انڈیا: وہ گھریلو خواتین جو شوہروں کی عدم موجودگی پر خاندان کی سربراہ بن گئیں

انڈین دیہاتوں اور قصبوں میں مردوں کے تلاشِ روزگار کے لیے پردیس جانے سے گھر میں عورتوں نے خاندان کے سربراہ کا کردار سنبھال لیا ہے اور یہ عورتوں کے لیے ایک بڑا موقع ہے۔

انڈیا کی ایک پسماندہ ریاست بہار میں اپنے ایک معمولی قسم کے گھر میں بیٹھی ہوئی اوشا دیوی کہتی ہے کہ ’ہر شخص مجھے میرے نام سے جانتا ہے۔‘

38 سالہ اوشا نے کہا کہ ’شناخت کوئی چھوٹی چیز نہیں ہوتی ہے۔ پہلے صرف ہمیں اپنے مردوں کے ناموں سے جانا جاتا تھا، اب خواتین کو بھی ان کے اپنے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔‘

اوشا دیوی کو 15 سال کی عمر میں سکول چھوڑ کر شادی کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ خاندان کی جانب سے بیٹا پیدا کرنے کے دباؤ کی کوشش میں وہ بار بار حاملہ ہونے پر مجبور ہوئی، ان کا اپنی زندگی میں کسی بھی چیز پر کنٹرول بہت کم تھا۔

جب اس کے شوہر کو کام کی تلاش میں گاؤں سے ہجرت کرنا پڑی تو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں نے اپنے گھر اور اپنے بچوں کی زندگی کی ذمہ داری سنبھالنے کا تہیہ کیا۔ وہ اپنے سسرال کے گھر سے نکل کر اسی گاؤں میں الگ گھر میں چلی گئی۔ وہ اب پیسہ کماتی ہے اور خاندان کے تمام فیصلے خود کرتی ہے اور اب وہ اپنے گھر کی سربراہ سمجھی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین کی سربراہی کرنے والے گھرانوں کی کوئی باقاعدہ تعریف نہیں ہے، لیکن انہیں اکثر ایسے گھروں سے تعبیر کیا جاتا ہے جہاں یا تو کوئی بالغ مرد موجود نہیں ہوتا یا جہاں مردوں کا اس گھر کی آمدن میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔

ماہرین اقتصادیات اور ماہرینِ آبادیات گھر کے سربراہ کی اصطلاح کو کسی ایسے شخص کے لیے سمجھتے ہیں جو خاندان کا کفیل ہوتا اور خاندان میں فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ شادی شدہ خواتین کے معاملے میں جب شوہر ہجرت کرتے ہیں اور چھ ماہ یا اس سے زیادہ گھر میں نہیں رہتے ہیں تو خواتین کو گھر کی سربراہ کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ عورتوں کی یہ حیثیت اکثر خود ساختہ ہوتی ہے۔

یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انڈیا کے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں کئی جگہ نظر آتی ہے جہاں مرد معاشی پریشانیوں یا تنگ دستی کی وجہ سے کام تلاش کرنے کے لیے ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں اور اس طرح اُن کے گھروں کی عورتوں کے لیے خاندان کی ذمہ داری سنبھالنے کا ایک موقع بنتا ہے۔

ماہرِ سماجیات اور ماہرینِ آبادیات (سوشیالوجسٹ اور ڈیموگرافر) پروفیسر سونلدے ڈیسائی کا کہنا ہے کہ اس موقع کا انحصار بیوی کی اپنی صلاحیت پر ہوتا ہے جب وہ اپنے شوہر کے خاندانی گھر سے باہر جانے نکل کر الگ اپنی حثحت بناتی ہے، کوینکہ اگر وہ اپنے شوہفر کے گھر میں اپنے سسر اور دیور و جیٹھ جیسے دوسرے مرد ارکان کے ساتھ رہے گی تو وہ انھی پر انحصار لکرے گی۔

پروفیسر ڈیسائی کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورتوں میں جہاں ایک عورت خود سے ایک آزاد گھرانہ قائم کرنے کے قابل ہوتی ہے، ہم اس کی فیصلے کرنے کی صلاحیت، کچھ مالی ذمہ داریوں، یہاں تک کہ کھیتی باڑی کو سنبھالنے اور چلانے کے اس کے امکانات میں حقیقی تبدیلی دیکھتے ہیں۔‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران خواتین کی سربراہی میں گھرانوں کا تناسب تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔ پدرانہ خاندان (پیٹری یارکل فیمیلی) کے نظام میں اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ انڈیا کی اندرونی ہجرت ہے جس نے یہ رجحان پیدا کیا ہے۔

سنہ 2011 میں انڈیا کی آخری مردم شماری میں 45 کروڑ افراد کو داخلی تارکین کے طور پر شمار کیا گیا تھا۔ یہ گزشتہ دہائی کے لحاظ سے 45 فیصد اضافہ تھا، جو کہ اسی عرصے میں آبادی میں اضافے کی شرح (18 فیصد) سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

کووِڈ-19 (CoVID-19) کی وجہ سے غربت اور روزگار کے کم ہوتے ہوئے مواقع کے پس منظر میں پروفیسر ڈیسائی نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ رجحان بڑھے گا۔

خود مختار اور پراعتماد اوشا دیوی اب اپنے گاؤں کی خواتین میں اب ایک لیڈر ہیں۔ ایک ’اپنی مدد آپ گروپ‘ کی سربراہ کے طور پر اس کے کام میں عورتوں کو ایک سرکاری سکیم میں شامل کرنا شامل ہے جو غریب خواتین کو آسان قرضے فراہم کرتی ہے۔

یہ گروپ ہر ہفتے اپنے اجلاس منعقد کرتا ہے، یہ ایک نچلی سطح کی ایک تنظیم کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں ہر رُکن 10 روپے ےکا چھوٹا سا چندہ جمع کرتا ہے، جسے جمع کرنے کے بعد بینکوں سے قرضے حاصل کرنے کے لیے ایک ڈپازٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ تنظیم مختلف مالیاتی فیصلے کرتی ہے جیسے کہ ہنگامی حالات کے لیے اس تنظیم سے تھوڑی بہت رقم بطور قرض نکالنا وغیرہ۔

جس میٹنگ میں میں نے شرکت کی، اس میں اختلافی بحثیں اور ہنسی مذاق ایک ہی انداز میں برابر سے ہو رہی تھیں۔ یہ ایک غیر رسمی سپورٹ نیٹ ورک کا رشتہ تھا جو ان عورتوں کے اپنے لوگوں اور خاندانوں سے آزاد تھا۔

مُنّی دیوی کہتی ہیں کہ ’اب ہم سب ایک دوسرے کو ذاتی طور پرف جانتے ہیں۔ اور زیادہ پڑھے لکھے ممبروں کی مدد سے میں نے اپنا نام لکھنا اور مالی لین دین کا نظام چلانا سیکھ لیا ہے‘۔

شوبھا دیوی ان زیادہ پڑھے لکھے گروپ ممبروں میں سے ایک ہیں۔ اس کی کمسنی میں شادی ہو گئی تھی تاہم اس نے بعد میں اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اکثر اوشا کی غیر موجودگی میں ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ ’میرا شوہر جو پیسے بھیجتا ہے وہ اکثر پورے نہیں پڑتے ہیں اس لیے ہم اچھے اور برے دنوں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘

’چونکہ میں پیسے کا انتظام کرنا جانتی ہوں، اس لیے اب مالیاتی فیصلوں میں میرا کردار زیادہ ہو گیا ہے۔‘

شوبھا دیوی خواتین کے اس گروپ حصہ ہیں جو اپنے شوہروں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔

انڈین ہیومن ڈیولپمنٹ سروے کے مطابق سنہ 1980 کی دہائی میں شادی کرنے والے جوڑوں میں سے صرف 5 فیصد خواتین اپنے شوہروں سے زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ تناسب سنہ 2000 اور سنہ 2010 کی دہائیوں میں بڑھ کر 20 فیصد تک پہنچ گیا۔پروفیسر ڈیسائی بتاتے ہیں کہ ’اگر ہم سربراہ (خاندان کے سربراہ) کو نہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ کمانے والا ہے بلکہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، تو میرا خیال ہے کہ سماج میں طاقت کا توازن اب ان زیادہ تعلیم یافتہ خواتین کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

جب اوشا دیوی نے 11 سال پہلے کمانا شروع کیا تھا تو اس نے آمدنی اپنی پڑھائی میں صرف کی اور کالج کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 2012 میں اس نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، گھر گھر جا کر ماؤں اور شیر خوار بچوں کی صحت کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔

اس نے 2016 میں ’اپنی مدد آپ گروپ‘ (سیلف ہیلپ گروپ) چلانا شروع کیا، اُس کے شوہر رنجیت نے اس کے فیصلے کی حمایت کی جس نے 10 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے صرف اس وقت احساس ہوا کہ یہ غلطی تھی جب اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی کتنی ’سمجھدار‘ ہے۔

وہ کہتا ہے کہ ’اگر میری بیوی نے خود تعلیم حاصال نہ کی ہوتی تو میرے بچے بھی میری طرح کے بنتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بہتر مستقبل بنانے کا موقع مل سکتا ہے۔‘

روایتی صنفی کرداروں میں ڈوبے ہوئے ملک میں پرورش پانے والے شخص کی طرف سے یہ ایک بہت ہی نادر اعتراف ہے۔ کچھ لحاظ سے مردوں کی ہجرت اس کو ناگزیر بنا دیتی ہے کہ مرد اپنے خاندان پر کنٹرول کھو دیں اور اپنی بیویوں پر زیادہ انحصار کریں۔

رنجیت نے اپنے گاؤں میں کام تلاش کرنے کے لیے کافی تگ و دوکی تھی جہاں ہنر مند ملازمتیں کم تھیں اور کوئی بھی ایسی نہیں تھی جس کا وہ اہل تھا۔ اس لیے وہ خوش ہے کہ وہ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں رسیاں بنانے والی فیکٹری میں کام کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتا ہے۔

گھر میں ان کی بڑھتی ہوئی خود مختاری کے باوجود اوشا دیوی، شوبھا دیوی اور دوسری خواتین جن کے ساتھ میں نے بات کی وہ اب بھی اپنے آپ کو اپنے شوہروں کی نائب کے طور پر دیکھتی تھیں۔

اوشا دیوی کہتی ہے کہ ’میں عظیم نہیں ہوں، یہ تو میرا مرد ہے۔ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا تو میں کبھی آگے نہ بڑھ پاتی۔‘

لیکن ان کی بیٹی رشمی سمیت کئی نوجوان خواتین کے لیے وہ رول ماڈل بن چکی ہے۔ ’میں نے اپنی ماں کو بدلتے دیکھا اور سوچا کہ میں بھی ان جیسی بن سکتی ہوں۔‘ رشمی اپنے گھر کی آمدنی کو پورا کرنے کے لیے ٹیوشن کلاسز لیتی ہے اور اس کا خواب ہے کہ وہ تربیت لے کر ایک خاتوں پولیس اہلکار بنے۔

خاتوں پولیس بننا صرف نوکری لینے کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ماں کی طرح لوگوں کے لیے ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔

رشمی کہتی ہے کہ ’گاؤں والوں کو یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ صرف لڑکے ہی گھر چلا سکتے ہیں۔ لڑکیاں بھی یہ کام کر سکتی ہیں، بشرطیکہ ان کی اس طرح پرورش کی جائے اور انہیں مزید آزادی دی جائے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.