اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری جنگ کو تقریباً پچاس روز گزر چکے ہیں اور اس صورتحال میں بیرون ممالک مقیم بيشتر پاکستانی فکر مند ہیں کہ اس جنگ کے تناظر میں کہیں مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کہیں پھر سے بڑھ نہ جائے۔ ہم نے اسی حوالے سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے تفصیل سے بات کی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری جنگ کو تقریباً پچاس روز گزر چکے ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں دونوں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دی ہیں لیکن ہلاک ہونے والوں میں فلسطینیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر میں غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جبکہ اسرائیل سے عارضی جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
جہاں ایک جانب لاکھوں افراد فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں وہیں دوسری جانب اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں، جس کے بعد فلسطین مخالف یا پھر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں امریکی شہر نیو یارک میں محکمۂ خارجہ کے ایک سابق مشیر کو ایک حلال فوڈ کارٹ پر مسلم مخالف نفرت انگیز گفتگو کرتے سنا گیا، جس کے بعد پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔
اسی طرح اکتوبر میں ایک اور واقعے میں جوزف زوبا نامی شخص نے ایکچھ سالہ مسلمان بچے ودیا کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور اس کی والدہ کو اس دوران زخمی کر دیا تھا۔ بعد میں عدالت میں پراسیکیوٹر نے بتایا تھا کہ جوزف اسرائیل میں پیش آنے والے واقعات کے بعد وادیا کی والدہ پر غصے میں تھے۔
موجودہ صورتحال میں بيشتر مسلمان فکر مند ہیں کہ گذشتہ چند سال میں مسلمانوں کے خلاف کم ہونے والا اسلاموفوبیا کہیں پھر سے بڑھ نہ جائے۔ ہم نے اسی حوالے سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اس بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
’ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما نہ ہو جائے‘
پاکستان سے تعلق رکھنے والے حسن اٹلی میں گذشتہ دو دہائیوں سے مقیم ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں ایک سے دو مرتبہ مسلمان ہونے کے وجہ سے نفرت پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اُن کے مطابق ’اتنا عرصہ اٹلی گزارنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اسرائیل کے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھاتے دیکھا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’یہاں فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے جتنے احتجاج ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں، میلان اور خصوصی طور پر روم میں۔‘
خیال رہے کہ میلان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے احتجاجی ریلیوں میں بظاہر مسلمان زیادہ تھے لیکن روم میں 70 سے 80 فیصد اطالوی نوجوان تھے جو کہ فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا حصہ تھے۔
حسن فلسطين کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں اس لیے اب بطور مسلمان ہمیں اب یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو جائے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر سے نفرت کی آگ پھیل جائے۔‘
ایسے ہی ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے حسن نے بتایا کہ ’جب اتنے بڑے بڑے ایونٹس ہوئے تو دو ہفتے قبل ایک ریسٹورنٹ میں کوئی بیگ رکھ کر چلا گیا اور پھر افواہ پھیل گئی کہ وہاں بم ہے۔‘
’اس واقعے سے قبل ہی ہم دوست بیٹھے یہی باتیں کر رہے تھے کہ آنے والے دنوں میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے اور اگر اس میں کسی مسلمان کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اس کا نام شامل کر دیا جائے تو ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع ہونے کا خطرہ ہے۔‘
’جہاں میں رہتی ہوں وہاں تو فلسطین کے حق میں بات کرنا بھی مشکل ہے‘
اسی طرح جرمنی میں مقيم زينب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جرمنی کے جس حصے میں رہتی ہوں وہاں تو آپ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم نہ تو یہاں کوئی ریلی نکال سکتے ہیں اور نہ ہی فلسطین کے حق میں ہونے والی کسی بھی قسم کی سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘
اُن کے مطابق ’برلن یا فرینکفرٹ جیسے بڑے شہر میں ضرور فلسطین کے حق میں ریلیاں نکالی گئی ہیں لیکن جرمن قوانین بہت سخت ہیں اور یہاں کی حکومت چاہتی ہے کہ ایسی ریلیاں نہ نکالی جائیں بلکہ اب تو سوشل میڈیا پوسٹس کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے۔‘
زینب نے کہا کہ ’ان کے گھر والوں اور اردگرد کے لوگوں نے ان (زینب) کو منع کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں اپنی رائے کا اظہار نہ کریں کیونکہ ابھی تک میرے پاس جرمن شہریت نہیں۔‘
زینب جرمنی میں ورک ویزے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے انھیں اس بات کا بھی خوف ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر حالات میں کسی بھی قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے تو کہیں انھیں واپس نہ بھیج دیا جائے۔
’مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات پائے جاتے ہیں لیکن اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں‘
امریکہ میں مقيم عائشہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور اس دوران متعدد مرتبہ مجھے نفرت انگیز جملوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ میں سر پر سکارف لیتی ہوں۔‘
’یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات پائے جاتے ہیں لیکن دوسری جانب ہر ملک اور سوسائٹی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں۔‘
عائشہ کا مزید کہنا ہے کہ ’جب یہاں فلسطين کے حق میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں تو میں ان میں اپنی فیملی کے ساتھ شامل ہوئی اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ امریکہ بہت بڑا ہے اور یہاں کے حالات بھی دیگر ممالک سے اس معاملے میں بہتر ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم خاص طور پر نوجوان بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کا مطاالبہ کر رہے ہیں۔ میں احتجاج میں شامل ہوئی ہوں اور وہاں باقاعدہ پولیس تھی جنھوں نےان ریلیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔‘
فلسطين کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ زیادہ تر ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان اسرائیل اور فلسطین کے معاملے کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلام مخالف رویے کے بارے میں بات کی جاتی ہے وہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسرائیل کے خلاف جنگ بندی نہ کرنے پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
حال ہی میں آسٹریلیا سے کینیڈا شفٹ ہونے والے محمد حمزہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسئلہ مسلمانوں کا نہیں، یہ مسئلہ انسانیت کا ہے لیکن اسرائیل اپنی جارحیت اس لیے جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ انھوں نے فلسطینی سرزمین کو اپنے مذہب سے جوڑ رکھا ہے اور وہ اسی بنیاد پر وہ زمین کے اس ٹکڑے پر قابض ہیں۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں اسرائیل پوری دنیا کو دھوکہ نہیں دے سکتا اور جہاں تک بات رہی اسلاموفوبیا یا اسلام مخالف رویے کی تو وہ شدت پسند لوگوں میں پایا جاتا ہے جو کسی ایک شخص کے غلط عمل کو کسی مذہب سے جوڑتے ہیں۔‘