سوات میں 15 سال بعد لڑکیوں کے ہائی سکول اور کالج میں تعلیم کا آغاز: ’یقین نہیں تھا ہم کالج پڑھنے آئیں گے‘

سنہ 2007 میں خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں کالعدم تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو تحصیل خوازخیلہ میں لڑکیوں کے ڈگری کالج و ہائی سکول اور وٹرنری ہسپتال میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا لیکن اب مقامی سطح پر طویل کوششوں کے بعد پندرہ سال بعد دونوں اداروں کی عمارت کو خالی کر کے ان میں دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔
خوازخیلہ کا گرلز کالج
BBC

سوات میں فروری کے آخری ہفتے میں موسم سرما کی سالانہ تعطیلات ختم ہونے کے بعد سیکنڈ ائیر کی طلبہ نورہ عزیز کا تحصیل خوازخیلہ کے کالج میں پہلا دن تھا۔

اس سے قبل اُن کا کالج یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دینی مدرسے میں تھا لیکن اب وہ کافی خوش ہیں اور کہتی ہیں کہ اُن کو اس بات کا بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی یہاں پڑھنے آئیں گی۔

واضح رہے کہ سنہ 2007 میں خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں کالعدم تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تھا۔ دیگر علاقوں کی طرح سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 26 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع تحصیل خوازخیلہ میں بھی لڑکیوں کے ڈگری کالج و ہائی سکول اور ویٹنری ہسپتال میں بھی سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا لیکن اب مقامی سطح پر طویل کوششوں کے بعد پندرہ سال بعد دونوں اداروں کی عمارت کو خالی کر کے ان میں دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔

اس دوران تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے صفا جیسی کئی لڑکیوں نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ صفا نے بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت میں تھیں کہ گھر کے قریب ہائی سکول بند ہو گیا۔

’جس کے بعد تین کلومیٹر دور لڑکوں کے پرائمری سکول لنگر میں دسویں جماعت پاس کی تاہم یہاں پر کمرے کم تھے اور لڑکیاں خیموں میں پڑھتی تھیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’میں مزید پڑھنا اور اُستانی بننا چاہتی تھی لیکن کافی لڑکیوں کی طرح میں نے بھی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔‘

پھر صفا کی کم عمری میں ہی شادی کر دی گئی اور اب وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔

صفا کے والد راحت شاہ علاقے کے اُس جرگے کے سرگرم ممبر ہیں، جنھوں نے تعلیمی اداروں کو سکیورٹی فورسز سے خالی کرانے کے لیے کوششیں کیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی۔

راحت شاہ نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی نے دسویں اور دوسری نے آٹھویں جماعت پڑھنے کے بعد سکول چھوڑ دیا۔

’کافی اسرار کے باوجود بھی وہ پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں کیونکہ ایک تو فاصلہ زیادہ تھا اور دوسرا خوف تھا۔‘

سنہ 2008 میں بدامنی کی وجہ سے وادی میں تمام تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ بے گھر افراد کی واپسی مکمل ہونے کے بعد 2009 میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خوازہ خیلہ کو گورنمنٹ پرائمری سکول لنگر منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ یہاں پر پڑھنے والے 132 لڑکوں کو دوسرے سرکاری سکول میں منتقل کر دیا گیا۔

خوازخیلہ کا ہائی سکول
BBC

خوازخیلہ کا ہائی سکول اور کالج بنیادی سہولیات سے اب بھی محروم

خوازخیلہ کے سکول اور کالج میں پڑھائی کا سلسلہ تو شروع ہو چکا ہے لیکن واش روم، بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات ابھی بھی میسر نہیں جبکہ دونوں اداروں میں عملہ اپنی مدد آپ کے تحت ان سہولیات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

خوازخیلہ ہائی سکول کی پرنسپل ہاجرہ نے بتایا کہ ابتدا میں لڑکیوں کی تعداد 180 تھی جبکہ 30 فیصد سے زائد بچیوں نے سکول آنا چھوڑ دیا۔ اُن کے بقول پندرہ سال بعد سکول میں لڑکیوں کی تعداد 1121 تک پہنچی، جو ایک اندازے کے مطابق کم از کم تین ہزار ہونی چاہیے تھی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ آٹھ چھوٹے کمروں میں اتنی تعداد کو سنبھالنا ناممکن تھا اور اس وجہ سے آدھی کلاس پورے دن کھڑے ہو کر پڑھائی کرتی تھی، جس کی وجہ سے مجبوراً نئے داخلے بند کروانا پڑتے تھے۔

گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج خوازہ خیلہ کی پرنسپل نجمہ رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2007 میں کالج میں 150 طالبات تھیں تاہم نومبر 2008 میں یہاں سے 32 کلومیٹر دور سیدو گرلز کالج میں کلاسسز کا آغاز کیا، جس میں صرف بیس لڑکیاں ہی پڑھنے آتی تھیں۔

اُن کے بقول دو سال بعد یہاں پر قریب ایک دینی مدرسے میں کام کا آغاز کیا لیکن خوف اور کم سہولیات کی وجہ سے دسمبر 2022 تک ویسے ہی وہاں پر گزرا۔

اُنھوں نے کہا کہ رواں ماہ مارچ سے باقاعدہ اپنے ہی کالج کی پرانی عمارت میں پڑھائی کا عمل شروع کر دیا اور طالبات کی تعداد 800 ہے جبکہ یہاں پر بارہ کمرے ہیں۔

خوازخیلہ
BBC
سنہ 2008 میں حکومت نے خوازہ خیلہ میں مقامی کاشت کاروں کی 300 اور 56 کنال سرکاری زمین پر فوجی چھاؤنی تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا

’جانوروں کے ہسپتال میں اب بھی سکیورٹی اہلکار تعینات‘

ڈاکٹرعبدالبصیر مقامی سطح پر اُس جرگے کے سربراہ ہیں، جن کی کوششوں سے سکول اور کالج تعلیمی سرگرمیوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ خوازہ خیلہ میں حکومت نے سنہ 2008 میں مقامی کاشت کاروں کی 300 اور 56 کنال سرکاری زمین پر فوجی چھاؤنی تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اُن کے بقول مقامی سطح پر سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقاتوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارشات کے بنیاد پر اپریل 2018 میں منصوبہ ختم کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی چھ سال بعد سکول اور کالج تو خالی کر دیا گیا لیکن ساتھ جانوروں کے ہسپتال میں اب بھی سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، جن کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔

صد اکبر کالج میں زیر تعلیم ہیں اور والی بال کی ٹیم ممبر بھی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھیلیں لیکن کھیل کے میدان کے ساتھ ویٹنری ہسپتال میں سکیورٹی اہلکار تعینات ہونے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اس وجہ سے متعلقہ حکام سے یہ جگہ بھی خالی کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قلم اور بندوق ایک ساتھ ممکن نہیں۔‘

محبوب میاں ٹیٹہ بٹ گاؤں کے مقامی کاشتکار ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کئی برسوں سے ویٹنری ہسپتال کو سڑک کے کنارے ایک دکان میں منتقل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو جانوروں کے علاج میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ اُن کے بقول آگر پرانا ہسپتال کھولا جائے تو اس سے کافی سہولیات میسر ہوں گی۔

محکمہ تعلیم سوات کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بدامنی کی لہر میں سینکڑوں کی تعداد میں تعلیمی ادارے سکیورٹی حکام کے زیر استعمال تھے لیکن امن ہونے کے بعد بتدریج اُن کو خالی کر دیا گیا لیکن بیس تک ادارے ایسے تھے جو چار سال سے لے کر پندرہ سال تک بند رہے۔

اس حوالے سے سوات کے ضلعی حکام کے ساتھ بارہا رابطے کی کوشش کی گئی مگر اُن کا مؤقف سامنے نہیں آیا جبکہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس حوالے سے تبصرے سے گریز کیا۔

دوسری جانب کالج انتظامیہ نے بتایا کہ طالبات کے آنے کے بعد آخری چوکی یہاں سے ختم کر دی گئی جبکہ ویٹنری ہسپتال کو خالی کرنے کے لیے چھ مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال اگست میں سوات میں طالبان کی مسلح سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئی تھیں جبکہ صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ یہ لوگ ایک معاہدے کے تحت پرامن زندگی گزاریں گے۔ مقامی لوگوں نے اس کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔

لنگر کا بوائز سکول
BBC
2009 میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خوازہ خیلہ کو گورنمنٹ پرائمری سکول لنگر منتقل کر دیا گیا تھا

لڑکیوں کے 220 پرائمری سکول لیکن ہائی سکول صرف ایک

ڈاکٹرعبدالبصیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچیس دیہات جن کی آبادی ساڑھے پانچ سے چھ لاکھ تک ہے، کے لیے لڑکیوں کا ایک ہائی سکول اور ایک کالج ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ چند سال پہلے تک ضلع دیر، شانگلہ اور اپر سوات کے علاقوں سے بھی یہاں لڑکیاں تعلیم کے حصول کے لیے آتی تھیں کیونکہ ان علاقوں میں بھی پرائمری کے بعد تعلیم کی سہولت موجود نہیں تھی۔

اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن عبداللہ شاہی کا کہنا ہے کہ اپر سوات کی چار تحصیلوں میں لڑکیوں کے 220 پرائمری سکول ہیں، جن سے فارع ہونے والی بچیوں کے مزید پڑھنے کے لیے صرف ایک ہائی سکول ہے جو موجودہ وقت کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ سکول کی تعمیر کی منظوری 2011 میں ہوئی تھی تاہم سکول بند ہونے کی وجہ سے منصوبے پر کام نہ ہو سکا۔ اُن کے بقول حال ہی میں سکول کی دوبارہ تعمیر کے لیے 126.90 ملین روپے کی سمری صوبائی محکمہ تعلیم کو بھیج دی گئی۔

خوازخیلہ
BBC

حدیقہ بشیر سوات میں لڑکیوں کی تعلیم اور اُن کے حقوق کے لیے قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ حال ہی میں سوات میں ایک سروے کرایا گیا، جس کے مطابق 3 لاکھ 93 ہزار بچے ایسے ہیں جو سکولوں سے باہر ہیں جبکہ چار فیصد سے زیادہ لڑکیاں میٹرک تک پہنچنے سے پہلے ہی پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی بنیادی وجوہات سکولوں میں کم سہولیات، سکولوں کا گھروں سے دور، پردے کی سخت روایات اور غربت ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ پچھلے کئی سال سے موسمیاتی تبدیلی سے بھی سوات میں خواتین کی تعلیم کافی متاثر ہوئی۔

واضح رہے کہ پچھلے سال اگست میں سیلاب سے سوات میں تعلیمی شعبے کو بھی بڑا نقصان پہنچا۔ محکمہ تعلیم کے اعدادو شمار کے مطابق اپر سوات میں سیلاب سے لڑکیوں کے 63 سکولوں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ چار سکول مکمل طور پر تباہ ہوئے، جن کے لیے ورلڈ بینک نے 180 ملین روپے جاری کیے ہیں۔

ادارے کے مطابق سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 32 جبکہ لڑکوں کی 68 فیصد ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.