"کئ سال پہلے کی بات ہے جب میری بیوی حمل سے تھی. اچانک اس کے پیٹ میں رات کے وقت درد اٹھا اور میں ٹیکسی لینے بھاگا. افسوس اس وقت کوئی ٹیکسی نہ رکھی اور ہمارا بچہ ضائع ہوگیا. اس کے بعد میں نے بطور انجینئر اپنا کیرئیر ختم کردیا اور ٹیکسی ڈرائیور بن گیا تاکہ جو مجھ پر گزری ہے وہ کسی اور پر نہ گزرے"
یہ کہنا ایک ایسے بزرگ کا ہے جو کم سے کم 11 زبانیں بولنا جانتے ہیں. ان کے تمام بچے ملٹی نیشنل کمپنیز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور گھر میں پیسوں کی ریل پیل ہونے کے باوجود یہ عام ٹیکسی ڈرائیور بن کر رہنا پسند کرتے ہیں. بیوی کے ساتھ پیش آئے ایک واقعے نے ان کی زندگی کو بدل دیا. ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایمرجنسی میں صرف ٹیکسی نہ ہونے کی وجہ سے نہ پہنچ سکے اس وجہ سے وہ خود ڈرائیور بن گئے ہیں۔
بزرگ نے ایک واقعہ سنایا کہ چند دن پہلے انھوں نے دیکھا کچھ لوگ ٹیکسی بلا رہے تھے لیکن کوئی بھی ٹیکسی نہیں رکی میں نے ان کے لیے ٹیکسی روکی تو پتا چلا کہ ان کے ساتھ ایک عورت تھی جس کا جسم 75 فیصد تک جھلس چکا تھا۔ مجھ سے پہلے کئی کیب ڈرائیوروں نے اسے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر میں نے انھیں اسپتال چھوڑا اور بعد میں بھی خیر خبر لیتا رہا.
بزرگ نے انکشاف کیا کہ وہ آج تک 500 سے زیادہ ایمرجنسی کیسز کو اسپتال منتقل کر چکا ہوں۔ ایمرجنسی کیسز کے وہ پیسے نہیں لیتے. اس کے علاوہ شہر میں جہاں بھی کوئی حادثہ ہو وہ مفت خدمات فراہم کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں. ان کی عمر 74 برس ہے اور وہ اپنی لاکھوں کی آمدنی والی نوکری کو چھوڑ کر معمولی ٹیکسی ڈرائیور بننے پر بہت مطمئن ہیں.