عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی ۔۔ کیا الطاف حسین جیسا انجام ہوگا؟

image

الطاف حسین نے 11 جون 1978ء کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم بہت مقبول ہو گئی ، الطاف حسین مہاجر نوجوانوں کی آواز بن گئے۔ الطاف حسین کو 1979ء میں گرفتار کر لیا گیا۔

الطاف حسین 9 ماہ قید میں رہنے کے بعد رہا ہوئے۔ اس دوران ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ الطاف حسین کو محبور کریں کہ وہ معافی نامہ لکھ کر دیں لیکن ان کی والدہ نے انکار کر دیا۔

عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف قائم کر کے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انہیں کامیابی نہ مل سکی لیکن2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے شاندار کامیابی حاصل کی اور عمران خان نے ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔

آج عمران خان جس مشکل وقت سے گزر رہے ہیں وہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں لیکن ماضی میں ایک اور لیڈر بھی ایسی ہی شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد آج گمنامی کے اندھیروں میں کھوچکے ہیں۔

17 ستمبر 1953کو کراچی کے عام متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے الطاف حسین ہمیشہ سے ہی ملک و قوم کیلئے درد رکھنے والے انسان تھے۔ الطاف حسین نے لازمی فوجی خدمات کے دوران پاک فوج سے بطور کیڈٹ تربیت بھی حاصل کی۔

الطاف حسین نے زمانہ طالب علمی میں عملی سیاست کا آغاز کیا اور 1978 کو اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی مقبول ہوگئی اور 6 سال بعد 1984 کو ایم کیوایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کا اعلان کیا۔

1984 کو قیام کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے مایوس عوام نے ایم کیوایم کو ہاتھوں ہاتھ لیا، سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے علاوہ پورے ملک میں الطاف حسین کو شہرت ملی۔

الطاف حسین مظلوموں کے ساتھی اور جاگیرداروں اور وڈیروں کیخلاف مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ کراچی ودیگر کئی شہروں میں الطاف حسین کے نام سے لوگ بغیر امید وار کو دیکھے ووٹ دیتے تھے۔

الطاف حسین نے کئی مرتبہ اپنی تقاریر میں براہ راست پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم 2015 میں سیکورٹی اداروں کو دھمکیاں دینے اور غیر ملکی قوتوں سے مدد مانگنے پر الطاف حسین پر پابندی عائد کردی گئی اور یوں ایم کیوایم کا باب بند ہوگیا۔

یہ درست ہے کہ ایم کیوایم کراچی و دیگر کچھ شہروں تک محدود ہونے کی وجہ سے کبھی اقتدار میں نہیں پہنچ سکی لیکن کراچی کی سیٹوں پر ہمیشہ برتری حاصل رہی اور 2013 کے انتخابات میں ایم کیوایم نے 24 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو الطاف حسین پر پابندی کے بعد 2018 میں 6 سیٹوں تک رہ گئی۔

1992کے ورلڈکپ کی فاتح قومی ٹیم کے کپتان عمران خان نے ورلڈکپ کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔کرکٹ کیریئر کے دوران میں عمران خان کو کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش کی گئی۔ 1987ء میں صدرپاکستان محمد ضیاء الحق نے انہیں مسلم لیگ میں سیاسی عہدے کی پیش کش کی جسے انہوں نے انکار کر دیا۔

ضیاء الحق کے ساتھ عمران خان کے اچھے تعلقات تھے، انہوں نے کرکٹ چھوڑ دی تھی لیکن جنرل ضیاء ان کو دوبارہ کرکٹ میں واپس لے کر آئے 1992ء کا ورلڈ کپ بھی جنرل ضیاءکے کہنے پر کھیلا۔نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا تھا۔

1994ء کے آخر میں انہوں نے حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان نامی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور اسی سے سیاست میں باقاعدہ شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی۔

عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان تحریک انصاف قائم کر کے سیاسی میدان میں بھرپور طریقے سے قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انہیں کامیابی نہ مل سکی لیکن اس وقت وہ پاکستان کے عوام میں مقبول ترین لیڈر ہیں۔

عمران خان کی جماعت نے قومی اسمبلی کی 116 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پہلی بار حکومت بنائی۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے ہٹادیا گیا جس کے بعد ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد 6 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں ایک ساتھ کامیابی حاصل کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا ۔سیاسی حلقے اس بات پر متفق تھے کہ ملک میں ہونیوالے آئندہ عام انتخابات میں عمران خان ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کرینگے لیکن سانحہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی پر برا وقت آچکا ہے۔

ہم نے اپنی ایک پچھلی ویڈیو میں بھی عمران خان کی مقبولیت کی وجہ بتائی تھی اور اب دوبارہ آپ کو بتاتے ہیں لیکن اس سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ سانحہ نو مئی کےبعد تیزی سے لوگوں کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے حوالے سے عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ آج الیکشن کروالیں۔۔ میں جس کو ٹکٹ دونگا وہی کامیاب ہوگا۔

اب آپ کو ان دعوؤں کی وجہ بتاتے ہیں۔ الطاف حسین نے جب ایم کیوایم کی بنیاد رکھی ۔ اس وقت عوام دوجماعتوں کے درمیان نوراکشتی سے تنگ آچکے تھے اور جس وقت عمران خان سیاسی منظر نامے پر ابھرے اس وقت قومی سطح پر ایک نئی جماعت کی بہت ضرورت تھی۔۔لیکن یہاں عمران خان کی شخصیت نے بھی لوگوں کو ایک نئی آپشن کی طرف مائل کیا کیونکہ دیگر آزمودہ جماعتوں سے بیرار عوام کو نئی امید ملی تھی۔

عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو اپنا سیاسی جان نشین مقرر کیا ہے لیکن اگر عمران خان الطاف حسین کی طرح بطور قائد پیچھے بیٹھ کر قیادت کرتے رہیں تب تو شائد کامیابی ممکن ہے تاہم جیسے چند سال پہلے الطاف حسین پر پابندی کے بعد ایم کیوایم کا ووٹ بینک تباہ ہوگیا۔ اسی طرح اگر عمران خان منظر سے ہٹتے ہیں تو شائد پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کھودے گی۔۔کیونکہ عوام بار بار کے آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے مقابلے میں آج بھی عمران خان کی ذات پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.