فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھانے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤکی بنیاد پر ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کا معاملہ اٹھائے رکھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کیس میں 90 دنوں کی آئینی بات کے بجائے تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا، پارلیمنٹ میں ہمیں لائیک مائنڈڈ ججز کہہ کر پکارا جاتا رہا، حکومت کرنا کیا چاہتی ہے ہم نے انتخابات کیس میں توہین عدالت کی کارروائی سے گریز کیا، اب ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پر کسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصور وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتے داری فیصلے پر اثرانداز ہو، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں۔
حکومت کی جانب سے اعتراض سامنے آنے کے بعد جسٹس منصور بینچ سے الگ ہوگئے جس کی وجہ سے نو کے بعد 7 رکنی بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے۔