شعیب اختر کرکٹ کی دنیا کا وہ نام ہے جو ایک مرتبہ بال کرواتے تو بلے باز صرف بال کو آتے اور جاتے ہی دیکھ سکتا ہے کب آؤٹ ہو جائے پتہ ہی نہیں چلتا۔ اپنی جوانی میں شعیب نے جس طرح مضبوط کرکٹ کھیلی اور اپنی باؤلنگ سے ایک نئی جان ڈالی وہ ہر کوئی بہتر طور پر جانتا ہے۔ ہر انسان کا وقت اور حالات ایک جیسے نہیں رہتے آج شعیب ایک کامیاب کرکٹر ہیں اور ان کے پاس بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دولت بھی موجود ہے لیکن ماضی میں یہ بھی ایک عام انسان تھے انہوں نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں دولت کی ریل پیل نہ تھی بلکہ خود ہی اپنی محنت سے یہ دولت کمائی۔
شعیب کے والد کیا کام کرتے تھے؟
شعیب کے والد چوکیدار تھے مگر کبھی محنت سے جی نہ چرایا اور اپنے بیٹے کو بھی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا بھرپور جذبہ دلوایا اور یہی وجہ ہے کہ شعیب نے اپنے جسم کی پھرتی اور اپنی قابلیت کو سراہا اور اپنے شوق کی خاطر کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ نہ صرف قدم رکھا بلکہ کامیابیاں بھی سمیٹیں۔
تانگے والا کا عظیم واقعہ:
سیلیکشن کے لیے لاہور کیسے گئے؟
ماضی میں اپنے دیے گئے ایک انٹرویو میں شعیب نے بتایا کہ میری جیب میں اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ میں راولپنڈی سے لاہور جا سکوں کیونکہ مجھے اس وقت پتہ چلا تھا کہ اب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے لڑکوں کی سیلیکشن ہو رہی ہے۔ لیکن میں ڈٹا رہا۔ لاہور جانے ولای بس کے کنڈکٹر کو بولا میرا نام شعیب اختر ہے اور میں پاکستان کا بڑا سٹار بننے جا رہا ہوں مجھ پر ایک احسان کرو کہ مجھے لاہور چھوڑ دو لیکن کرایہ نہ لینا مگر اس نے دھتکار دیا۔ پھر کیا ہوا؟
پیسوں کے بغیر رات کیسے گزاری اور کس جگہ ٹہرے؟
پھر جب بس چلی تو میں اسی کی رفتار سے بھاگا اور چلتی بس میں چڑھ گیا۔ لیکن اچانک کنڈکٹر آیا تو میں اتر گیا اور سارا راستہ میں نے ایسے ہی سفر طے کیا اس کے بعد جب لاہور آیا تو کنڈکٹر نے بولا ایسے میں نے شریر لڑکے بہت دیکھے لیکن تمہارے جیسا ضدی اور جنونی نہیں دیکھا۔ اب پہنچ گیا لیکن رات گزارنے اور پیٹ بھرنے کے لیے پیسے کم تھے۔ میں لاہور سٹیشن کی جانب نکل پڑا وہاں ایک تانگے کو دیکھا تو سوچا اس کی بگھی میں رات گزاروں گا۔
کھانے کا انتظام کیسے ہوا؟
اب تانگے والے کو بھی یہی کہا کہ میں سٹار بنوں گا پاکستان کا نام روشن کروں گا وہ ہنسا اور بہرحال اس نے مجھے جگہ دے دی پھر کھانے کا اس نے خود ہی احترامًا پوچھا تو میں نے منع نہیں کیا پھر ہم پراٹھوں اور چنے کا سالن کھایا اس کے بعد سیلیکشن کے لیے چلا گیا۔
کروڑ پتی بننے کے بعد کیسے تانگے والے کے ساتھ پیش آئے؟
جب میں کچھ سال بعد امتیاز تانگے والے کے پاس گیا تو اس میرے پاس گاڑی بھی تھی اور گارڈز بھی میں نے اس کو ڈھونڈا اس سے کہا آپ کی مدد کا میں کیسے صلہ ادا کروں؟ جس پر اس نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے ایک رات میری بھگی میں گزاری ہوگی؟ تو میں نے خوشی سے قبول کردیا۔ میں نے اس تانگے والے سے کہا کہ کچھ پیسے دے دوَں اپنا کاروبار کھول لو تو اس نے کہا نہیں تم بس یونہی ترقی کرو آگے بڑھو۔ لیکن جب دوسری مرتبہ اس سے ملنے گیا تو افسوس ہوا کہ اس کا انتقال ہوچکا تھا۔