تھائیرائیڈ جڑے اہم سوالات جن کے جواب خواتین کے لیے جاننا ضروری ہیں

تھائرائیڈ کو سمجھنے کے لیے ہم نے ریاست آندھرا پردیش کے گنٹور ضلع کے ایک مشہور اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر بیلم بھرنی سے بات کی۔
علامتی تصویر
Getty Images

انڈیا میں ہر 10 میں سے ایک شخص تھائرائیڈ کے مسئلے سے دوچار ہے۔ 2021 کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا میں تھائرائیڈ کے تقریباً 4.2 کروڑ مریض ہیں۔

تھائیرائیڈ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً ایک تہائی لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔

ویسے یہ بیماری خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ حمل اور پیدائش کے پہلے تین مہینوں کے دوران، تقریباً 44 فیصد خواتین کو تھائیرائیڈ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

تھائرائیڈ کو سمجھنے کے لیے ہم نے ریاست آندھرا پردیش کے گنٹور ضلع کے ایک مشہور اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر بیلم بھرنی سے بات کی۔

علامتی تصویر
Getty Images

تھائیرائیڈ کیا ہے؟

تھائرائیڈ گردن کے قریب تتلی کی شکل کا ایک غدود ہوتا ہے۔ یہ غدود ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے جو دل، دماغ اور جسم کے دیگر حصوں کو صحیح طریقے سے چلاتا ہے۔

یہ جسم کو توانائی کا استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے اور اسے گرم رکھتا ہے۔

ڈاکٹر بیلم بھرنی کا کہنا ہے کہ ’ایک طرح سے یہ غدود جسم کی بیٹری کی طرح کام کرتا ہے۔ اگر یہ غدود کم یا زیادہ ہارمونز خارج کرے تو تھائرائیڈ کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔‘

تھائیرائیڈ کی کتنی اقسام ہیں؟

جب تھائرائڈ گلینڈ جسم کے لیے مناسب ہارمونز پیدا کرنے نہیں کر پاتے تو اسے ’ہائپو تھائیرائیڈزم‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسے کھلونے کی طرح ہے جس کی بیٹری مر چکی ہے۔ ایسی حالت میں جسم پہلے کی طرح متحرک نہیں رہتا اور اس کے مریض جلد تھک جاتے ہیں۔

اس میں تھائیرائیڈ گلینڈ سے ٹرائی آئوڈین تھائروکسین یعنی ٹی 3 اور تھائروکسین یعنی ٹی 4 ہارمونز کا اخراج کم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں تھائیرائیڈ سٹریمولیٹنگ ہارمون بڑھ جاتا ہے۔

اگر یہ غدود زیادہ ہارمون پیدا کرنے لگے تو اس مسئلے کو 'ہائپر تھائیرائیڈزم' کہا جاتا ہے۔ ایسے میں مریضوں کی حالت اس شخص کی سی ہو جاتی ہے جس نے بہت زیادہ کیفین لی ہو۔

تیسری حالت تھائیرائیڈ گلینڈ کی سوجن ہے جسے گوئٹر کہتے ہیں۔ اگر یہ دوائیوں سے ٹھیک نہیں ہوتا ہے تو اسے سرجری کے ذریعے درست کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

علامتی تصویر
Getty Images

تھائیرائیڈ کی علامات کیا ہوتی ہیں؟

ہائپو تھائیرائیڈ کی علامات: وزن بڑھنا، چہرے، ٹانگوں کی سوجن، کمزوری، سُستی، بھوک کا نہ لگنا، بہت زیادہ نیند آنا، بہت زیادہ ٹھنڈ لگنا، خواتین کی صورت میں ماہواری میں تبدیلی، بالوں کا گرنا، حاملہ ہونے میں دشواری وغیرہ۔

ہائپر تھائیرائیڈ کی علامات: ڈاکٹر بیلم بھرنی کے مطابق چونکہ یہ ہارمونز کو زیادہ مقدار میں خارج کرتا ہے، اس لیے کافی کھانے اور بھوک لگنے کے بعد بھی یہ وزن میں کمی اور اسہال کا باعث بنتا ہے۔

بھرنی کہتی ہیں کہ ’اس میں بے چینی ہے، ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ اور گرمی زیادہ محسوس ہونا۔ موڈ میں تبدیلی اور نیند نہ آنا دل کی دھڑکن میں اتار چڑھاؤ آتا ہے اور بینائی کمزور ہوتی ہے۔‘

احیتیاط: کیا کریں اور نہ کریں

طرز زندگی کو بدل کر بھی تھائیرائڈ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے متوازن خوراک لینا بہت اہم ہے۔ کھانے میں پھل، سبزیاں، انڈے شامل ہونے چاہئیں۔ فاسٹ فوڈ سے پرہیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔

آئوڈین تھائیرائڈ کے لیے اہم ہے، جو ہارمونز بنانے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سیلینیم تھائیرائڈ کے اینزائمز کو متحرک کرتا ہے۔ ہم اسے چاول، مچھلی، گوشت اور سبزیوں سے حاصل کرتے ہیں۔

ڈاکٹر کھانے میں پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کو شامل کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ اس میں فائبر زیادہ ہوتا ہے، جو ہمیں اناج، سبزیوں اور پھلوں سے ملتا ہے۔

ہائپو تھائیرائڈزم میں میٹابولزم کی شرح کم ہوجاتی ہے، اسے بڑھانے کے لیے کارڈیو ورزش کرنی چاہیے، جس میں جاگنگ، دوڑنا، تیز چہل قدمی، ٹریڈ مل پر دوڑنا شامل ہیں۔

ڈاکٹرز تھائرائیڈ کے مریضوں کو گلائسیمین کھانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں پولش چاول، فائبر کم خوراک، ریفائنڈ آٹے سے پرہیز کریں۔

اچھی نیند لینے سے بھی تھائیرائیڈ کنٹرول میں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز بھی محفوظ خوراک اور پیکجڈ فوڈ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images

تھائرائڈ کا پتہ لگانے کے لئے کون سا ٹیسٹ؟

تھائیرائیڈ گلینڈ دو بڑے ہارمونز پیدا کرتا ہے، جن میں ٹرائی آئوڈین تھائیروکسین یعنی ٹی 3 اور تھائیروکسین یعنی ٹی 4 اور ٹی ایچ ایس یعنی تھائیرائیڈ کو متحرک کرنے والے ہارمون شامل ہیں۔

یہ معلوم کرنے کے لیے کہ غدود ٹھیک سے کام کر رہا ہے یا نہیں، تھائیرائیڈ پروفائل ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے خون میں ٹی 3، ٹی4 اور ٹی ایچ ایس جیسے ہارمونز کی سطح کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

زیادہ تر معاملات میں T4 اور TSS ٹیسٹ ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔ تھائرائیڈ پروفائل ٹیسٹ کی قیمت تقریباً 200 روپے ہے۔

حمل کے دوران تھائیرائیڈ

حمل کے دوران خواتین کو اکثر ذیلی کلینیکل ہائپوتھائیرائڈزم ہوتا ہے۔

اس حالت میں تھائرائیڈ کی علامات نظر نہیں آتیں لیکن حمل کے دوران ٹی ایچ ایس کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو اسقاط حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے لیے ڈاکٹر ہر چھ ہفتے بعد ٹی ایچ ایس لیول چیک کروانے کو کہتے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images

کیا یہ مسئلہ جان لیوا ہے؟

اگر وقت پر ہائپو تھائیرائیڈزم کو نہ پہچانا جائے تو بعض اوقات ذہنی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب ہائپر تھائیرائیڈزم کی وجہ سے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔

ہائپو تھائیرائیڈزم کی صورت میں مریض سوڈیم کی سطح میں کمی کی وجہ سے کوما میں جا سکتا ہے۔ اگر بچوں کی پیدائش کے بعد اس مسئلے کو نہ پہچانا جائے تو ان کی ذہنی نشوونما رک سکتی ہے۔بچے کا آئی کیو لیول کم ہو سکتا ہے۔

چونکہ یہ مسئلہ علاج سے آسانی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس بیماری کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ ورنہ بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ جب سکول جانے والے بچوں میں ایسا ہوتا ہے تو ان کی نشوونما رک سکتی ہے۔

اگر تھائیرائیڈ کے ان دونوں مسائل کو وقت پر نہ پہچانا جائے تو بعض اوقات یہ جان لیوا بھی بن سکتے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images

تھائرائیڈ اڈ کینسر کیا ہے؟

ای این ٹی سپیشلسٹ ڈاکٹر اپرنا مہاجن کے مطابق 100 میں سے 4 خواتین کو تھائرائیڈ کینسر ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کینسر کو تھائرائیڈ گلینڈ میں کچھ خلیوں کی ضرورت سے زیادہ نشوونما کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر بروقت پتہ چل جائے تو اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

تھائیرائیڈ کینسر کی علامات میں گلے میں گانٹھ، سانس لینے میں دشواری اور نگلنے میں دشواری شامل ہو سکتی ہے۔

ایسی علامات میں ڈاکٹر ناک، کان، گلے کے ماہر سے ملنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ڈاکٹر اپرنا کے مطابق یہ کینسر مختلف عمر کے گروپوں میں ہو سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.