھیں، بلکہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ برازیل انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ مقبول سرچ کیے جانے والے الفاظ میں سے ایک ہے۔

وینیسا کے مطابق اس وقت ان کا یہ فیصلہ عقلمندی پر مبنی محسوس ہوا تھا۔

’مجھے اس نام سے نفرت ہے۔ لیکن اس نے مجھے تیزی سے مقبول ہونے میں مدد کی۔‘

کچھ عرصے تک وینیسا کے لیے یہ سب بہت اچھا رہا۔ وینیسا کو جنسی گفتگو اور خود کو دکھانے کے 20 ڈالر فی منٹ تک کی رقم ملتی تھی اور اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ان تعلقات کا انھوں نے خوبلطف اٹھایا۔

’میں انھیں خوش کرنا چاہتی تھی۔ میں ان کے ساتھ تفریح کرتی اور وہ مجھ پر فدا ہو جاتے۔‘

پورن
Getty Images
فائل فوٹو

وینیسا کے مطابق وہ اپنے کیریئر کے عروج پر سالانہ تقریباً ایک ملین امریکی ڈالر کما رہی تھیں اور جینیسا کے نام کے ساتھ ان کی اپنی ویب سائٹ تھی جہاں وہ ایک کامیاب برانڈکے طور پر آن لائن بہت ایکٹو رہتی تھیں۔

تاہم 2016 میں ان کا آن لائن پروفائل تاریک ہو گیا۔

بی بی سی کو اپنے پروگرام ’پوڈ کاسٹ لو‘ کے لیے جینیسا کو ڈھونڈنے میں تقریبا نو مہینے لگے جو امریکہ کے مشرقی ساحل پر واقع ایک معمولی اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر تھیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آن لائن کانٹینٹ چھوڑنے کی ایک وجہ سکیمرز کو روکنے کی کوشش کرنا تھی۔ وہ کہتی ہیں ’میں اب انھیں یہ اختیار نہیں دینا چاہتی کہ وہ کوئی بھی چیز دوبارہ استعمال کریں۔‘

وینیسا کو سب سے پہلے اس دھوکے کا علم اس وقت ہوا جب ایک آدمی نے لائیو شو کے دوران چیٹ میں پوسٹ کیا کہ وہ انکا شوہر ہے۔ اس شخص نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے انھیں کہا کہ جینیسا نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ویب کیم پر شو کرنا بند کر دیں گی۔

انھوں نے سوچا کہ یہ ایک مذاق ہے لیکن پھر بھی انھوں نے اسے ایک ای میل کرنے کو کہا۔

مگر یہ سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتا گیا اورایک کے بعد ایک ایسے بے شمار دعویدار ان کے سامنے آتے گئے جنھوں نے ناصرف انشوز کے دوران کئی تبصرے پوسٹ کیے بلکہ متعدد بار ان سے اپنی شناخت ثابت کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ان دھوکے بازوں نے اس دوران ان سے کئی عجیب وغریب درخواستیں بھی کیں جیسے سرخ ٹوپی پہننا یا ایسی تصاویر جن کو سکیمز میں استعمال کیا جا سکے۔

مسلسل ایسے تبصروں اور ای میلز نے ان کے سٹریس (تناؤ) کو بڑھا دیا جس سے ان کا کام متاثر ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ سب ایک ڈراؤنا خواب لگتا تھا اور وہ سب مجھے بہت ہی برے لگا کرتے لیکن سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔‘

پہلے تو انھوں نے ہرای میل کا جواب دینے کی کوشش کی جس میں انھیں ہر روز کئی کئیگھنٹے لگ جاتے تھے پھر اس کام کو ان کے شوہر نے سنبھال لیا۔

’میرے شوہر جو اس وقت میرے مینیجر بھی تھے، انھوں نے ان پیغامات کی نگرانی شروع کردی۔ انھوں نے اس فراڈکے متاثرین کو بتایا کہ ہم اس رقم کے ذمہ دار نہیں جو ان مردوں نے دھوکے میں گنوائی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مجھے وہ تمام رقم مل جاتی جو ان لوگوں نے دھوکہ بازوں کو بھیجی تھی، تو میں آج ایک ارب پتی بن جاتی اور یہاں اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں نہیں بیٹھتی۔‘

سکیم
BBC

وینیسا کہتی ہیں کہ کئی مردوں کو خواتین کا خیال رکھنے کی عادت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے وہ کسی ایسے شخص کو بھی پیسے بھجوا سکتے ہیں جس سے وہ کبھی نہیں ملے ہوتے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ان کے پاس پیسے نہ ہوں، تب بھی وہ دینے کو تیار ہوتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کو یہ محسوس ہو کہ کوئی ان سے پیار کرتا ہے۔‘

روبرٹو مارینی ایک اطالوی شہری ہیں جو جعلی جینیسا کے دھوکے میں پھنس گئے۔

پہلے ان کو فیس بک پر ایک خوبصورت نوجوان خاتون کا پیغام ملا جس نے اپنا نام ہانا بتایا اور ان کو سارڈینیا کے جزیرے پر کاروبار میں کامیابی پر مبارک باد پیش کی۔

تین ماہ تک تصاویر اور محبت بھرے پیغامات کے تبادلے کے بعد، ہانا نامی خاتون نے ان سے پیسوں کو مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

پہلے یہ بہت چھوٹی چیزوں کے لیے تھا، جیسا کہ خراب فون، لیکن پھر یہ مطالبات بڑھتے گئے۔

خاتون نے روبرٹو کو بتایا کہ ان کی زندگی بہت مشکل ہے اور اسے بیمار رشتہ داروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور گزر بسر کے لیے پورن انڈسٹری میں بھی کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

روبرٹو ہانا کو بچانا چاہتے تھے، لیکن ان کو اس بات پر مایوسی ہوتی تھی کہ وہ کبھی بات نہیں کر پاتے۔ جب بھی وہ طے کرتے کہ کال کریں گے تو کبھی ہانا کا فون خراب ہو جاتا یا کوئی اور چیز ہو جاتی۔

ایک دن روبرٹو نے ہانا کی ہزاروں تصاویر اور ویڈیوز آن لائن دریافت کیں۔ لیکن یہ تصاویر ایک پورن سٹار جینیسا برازیل کی تھیں۔

روبرٹو کو ہانا کی محبت سچی محسوس ہوتی تھی۔ انھوں نے سوچا کیا وہ اپنی اصل شناخت اس لیے ظاہر نہیں کرنا چاہتی کہ ان کا تعلق مشکل میں نہ پڑ جائے۔ روبرٹو نے جینیسا برازیل کے لائیو شو میں شرکت کی اور چیٹ میں لکھا کہ ’کیا یہ تم ہی ہو؟‘

ان کو مطلوبہ جواب نہیں ملا۔ ان کو ہر منٹ کے لیے ادائیگی کرنا پڑ رہی تھی اس لیے وہ زیادہ دیر تک نہیں رک پائے۔

سچائی کی تلاش میں روبرٹو نے ان تمام ناموں پر ای میل کر دی جو ان کے خیال میں اصل جینیسا تھیں۔ وینسیا سے انٹرویو کے دوران ہم نے ان کے ان باکس میں روبرٹو کا بھی ایک پیغام دیکھا۔

2016 کے اس پیغام میں روبرٹو نے لکھا تھا ’میں اصلی جینیسا برازیل سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘ ان کے جواب میں وینیسا نے لکھا ’ میں ہی اصلی جینیسا برازیل ہوں۔‘

روبرٹو نے ان سے چند اور سوال کیے تاکہ یہ جان سکیں کہ آیا ان کی اس سے پہلے بات ہو چکی ہے یا نہیں۔ ای میل کے ذریعے یہ ان کا پہلا اور آخری رابطہ تھا۔

لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ دھوکے باز روبرٹو کا پیچھا کرتے رہے۔

روبرٹوبتاتے ہیں کہ انھوں نے چار سال میں ڈھائی لاکھ ڈالر بھجوائے۔ اس رقم کا بڑا حصہ انھوں نے دوستوں اور رشتہ داروں سے ادھار اور قرض لیا تھا۔

روبرٹو نے اپنی آن لائن پوسٹ کے ذریعے بعد میں لوگوں کو خبردار کرنا شروع کیا کہ چند دھوکے باز جینیسا کی چوری شدہ تصاویر کے ذریعے چکمہ دے رہے ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ اصلی جینیسا سے ان کا کوئی تعلق ضرور تھا۔

فلاڈیلفیا کی ماہر کرمنل جسٹس ڈاکٹر انوشل ریجی کا کہنا ہے ’یہ ایک کامیاب دھوکے کی نشانی ہے۔‘

انھوں نے مجرمانہ نیٹ ورک کا ایک ایسا مینوئل بھی دریافت کیا ہے جس میں ایسی ہدایات موجود ہیں کہ کس طرح کسی ایسی فون کال سے بچا جائے جس سے ان کا راز افشاں ہونے کا ڈر ہو۔

’یہ دھوکہ ایک جانے پہچانے انداز سے دیا جاتا ہے جس میں پہلے محبت کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں اور پھر تعلق ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس کے بعد مالی امداد کی درخواست آتی ہے تاکہ پیار کرنے والے مل سکیں۔‘

ڈاکٹر انوشل ریجیکے مطابق ’یہ ایک فارمولا ہے جو ان سب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے جو اس تجربے سے گزر چکے ہیں لیکن پھر بھی یہ دھوکا کام کر جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر ریجی کا کہنا ہے ’بطور انسان ایک دوسرے کی مدد کرنا ہماری فطرت کا حصہ ہے۔‘

دوسری جانب وینیسا کہتی ہیں کہ ان کو ان بےرحمانہ طریقوں سےنفرت ہے۔’وہ محبت دکھاتے ہیں اور پھر چھین لیتے ہیں۔ لوگ مایوس ہو کر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ریجی کا خیال ہے کہ روبرٹو کو ایک منظم گروہ نے دھوکہ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں کافی منظم گروہ یہ کام کر رہے ہیں جو ترکی، چین، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، نائجیریا اور گھانا میں موجود ہیں۔

روبرٹو کو ایک بار گھانا پیسہ بھجوانے کا کہا گیا تھا جہاں ’ساکاوا بوائز‘ کے نام سے ایک منظم آن لائن دھوکے باز گروہ موجود ہے۔

بی بی سی نے ان میں سے ایک کو تلاش کیا۔ ’اوفا‘ نامی نوجوان نے ہمیں بتایا کہ ’یہ کام وقت طلب ہوتا ہے‘ اور ان کے مطابق انھیں برا تو لگتا ہے لیکن وہ اب تک 50 ہزار ڈالر کما چکے ہیں۔

scam
BBC

جب اوفا کو جینیسا کی تصاویر دکھائی گئیں، تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان کو استعمال نہیں کیا لیکن ان کے مطابق یہ سمجھنا آسان تھا کہ دھوکے بازوں کو ان تصاویر میں کیوں دلچسپی ہو گی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی دھوکے کی کامیابی کے لیے ان کو خواتین کی مختلف قسم کی تصاویر درکار ہوں گی، جن میں ان کو روزمرہ کے کام کرتے دیکھا جا سکتا ہو۔

وینیسا کا خیال ہے کہ ان کی تصاویر کو اس لیے استعمال کیا گیا کیوں کہ وہ اپنی زندگی کے لمحات شیئر کرتی رہتی ہیں۔

دھوکے کا شکار ہونے والوں کی نہ تھمنے والی فہرست نے وینیسا کو گہرے صدمے سے دوچار کر دیا۔ کیمرے کے سامنے روزانہ اداکاری کا اثر ان کی ذہنی صحت اور ان کے رشتہ ازدواج پر بھی پڑنے لگا تھا۔

وینیسا نے بتایا کہ وہ تھکی رہتی تھیں اور شو سے قبل انھوں نے شراب نوشی کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت کی ویڈیوز سے ان کو نفرت ہے کیوں کہ ان میں وہ اپنا غم دیکھ سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آن لائن ڈیٹنگ ایپس چھوڑنے سے ’مجھے اپنی زندگی واپس مل گئی‘

جیل سے انٹرنیٹ پر خواتین کو محبت کا جھانسہ دے کر پیسے بٹورنے والے شخص کی کہانی

ڈیٹنگ ایپس کے استعمال سے بڑھتی تھکن

2016 میں وینیسا نے کام ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے گھر اور شوہر کو چھوڑا اور نئی زندگی کی تلاش میں نکل پڑیں۔

اب وہ بطور ایک تھراپسٹ ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں اور اپنی یادداشت لکھ رہی ہیں جس کا مقصد اپنی کہانی کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

وینیسا نے آج تک اپنی تصاویر کے غلط استعمال پر حکام سے رجوع نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی شکایت کو سنجیدگی سے نہیں سنا جائے گا۔

’وہ میری طرف دیکھیں گے اور کہیں گے تم پورن سٹار ہو اور مجھ پر ہنسیں گے۔‘

ان برسوں میں وینیسا مضبوط ہوئی ہیں۔

وہ جانتی ہیں کہ آن لائن دھوکے باز شاید ان کی تصاویر کے استعمال کو ترک نہ کریں لیکن اب وہ سمجھ سکتی ہیں کہ کچھ لوگ اس پھندے میں کیوں پھنسے۔

وینیسا کے مطابق ’جب محبت کا معاملہ ہو تو ہم بیوقوف بن سکتے ہیں۔ میں جانتی ہوں، میرے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.