انڈین فضائیہ کی جانب سے بالاکوٹ میں کی گئی حالیہ کاروائی کے بعد کئی ذہنوں میں سوال اٹھا کہ پاکستانی فضائیہ کے طیارے حرکت میں کیوں نہیں آئے۔ اِسی تناظر میں پاکستانی ایئرفورس کے سابق اہلکار ایئر مارشل مسعود اختر سے بات کی گئی۔
پاکستانی ایف 16 طیارے(چار برس قبل انڈیا نے پاکستان کے علاقے میں شدت پسند تنظیم کے کیمپ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا اور پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر جوابی کارروائی کی تھی۔ آج اس واقعے کے چار سال مکمل ہونے پر اس تحریر کو دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
26 فروری 2019 کو انڈیا کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد پاکستانی فوج نے اس واقعے کی تصدیق کی تھی اور بتایا کہ پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ جلدبازی میں اپنے بم گرا کر واپس چلے گئے۔
دوسری جانب انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اپنی ایک فضائی کارروائی میں بالاکوٹ کے علاقے میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔
اِسی تناظر میں ہم نے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات کے لیے پاکستانی ایئرفورس کے سابق اہلکار ایئر مارشل مسعود اختر سے بات کی تھی۔
مروجہ طریقہ کار یا ایس او پی کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایئر مارشل (ریٹائرڈ) مسعود اختر کا کہنا تھا کہکشیدگی کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے کامبیٹ ایئر پیٹرولنگ ہوتی ہے یعنی میزائیلوں سے لیس لڑاکا طیارے مسلسل گشت کرتے ہیں۔
اِس دوران کوئی بھی طیارہ ملکی فضائی حدود سے پچاس کلومیٹر قریب آتا ہے تو اُس کا سامنا کرنے کے لیے پیٹرولنگ یا گشت کرنے والے طیارے تیار ہو جاتے ہیں اور غیر ملکی طیارے کو اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ امن کے دنوں میں اگر کوئی غیر ملکی طیارہ 10 کلومیٹر تک اندر آ جائے تو اِسے مارا نہیں جاتا بلکہ وارننگ دے کر واپس جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ردِعمل کے لیے وقت کتنا ہوتا ہے؟
پاکستان کا جے ایف 17 طیارہاگر کشیدگی ہے اور طیارے پیٹرولنگ کر رہے ہیں تو جوابی کارروائی میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ اگر طیارہ زمین پر ہے اور پائلٹ کاک پِٹ میں موجود ہے تو طیارہ اگلے تین منٹ میں فضا میں ہو گا۔
اگر پائلٹ ایئر ڈیفینس الرٹ ہٹ میں موجود ہے تو وہاں سے طیارے تک پہنچنے، کاک پِٹ میں بیٹھنے اور فضا میں بلند ہونے میں پانچ منٹ لگتے ہیں۔
گذشتہ روز ہونے والے واقعے میں پاکستانی طیارے پہلے ہی کامبیٹ ایئر پیٹرولنگ کر رہے تھے اِس لیے جیسے ہی انھیں پتہ چلا اور پاکستانی کامبیٹ کنٹرولرز نے انھیں سمت بتائی وہ وہاں پہنچ گئے۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ شاید دونوں جانب سے ہدایات دی گئیں تھیں کہ براہ راست جھڑپ نہیں کرنی۔ اِسی لیے پاکستانی طیاروں نے انھیں مار گرانے کی کوشش کرنے کے بجائے واپس جانے پر مجبور کیا جبکہ انڈین طیاروں نے بھی پاکستانی طیاروں کا سامنا نہیں کیا، جلدی سے پے لوڈ گرایا اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔
زمینی اور فضائی فاصلہ؟
اگر انڈین طیاروں نے بالا کوٹ کے قریب بم گرائے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ تقریباً 40 کلومیٹر پاکستانی حدود کے اندر آئے تھے۔ لڑاکا طیارے 40 کلومیٹر کا فاصلہ چار سے پانچ منٹ میں طے کر لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ایئر فورسزکے ردِعمل کا وقت بھی آٹھ منٹ یا اس سے زیادہ ہے۔
پے لوڈ کیا ہوتا ہے؟
طیارے کے پروں کے نیچے جو بھی چیز لگی ہوتی ہے وہ پے لوڈ کہلاتی ہے۔ مثلاً میزائیل، بم اور راکٹ، یہ سب پے لوڈ میں شامل ہیں۔ طیارے کی رفتار بڑھانے کے لیے طیارے کو ہلکا کرنا پڑتا ہے تا کہ تیزی سے کسی جگہ سے نکلا جا سکے اور پیچھے سے آنے والے طیارے آپ کو مار نہ سکیں۔ حالیہ واقعے میں انڈین طیاروں نے اِسی لیے پے لوڈ یعنی اپنا گولہ بارود گرا کر اپنا وزن کم کیا اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔
ایف 16 بمقابلہ میراج:
انڈین ایئر فورس کی جانب سے پاکستانی حدود میں آکر بم گرانے کے واقعے میں انڈیا کی جانب سے میراج طیارے استعمال کیے گئے جبکہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لیے ایف سولہ اور جے ایف سترہ لڑاکا طیارے تھے۔
ایئر مارشل مسعود اختر کے مطابق ایف سولہ بلاک 52 میراج سے بہتر طیارہ ہے جبکہ جے ایف سترہ تھنڈر اور ایف سولہ کے بعض دوسرے ورژن میراج برابر کے ہیں۔
مسعود اختر کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنے میراج طیاروں کو فرانس سے اپ گریڈ کروایا ہے لیکن اس کے باوجود ایف سولہ کو ہتھیاروں اور ریڈار کے لحاظ سے میراج پر فوقیت حاصل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جدید تھرڈ جنریشن طیاروں میں نائن جی کی صلاحیت ہوتی ہے۔
بالاکوٹ پر ہونے والے حملے کے بارے میں مزید پڑہھیے
’انڈین طیارے تین منٹ تک پاکستان میں رہے‘
ایل او سی پر کشیدگی میں اضافہ، ’انڈین فائرنگ سے چار ہلاک‘
انڈیا کا پاکستان کی حدود میں حملہ، مفروضے اور حقائق
جیشِ کیمپ پر حملے کا دعویٰ، پاکستان کا انکار
انڈین میراج 2000 طیارے جو اس حملے میں استعمال کیے گئے تھےنائن جی کا مطلب ہے کہ جب طیارہ موڑ کاٹتا ہے تو اس کا وزن نو گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ دونوں طیاروں کے پاس نائن جی صلاحیت ہے اور بی وی آر یعنی بیونڈ ویژول رینج یعنی نظر سے دور ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائیل بھی دونوں کے پاس ایک طرح کے ہیں۔
رولز آف انگیجمنٹ (جنگ کے قواعد)
ایئر مارشل مسعود اختر کے مطابق حالیہ واقعے میں دونوں طرف سے رولز آف انگیجمنٹ یہ تھے کہ اگر مارنا پڑ جائے تو مار دو لیکن کوشش یہ ہوگی کہ جھڑپ سے بچنا ہے تاکہ جنگ بڑھ نہ جائے۔
پاکستان کی جانب سے کوشش تھی کہ انڈین طیاروں کو روکا جائے اور دھمکایا جائے تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ مسعود اختر کے مطابق انڈین پائلٹوں کو بھی کہا گیا ہوگا کہ آپ نے دشمن طیارے کو تلاش کر کے لڑنا نہیں ہے اور جلدی نکلنا ہے۔ انھوں نے بھی بس یہ دکھانا ہی تھا کہ انھوں نے سرجیکل سٹرائیک کی ہے۔
بالاکوٹ میں وہ مقام جہاں پر انڈین طیاروں نے پے لوڈ گرایاایئر مارشل مسعود اخترکے بقول دونوں جانب سے جنگ کو بڑھانا مقصد نہیں تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ جب زمینی سرحد پر سپاہی لڑتے ہیں تو اُس سے ایک بڑی جنگ چھڑنے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن اگر طیارہ کئی میل اندر گرا دیا جائے تو حالات کافی خراب ہو سکتے ہیں۔
عام حالات میں جنگ کے قواعد مختلف ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر کسی غیرملکی طیارے کو گرانا ہے تو اِس طرح کے اُس کا ملبہ اپنی سرحد کے 10 کلومیٹر اندر گرے۔ اِس کی وجہ بتاتے ہوئے مسعود اختر کا کہنا تھا اِس سے یہ ثابت ہوگا کہ دوسروں نے حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ اگر ملبہ پڑوسی ملک میں پایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے اندر گھس کر کارروائی کی ہے۔