پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر دباؤ اور فیک نیوز: ’ہم سے ایک فرمائش کی گئی کہ آپ نے عمران خان کا نام نہیں لینا‘

سوشل میڈیا کو ’فیک نیوز‘ جیسے مسئلے کا سامنا کافی عرصے سے ہے۔ کئی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے صحافی جن کا کام ہی ہر خبر کو تصدیق کرنے کے بعد شائع کرنا ہے، وہ بعض اوقات ایسی چیزیں شیئر کرتے ہیں جو تصدیق کرنے پر درست ثابت نہیں ہوتیں۔
Paper
Getty Images

پاکستان میں نو مئی کے پرتشدد مظاہروں کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا جس میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت کے کئی رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کیا جانے لگا۔

پی ٹی آئی کی لگ بھگ تمام تر پہلے درجے کی قیادت کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ آنے والے دنوں میں ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ گرفتار رہنماؤں میں سے جس کو بھی عدالتی حکم پر رہا کیا گیا اس کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

پھر ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ چند روز اسی ’رہائی اور گرفتاری‘ کے سلسلے کے بعد پی ٹی آئی کے سابق رہنما جیل سے رہا ہونے لگے اور ہر رہائی پانے والا رہنما ایک پریس کانفرنس کرتا یا کرتی اور پھر وہ پاکستان تحریکِ انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کر دیتے۔

اس تمام صورتحال میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم عمران خان نے یہ واضح موقف اپنایا کہ ان کی جماعت کو ’خاص طور پر 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اور ساتھ ہی انھوں نے ایک بیانہ بھی اپنایا۔

عمران خان اور ان کی جماعت نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں فوجی املاک اور رہائش گاہوں پر ہونے والے مظاہروں میں ’تحریک انصاف کے کارکنان ملوث نہیں تھے۔‘ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جان بوجھ کر یہ پرتشدد مظاہرے کروائے ’جن میں ان کے اپنے لوگ ملوث تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مقصد پی ٹی آئی کو فریم کرنا تھا۔‘ سابق وزیرِاعظم عمران خان خاص طور پر سوشل میڈیا پر کافی سرگرم نظر آئے۔

اپنے مؤقف کی تائید میں وہ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز شائع کرتے رہے جن کا مقصد یہ دکھانا ہوتا تھا کہ انتظامیہ کس طرح ان کے کارکنان اور رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

تاہم ان کے سوشل میڈیا ہینڈلز سے بعض ایسی تصاویر اور ویڈیوز شائع ہوئیں جو بعد میں تصدیق کرنے پر ’فیک‘ ثابت ہوئیں۔ یعنی ان کا تعلق یا تو حالیہ واقعات سے تھا ہی نہیں، یا وہ بہت پرانی تھیں یا وہ پاکستان کی تھیں ہی نہیں۔

مثال کے طور پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے انھوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کس طرح پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کو جیلوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم اس ویڈیو کے درست ہونے کی تصدیق نہیں ہو پائی۔

انھوں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی کہ انتظامیہ کے افراد ان کے کارکنان کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کہا جا رہا تھا کہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی ایک بس کو توڑا جا رہا ہے۔

یہ ویڈیو بھی فیک ثابت ہوئی۔ اسی طرح ٹرکوں کو آگ لگی دکھائی گئی اور کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے کارکن کے ٹرکوں کو آگ لگائی گئی ہے، وہ تصویر بھی پرانی ثابت ہوئی۔

صرف عمران خان یا پی ٹی آئی ہی نہیں، کئی ایسے صحافی بھی فیک ویڈیوز، تصاویر یا معلومات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے پائے گئے۔

اس کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ 9 مئی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی منظر نامے میں پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کے بیانے اور مؤقف کو پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ پر بہت کم جگہ اور وقت مل رہا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سکڑ رہا ہے۔

اس کے لیے پی ٹی آئی اور عمران خان اور ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا جہاں پر معلومات کو تصدیق کے بعد شائع کرنے کے رجحان کا فقدان نظر آتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=7v5uMYFJ7Xc

سیاسی جماعتیں اور صحافی سوشل میڈیا کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

اس کی بنیادی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ان دنوں زیادہ تر لوگ خبروں اور معلومات کے لیے روایتی ذرائع ابلاغ سے زیادہ سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں اس کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔

حسنین رضا، محمد رفیق قریشی، محمد عمار علی اور فہد ظفر پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ خبروں کے لیے زیادہ تر سوشل میڈیا ہی دیکھتے ہیں۔

حسنین رضا کا کہنا تھا کہ ’میں دکان پہ کام کرتا ہوں اس لیے دن کا زیادہ حصہ گھر سے باہر ہوتا ہوں تو ٹی وی دیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس لیے زیادہ تر خبریں فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پہ دیکھتا ہوں۔‘

محمد عمار علی بھی فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جہاں محمد رفیق قریشی یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود 75 فیصد مواد درست ہوتا ہے وہیں باقی تمام تینوں صارفین نے بی بی سی کو بتایا وہ سوشل میڈیا پر موجود خبروں پر زیادہ یقین نہیں کرتے۔

محمد عمران کہتے ہیں کہ ’میں تمام دن سوشل میڈیا پر خبریں دیکھتا ضرور ہوں لیکن میں ان پر یقین نہیں کرتا اور ان خبروں کی تصدیق کے لیے میں شام کو آ کر ٹی وی دیکھتا ہوں۔ ٹی وی پر جو خبریں آتی ہیں وہ زیادہ تر درست ہوتی ہیں۔‘

کیا عمران خان کے مؤقف کو ذرائع ابلاغ میں ان دیکھی پابندی کا سامنا ہے؟

IK
Getty Images

عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے 9 مئی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ ان کا مؤقف زیادہ تر مقامی ٹی وی چینلز پر نظر نہیں آ رہا۔

بظاہر انتظامیہ کی طرف سے مقامی ٹی وی چینلز کو باضابطہ طور پر کوئی ایسی ہدایات نہیں دی گئی ہیں کہ عمران خان یا ان کی جماعت کی خبر نشر کرنے پر پابندی ہو گی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی خفیہ ہدایات موجود ہیں۔

مختلف ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے رپورٹرز اور بیورو چیفس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آن ریکارڈ اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔ تاہم وہ اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے ان پر دباؤ ہوتا ہے۔

تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والی نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی جمہوری نظام میں کسی سیاستدان کی آواز کو دبانا خوش آئند نہیں ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘

ان کے خیال میں اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی پاکستان میں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں خود ہیں۔ ’ہم نے دیکھا کہ جب سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت تھی تو اس میں ن لیگ کی آواز کو دبایا گیا۔ اب اگر عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے تو اس میں زیادہ تر قصور سیاستدانوں ہی کا ہے۔‘

تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے ملک میں جمہوری نظام کا فائدہ نہیں ہو رہا۔

صحافی خود سوشلمیڈیا پر تصدیق کے عمل کو کیوں نہیں اپناتے؟

سوشل میڈیا کو ’فیک نیوز‘ جیسے مسئلے کا سامنا کافی عرصے سے ہے۔ کئی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے صحافی جن کا کام ہی ہر خبر کو تصدیق کرنے کے بعد شائع کرنا ہے، وہ بعض اوقات ایسی چیزیں شیئر کرتے ہیں جو تصدیق کرنے پر درست ثابت نہیں ہوتیں۔

پشاور سے آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی یہ مانتی ہیں کہ کئی صحافی اس غلطی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خود بھی ایک مرتبہ اس کا شکار ہوئیں جب ’میں نے کوئی چیز شیئر کر دی لیکن جب مزید معلومات اس کے بارے میں آئیں تو پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا، تو میں نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی۔‘

فرزانہ علی کہتی ہیں کہ ان سے غیر ارادی طور پر نادانستہ ایسی غلطی ہوئی جس کے بعد انھوں نے یہ معمول بنا لیا کہ وہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی معلومات شیئر کرنے سے پہلے کئی ذرائع سے اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

صحافی اور اینکرپرسن جمیل فاروقی کو کچھ عرصہ قبل گرفتاری اور جیل کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی وجہ مبینہ طور پر یہ بنی کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے ایک رہنما شہباز گل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ خبر شائع کی کہ انھیں پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی جمیل فاروقی کہتے ہیں کہ ان کے خلاف ’ایف آئی آر اور گرفتاری کے محرکات کچھ اور تھے۔‘ وہ کہتے ہیں ان کی خبر کی بعد میں تصدیق بھی ہوئی اور ان سے پہلے بھی چند صحافی وہی خبر دے چکے تھے۔

جمیل فاروقی کا کہنا ہے کہ ’کوئی صحافی دانستاً نہیں چاہتا کہ وہ غلط خبر دے جس سے اس کے کریئر پر داغ لگے۔۔۔اور اگر وہ کسی خبر کو آگے شیئر کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اس کی تائید کر رہا ہے۔ اس نے اپنے ٹوئٹر پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ ری ٹویٹ اینڈورسمنٹ نہیں ہے۔‘

کیا سوشل میڈیا پر فیک نیوز کو روکنا ممکن ہے؟

fake news
Getty Images

صحافی اور اینکرپرسن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو زیادہ تر صحافی دانستہ طور پر فیک نیوز کو شائع نہیں کرتے یا آگے نہیں پھیلاتے۔ ’ایسا ہو جاتا ہے کہ غیر دانستہ کسی صحافی سے ایسی کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔‘

تاہم ان کا خیال ہے کہ بعض اوقات چند صحافی ایسی مہمات کا حصہ بن جاتے ہیں جو کسی کی طرف سے کسی خاص مقصد کے لیے چلائی جاتی ہیں۔ ’ایسے لوگ پروپیگینڈا کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن پھر ایسے لوگوں کو صحافی کہنا درست ہو گا یا نہیں اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔‘

صحافی شاہ زیب جیلانی ان دنوں ایک مقامی نجی ٹی وی ڈان نیوز پر ایک پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ کا حصہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویسے تو سوشل میڈیا کے فوائد جو دیکھنے میں آئے ہیں ان میں ایک فائدہ یہ ہے جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں اور وہ سینسرشپ لگانے کی کوشش کرتی ہیں تو ایسے میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کا یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔

’لیکن ساتھ ہی ہم نے دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا کس طرح انتخابات پر اثرانداز ہوتا ہے، جمہوری نظام کو کمزور کرتا ہے۔ امریکہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب اور برطانیہ میں بریگزٹ اس کی مثالیں ہیں۔‘

صحافی شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں کہ یوں تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے فیکٹ چیک کا نظام بنا رکھا ہے لیکن یہ نظام کتنا مؤثر ثابت ہو رہا ہے، اس پر سوالیہ نشان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی فیس بک کی کمپنی میٹا نے فیکٹ چیک کا ایک نظام بنا رکھا ہے لیکن کیا اس کے لیے تمام مواد کو فیکٹ چیک کرنا عملی طور پر ممکن ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سچ کے مقابلے میں جھوٹ جیت رہا ہے۔ ’وہ کہتے ہیں کہ جب تک جھوٹ دنیا کے تین چکر لگا چکا ہوتا ہے، سچ تسمے باندھ رہا ہوتا ہے۔‘

سینسرشپ
BBC

کیا عمران خان کے حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر دباؤ ہے؟

شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں عمران خان جب خود حکومت میں تھے تو اس وقت پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔

’ٹی وی چینلز کو بند کیا جاتا تھا، بہت سے ٹی وی چینلز کو یہ ہدایات دی جاتی تھیں کہ فلاں اینکر کو رکھیں، فلاں کو فارغ کر دیں، پروگرام میں فلاں بات کریں، فلاں معاملے پر بحث کریں اور فلاں فلاں ماہرین کو پروگرام میں لیں۔ اس حد تک مائیکرو مینیجمنٹ کی جاتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ’گھٹن کے اس ماحول‘ میں کافی بہتری آئی۔ ’میں خود گزشتہ سات ماہ سے ایک مقامی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کا حصہ ہوں۔ اس عرصے میں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی زیادہ دخل اندازی کی گئی ہو۔‘

تاہم شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں کہ حال ہی میں 9 مئی کے واقعات کے بعد ماحول تیزی سے بدل رہا ہے۔

’مثال کے طور پر ہم سے یہ ایک فرمائش کی گئی کہ آپ عمران خان کا نام نہیں لیں گے۔ تو ہم اس کے بہانے تلاش کرتے ہیں کہ پھر یہ کیسے کیا جائے۔ کیا ان کو سابق وزیراعظم کہیں، قاسم کے ابا کہیں یا سابق کرکٹر کہیں۔ آخر کار وہ سابق وزیراعظم ہیں ان کے نام کے بغیر سیاست پر بحث کیسے ممکن ہے۔‘

شاہ زیب کہتے ہیں کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے حوالے سے کوئی پراجیکٹ بنا رکھا ہے تو وہ اس کے لیے میڈیا پر بھی دباؤ بڑھائیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.