ٹک ٹاک پر ایشیائی خواتین انفلوئنسرز: ’میرے چہرے کے بالوں کی وجہ سے کوئی مجھے مرد پکارے یہ جائز نہیں‘

ٹک ٹاک انفلوئنسرز کی یہ طرز زندگی خوشی غمی اور اونچ نیچ سے بھری پڑی ہے لیکن اگر یہ آپ کے معاشرے، ثقافت اور عقیدے سے متصادم ہو تو کیا یہ ہمیشہ کے لیے قائم رہ سکتا ہے؟
خواتین
BBC

آج کی دنیا میں ٹک ٹاک سوشل میڈیا ایپس کی بدولت سیکنڈوں میں مشہور ہونا یا وائرل ہونا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔

دلکش گانوں سے لے کر مضحکہ خیز ویڈیوز تک، زیادہ سے زیادہ کامیاب سوشل میڈیا انفلوئنسرز اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے روزگار کما رہے ہیں۔

ٹک ٹاک انفلوئنسرز کی یہ طرز زندگی خوشی غمی اور اونچ نیچ سے بھری پڑی ہے لیکن اگر یہ آپ کے معاشرے، ثقافت اور عقیدے سے متصادم ہو تو کیا یہ ہمیشہ کے لیے قائم رہ سکتا ہے؟

بی بی سی ایشین نیٹ ورک نے اس بارے میں تین برطانوی ایشیائی ٹک ٹاکرز سے ان کی کہانیاں سنی ہیں۔

’میں بولنے سے پہلے سوچتی ہوں‘

تطہیر فاطمہ نے 2020 میں پہلے کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران انفلوئنسر کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ وہ ایک کامیاب میک اپ آرٹسٹ بننا چاہتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ ٹک ٹاک انھیں کاروباری مواقع حاصل کرنے میں مدد کرے گا۔

21 سالہ تطہیر کا کہنا ہے کہ ’میری پہلی ویڈیو میرے ہاتھ چھیدنے کی تھی اور یہ وائرل ہو گئی۔‘

اگرچہ اب ان کے ٹاک ٹاک پر ایک لاکھ سے زیادہ فالورزاور مجموعی طور پر ان کی پوسٹوں پر 4.5 ملین لائکس ہیں۔ لیکن تطہیر فاطمہ اب اپنی پوسٹوں کے حوالے سے محتاط ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں، میں بات کرنا پسند کرت ہوں، لیکن اب میں نہیں کر سکتی کیونکہ یہ میری طرف زیادہ توجہ مبذول کرے گا۔‘

اگرچہ روزانہ بہت سے لوگ ان کی میک اپ کرنے کی مہارت پر تعریف کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں روزانہ کی بنیاد پر بدسلوکی اور نسل پرستانہ تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کی تازہ ترین ویڈیو پر جہاں وہ اپنے چہرے کے بال صاف کرتی ہیں کو 11 ملین افراد نے دیکھا ہے اور یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

لیکن تطہیر فاطمہ کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو پر آنے والے تبصرے ’مردوں سے بھرے پڑے ہیں جہاں وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ میں مرد ہوں یا خواجہ سرا‘

وہ کہتی ہیں کہ ’حتی کہ کچھ لوگوں نے تو مجھے بیمار قرار دے دیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سی عورتوں کے چہروں پر بال ہوتے ہیں، بہت سی ایشیائی خواتین میری بات سمجھ سکتی ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت سی کو روزانہ چہرے کے بال صاف کرنے پڑتے ہیں۔‘

’یہ جائز نہیں ہے کہ میرے چہرے پر بال ہونے کی وجہ سے کوئی مجھے مرد پکارے۔‘

فاطمہ اپنے کاروبار کو بڑھانے میں مدد کا سہرا ٹک ٹاک کو دیتی ہے، لیکن اپنے عقیدے کی وجہ سے خود کو اس سے متصادم پاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ طرز زندگی ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے، اگر مجھے میرے مذہب کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھنا ہے تو مجھے ٹک ٹاک پر پوز کرنا چھوڑنا ہو گا۔‘

’نفرت آمیز تبصرے میری برادری کے مرد کرتے ہیں‘

سلوا عزیز کا کہنا ہے کہ انھیں آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سلوا عزیز پہلی مرتبہ ٹک ٹاک پر سنہ 2020 پر وائرل ہوئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ کے ساتھ ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ہم نے ایسٹ اینڈرز کے ایک منظر کو دوبارہ سے بنایا تھا اور یہ وائرل ہو گئی اور 100,000 سے زیادہ ویوز آئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے کہا تھا یہ زبردست ہے، میں نے کر دکھایا۔‘

22 سالہ سلوا کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی برادری سے باہر بھی جانی جانے لگی ہیں اور لوگ انھیں قابلِ رشک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

لیکن وہ آن لائن بدسلوکی سے انجان نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے تجربے کے مطابق میرے متعلق زیادہ تر نفرت آمیز تبصرے میری برادری کے مرد کرتے ہیں کیونکہ میں ایک ایشیائی لڑکی ہوں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مجھ پر اختیار ہے۔‘

’میں نے ایک بار ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی اور بہت سارے لوگوں نے اسے پسند کیا تھا، لڑکیاں اپنے دوستوں کو ٹیگ کر رہی تھیں۔ پھرمہینوں بعد میری ویڈیو ایک میمز پیج پر دوبارہ پوسٹ کی گئی اور اس کا کمنٹس سیکشن ایشیائی مردوں کے تبصروں سے بھرا پڑا تھا جو میری وزن کے متعلق تبصرے کر رہے تھے۔‘

سلوا اکثر یہ سوچتی ہیں کہ وہ کب تک ایسے ٹک ٹاک پر پوسٹ کرتی رہے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب یہ میرے لیے کیرئیر نہیں ہے لیکن ٹک ٹاک نے مجھے مواقع ضرور دیے ہیں۔‘

’میں ہر وقت روتی رہتی تھی ‘

لل ماز کے ٹک ٹاکر پر 5.9 ملین فالورز ہیں۔ وہ ٹک ٹاک پر اپنی کامیڈی ویڈیوز، سکن کیئر کے متعلق ویڈیو اور چار فٹ سات انچ قد کے باعث مقبول ہیں۔

سلوا اور فاطمہ کی طرح انھوں نے بھی ٹک ٹاک پر اپنے سفر کا آغاز کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران ہی کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت میں بور ہو چکی تھی اور اکتاہٹ کا شکار تھی اور میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں اسے بطور فل ٹائم کیرئیر لے کر چل سکتی ہوں۔ میں نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی اور وہ وائرل ہو گئی۔‘

’ان کی مشہور ویڈیو ’مجھے گدی گدی مت کرو‘ کو تب سے اب تک 43.5 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے اور اس پر 5.3 ملین لائکس اور ایک لاکھ سے زیادہ تبصرے ہیں۔

20 سالہ لل کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز ان کی سب کو ہنسا دینے والی ہنسی ہے۔

لیکن تقریباً 50 لاکھ فلورز کے باوجود انھیں روزانہ نسلی امتیاز، بدسلوکی اور منفی تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے پہلے ویڈیوز بنانا شروع کی تو ان پر نفرت آمیز تبصروں نے مجھے بہت پریشان کیا اور میں ہر وقت روتی رہتی تھی۔

ان تبصروں نے میرے طرز زندگی کے متعلق شکوک پیدا کیے اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ کیا میں مزید یہ سب کرنا چاہتی ہوں؟‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اب میں ان کی پرواہ نہیں کرتی کیونکہ وہ صرف حسد کرتے ہیں کیونکہ ان میں ویڈیوز پوسٹ کرنے کا اعتماد نہیں ہے۔‘

لل ماز کا ماننا ہے کہ یہ اہم ہے کہ وہ اپنی ذہنی صحت کے متعلق واضح ہو،

وہ انھیں سراہانے اور ان کی حمایت کرنے پر اپنے لاکھوں فالورز کی شکر گزار ہیں، لیکن یہ تسلیم کرتی ہیں کہ اب عوام میں انھیں بہت محبت سے دیکھا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جب عوامی مقامات پر کچھ لوگوں کا گروہ میری جانب آتا ہے تو میں چھپنے کی کوشش کرتی ہوں کیونکہ میں گھبرا جاتی ہوں‘

لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ٹک ٹاک مجھے پسند ہے اور مجھے نہیں پتا کہ میں اور کیا کر سکتی ہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.