زمین پر آنے والی اڑن طشتریوں کے بارے میں ناسا اب ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے؟

سنہ 2021 میں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2004 سے اب تک فوجی پائلٹس نے 144 ایسے نظارے دیکھے، جن میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب کی وضاحت نہیں ہو سکی۔
ناسا
Getty Images

محققین کے ایک پینل کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کئی دہائیوں کے دوران جمع کی جانے والی نامعلوم اڑنے والی اشیا کی تقریباً 800 پراسرار رپورٹس کا جائزہ لیا ہے۔

ناسا نے گذشتہ سال اس پینل کا قیام عمل میں لایا تھا جس کا مقصد نامعلوم غیر معمولی مظاہر (یو اے پی) کے حوالے سے اپنے کام کی وضاحت کرنا تھا۔

یو اے پی کی تعریف ایسے نظاروں کے طور پر کی جاتی ہے ’جنھیں سائنسی نقطہ نظر سے ہوائی جہاز یا معلوم قدرتی مظاہر کے طور پر شناخت نہیں کیا جا سکتا۔‘

پینل نے بدھ کے روز اپنا پہلا عوامی اجلاس منعقد کیا۔

بہت سے نظاروں کی وضاحت کی جا سکتی ہے لیکن کئی اب تک ایک معمہ

امریکی محکمہ دفاع کے آل ڈومین اینوملی ریزولوشن آفس (اے اے آر او) کے ڈائریکٹر شان کرک پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ہر ماہ 50 سے 100 نئی رپورٹس آتی ہیں‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان مناظر کی تعداد جو ممکنہ طور پر غیر معمولی ہیں وہ کل ڈیٹا بیس کا 2 سے 5 فیصد ہیں۔

ایک موقع پر مغربی امریکہ کے اوپر سے بحریہ کے ایک طیارے کی جانب سے لی گئی ایک ویڈیو دکھائی گئی جسمیں رات کے وقت آسمان پر نقطوں کا ایک سلسلہ گھومتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

فوجی طیارہ اس چیز کو روکنے میں ناکام رہا، جو ایک تجارتی طیارہ تھا اور بڑے ہوائی اڈے کی طرف جا رہا تھا۔

سنہ 2021 میں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2004 سے اب تک فوجی پائلٹس نے144 ایسے نظارے دیکھے، جن میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب کی وضاحت نہیں ہو سکی۔

حکام نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ یہ اشیا غیر زمینی ہیں۔

رازداری ناسا کی تحقیقات کو محدود کرتی ہے

کرک پیٹرک نے یہ بھی پایا کہ رازداری سے متعلق خدشات ایجنسی کی تحقیقات کو محدود کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم جب چاہیں پوری دنیا میں سب سے بڑے جمع کرنے والے آلات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ ‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس جو کچھ ہے اس میں سے بہت کچھ براعظم امریکہ کے ارد گرد ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ جب ہم آپ کے گھر کے پچھلے حصے میں آلات کے پورے مجموعے کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘

مائیکرو ویو اور بصری وہم

یو اے پی سے متعلق اعداد و شمار کی تشریح کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے اور آسانی سے غلط ہو سکتا ہے۔

ناسا کی یو اے پی ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ سپرگل نے آسٹریلیا میں محققین کو ملنے والی ریڈیو لہروں کا ذکر کیا۔

’وہ واقعی عجیب ساخت رکھتے تھے۔ لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے غور کیا کہ دوپہر کے کھانے کے وقت یہ ایک ساتھ جمع ہونا شروع کر دیتے ہیں۔‘

یہ معلوم ہوا کہ محققین جوحساس آلات استمعال کرتے ہیں وہ مائیکرو ویو سے سگنل اٹھا رہے تھے جو ان کے دوپہر کے کھانے کو گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے سابق خلاباز اور پائلٹ سکاٹ کیلی نے ایک بصری وہم کے بارے میں ایک کہانی سنائی۔ وہ اور ان کے ساتھی پائلٹ ورجینیا بیچ کے قریب پرواز کر رہے تھے اور ان کے ساتھی کو ’یقین تھا کہ ہم ایک یو ایف او کے قریب سے گزرے ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا، ہم پیچھے مڑ گئے، ہم اسے دیکھنے گئے، پتا چلا کہ یہ بارٹ سمپسن تھا، ایک غبارہ۔‘

اڑن طشتری
Getty Images

بدنامی اور ہراسانی تحقیق میں رکاوٹ

سپرگل کا کہنا تھا کہ کمرشل پائلٹس پرواز کرنے والی طشتریوں کے حوالے سے شرمندگی کی وجہ سے اس کے دکھائی دینے کی اطلاع دینے سے بہت ہچکچاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارا ایک مقصد احساس شرمندگی کو دور کرنا ہے کیونکہ یو اے پیز کے بارے میں اہم سوالات کو حل کرنے کے لیے اعلی معیار کے اعداد و شمار کی ضرورت ہے اور کچھ سائنسدانوں کو اس علاقے میں اپنے کام کی وجہ سے آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

ناسا کی سائنس کی سربراہ نکولا فاکس کا کہنا ہے کہ ’ہراسانی صرف یو اے پی کے شعبے کو مزید بدنام کرنے کا باعث بنتی ہے، جس سے سائنسی عمل میں نمایاں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور دوسروں کے اس اہم موضوع کا مطالعہ کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔‘

شفافیت کا نیا دور

بدھ کو ہونے والی اس میٹنگ کی ایک وجہ ناسا کا نقطہ نظر تبدیل کرنا بھی ہے۔ خلائی ایجنسی نے کئی دہائیوں تک یو ایف او دیکھنے کی تردید کی۔

اس کے اختتام پر پینل نے عوام کے سوالات کا جواب دیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ ناسا کیا چھپا رہا ہے؟

ناسا کے ڈین ایونز نے جواب دیا کہ ادارہ شفافیت کے لیے پرعزم ہے اور ’یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں ٹی وی پر لائیو ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.