19ویں صدی تک صنعتی ممالک میں ’چمنی کی بھینٹ‘ چڑھنے والے بچے کون تھے؟

یہ وہ معصوم بچے تھے جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک بے رحم زمانے کے ہاتھ لگے۔ یہ بچے سفاکانہ حالات میں ’چمنی سویپ‘ یعنی چمنیوں کی صفائی کا کام کرتے تھے، یہ ایک ایسا عمل یا کام تھا جو دنیا کے مختلف حصوں میں ایک طویل عرصے اور وسیع پیمانے پر رائج رہا۔
factory
Getty Images

انتباہ: اس مضمون کے کچھ اقتباس آپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔

یہاں اُن معصوم بچوں کا ذکر کرتے ہیں، جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک بے رحم زمانے کے ہاتھ لگے۔ یہ بچے سفاکانہ حالات میں ’چمنی سویپ‘ یعنی چمنیوں کی صفائی کا کام کرتے تھے، یہ ایک ایسا عمل یا کام تھا جو دنیا کے مختلف حصوں میں ایک طویل عرصے اور وسیع پیمانے پر رائج رہا۔ یہ غیر معمولی اور تکلیف دہ رویّہ سماجی طور پر بھی قابل قبول بھی رہا۔ ان بے بس بچوں نے گھنٹوں دہل دہلا دینے والے سلوک کا سامنا کیا اور انتہائی ناگوار حالات میں کام کیا۔

حالات اور بے رحم زمانے کی بھینٹ چڑھنے والے یہ تین سال سے کم عمر بچے جن میں سے اکثر یتیم ہوتے یا اپنے غریب والدین کے ہاتھوں بیچ دیے جاتے تھے اسی لیے وہ اپنے آقاؤں کے رحم و کرم پر ہوتے تھے، جنھوں نے انھیں یہ خطرناک کام کرنے پر مجبور کیا۔

18ویں اور 19ویں صدی کے آواخر میں برطانوی پریس میں اکثر ان کی موت کی خبریں شائع ہوتی تھیں، جنھیں ’کلائمبنگ بوائز‘ بھی کہا جاتا تھا۔

کچھ چھتوں یا چمنی میں دورانِ صفائی گرنے جبکہ دیگر ان میں پھنس جانے اور دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے، یہاں تک کہ بچوں کی ہلاکت کے ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس میں انھیں زبردستی آگ کے اندر جانے پر مجبور کیا گیا اور پھر وہ آگ میں جل کر زندگی کی بازی ہار گئے۔

ایسا ہی ایک المناک واقعہ سنہ 1846 میں آئرلینڈ کے شہر لیمرک میں پیش آیا۔

وہاں ایک آٹھ برس کے مائیکل اوبرائن ایک چمنی میں پھنس کر ہلاک ہوئے۔ اس دن اس چمنی کے دھوئیں نے آگ پکڑ لی تھی۔

عدالتی تحقیقات کے دوران گھر کی ایک ملازمہ کیتھرین ریان نے یہ حلف دیا کہ اس لڑکے کے مالک مائیکل سلیوان کو انھوں نے یہ کہتے ہوئے صاف سنا کہ آگ میں جا کر صفائی کرو اور پھر تقریباً 15 منٹ بعد لڑکے کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو یہ کہہ رہا ہے کہ وہ جل رہا ہے۔

جب وہ باہر آئے تو ’مائیکل سلیوان نے اسے ٹانگ سے پکڑ کر چمڑے کی پٹی سے اتنا مارا کہ چھوٹا لڑکا گھٹنے ٹیک کر بولا کہ ’میں گھر کے اوپر اور چمنی کی صفائی کے لیے جانے کو تیار ہوں۔‘

انھوں نے گواہی میں مزید بتایا کہ ’میں نے مائیکل سلیوان کو دیکھا کہ وہ اس لڑکے کا بازو پکڑ کر اسے سیڑھیوں سے اوپر لے جا رہے تھے اور پھر بعد میں اس بچے کو چمنی سے مردہ نکالا گیا۔

لیمرک اور کلیر ایگزیمنر نے یہ اطلاع دی کہ اس بچے کی لاش ’خوفناک حالت میں یعنی بری طرح سے جلی ہوئی اور بہت خراب حالت میں پائی گئی۔ اس تفتیش کی بنیاد پر اس بچے کے یوں قتل کو حادثاتی موت قرار دینے والا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا۔‘

یہ معمول کا فیصلہ تھا اور صرف چند واقعات کی حد تک اس طرح عوامی رائے کی وجہ سے آخر کار کسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

اور یہ صرف آئرلینڈ میں نہیں تھا۔

اگرچہ سکاٹ لینڈ اور روس جیسی جگہوں پر اس کام کے لیے متبادل طریقے استعمال کیے گئے، جیسا کہ رسی سے بندھے ہوئے وزن کے ساتھ برش کو نیچے کرنا یا دھوئیں کی نالی بنانا۔۔ یہی طریقے انگلینڈ، فرانس، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈز میں بھی شاید رائج ہوئے۔ دوسرے ممالک میں چمنی کی صفائی کے لیے بچوں کو مزدوری پر مجبور کیا جاتا۔

اٹلی میں انھیں ’پازاچامینی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ شمالی اٹلی میں اس کام کے لیے یتیموں اور بھیک مانگنے والے بچوں کو بیرون ملک کام کرنے کی تربیت دی گئی۔

اس کے بدلے میں 19ویں اور 20 ویں صدیوں کی سردیوں میں سوئٹزر لینڈ کے علاقوں میں غریب خاندانوں نے جیسے کہ الپس میں ٹکینو کی چھاؤنی میں 8 سے 15 سال کی عمر کے لڑکوں کو میلان یا دیگر مقامات پر چمنی صاف کرنے کا کام کرنے کے لیے اطالوی آجروں کے حوالے کر دیا گیا۔

لومبارڈ شہر نیم غلامی کا مرکز بن کر رہ گیا تھا۔ امریکہ میں غلامی کے خاتمے سے پہلے اور بعد میں چمنیوں میں جھاڑو دینے والے بچے عموماً افریقی نژاد امریکی تھے۔

Chimney
BBC

وجہ کیا تھی؟

اگرچہ آگ کی جگہیں رومن سلطنت کے زمانے سے موجود تھیں اور قرونِ وسطی میں انھیں خاص طور پر قلعوں میں رکھا گیا لیکن یہ 16ویں صدی تک زیادہ عام نہیں تھیں۔

اشرافیہ نے ان کی جگہ گھروں کے اندر لکڑی کے چولھے بنائے تاکہ گھر گرم رہ سکیں۔ اس کے بعد اس رواج کو جلد ہی محنت کش طبقے نے بھی اختیار کر لیا۔

ان کی صفائی کے لیے وقف کرنے والوں کی مانگ میں اضافہ ہی ہوا اور 17ویں اور 18ویں صدیوں تک یہ ایک مکمل ایک شعبہ بن گیا جو آگ پر قابو پانے کے لیے ضروری بھی تھا۔

جب زیادہ تر لوگوں نے چارکول کی خاطر لکڑیاں جلانا چھوڑ دیں تو پھر چمنیوں کا ڈیزائن بدل گیا: بہتر ڈرافٹ بنانے کے لیے ’فلوز‘ یعنی اس کی نالی کو تنگ کر دیا گیا۔

معیاری نالی کو 36x23 سینٹی میٹر تک کم کر دیا گیا تھا، لیکن اس سے بھی کم 23x23 سینٹی میٹر تک والے بھی ایسے چولھے تھے۔

صنعتی انقلاب کے دور میں خاص طور پر شہروں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آباد کرنے کے لیے بلندو بالا اپارٹمنٹس کی تعمیر میں اضافہ ہوا اور پھر اس طرح کے چمنیوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا تاکہ عمارت میں موجود کمروں کو گرم رکھا جا سکے۔

ان عمارتوں کے ساتھ ہی ان چمنیوں میں بھی جدت آئی اور اب ان کے ڈیزائن بھی بدل کر مزید پیچیدہ ہو گئے۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ اب یہ چمنیاں پیچیدہ، زاویہ دار، تنگ، سیاہ ہو گئیں جس نے ان کی صفائی کے کام کو مزید مشکل بنا دیا۔

اگر یہ وقتاً فوقتاً نہ کیا جاتا تو گھر زہریلے دھوئیں سے بھر جاتے۔

لیکن ان ناہموار اور گھماؤ والی انتہائی تنگ عمودی سرنگوں میں کون اندر داخل ہو سکتا ہے؟

مشکلات اور بچے

اس کے بعد چھوٹی چمنی کی صفائی کرنے والے اپنی جان کی قیمت پر اپنے آجروں کی حفاظت کرتے تھے۔ ان مزدوروں میں چار سال کے بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد بھی شامل تھے۔ مگر کمسن اس کام میں زیادہ نقصان اٹھاتے تھے اور ان کی ہڈیاں بھی بری طرح متاثر ہوتی تھیں۔

کالے دھوئیں اور اس کے زہریلے مادوں کی شدت کا مسلسل سامنا کرنے سے پھیپھڑوں کے مسائل سے لے کر، آنکھوں کی تکلیف دہ سوزش تک ہو جاتی، جو بعض صورتوں میں اندھے پن کا سبب بنتی ہے۔

اکثر جن چمنیوں میں انھیں داخل ہونا پڑتا تھا وہ بہت گرم ہوتی تھیں، کچھ تو جل رہی ہوتی تھیں۔ اس سے پھر ان مزدوروں کی جلد جل جاتی یا اس سے بھی بدتر نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔

ایک جلد جو کہ اگرچہ گرمی سے متاثر نہیں ہوتی تھی مگر رگڑ کی وجہ سے تنگ نالیوں میں گھسنے کے بعد رگڑ کی وجہ سے نرم ہو جاتی تھی۔

وہ اپنے دھویں کے ذرات سے بھرے ان زخموں کی ٹھیک سے صفائی بھی نہیں کر پاتے جس سے مزید انفیکشن میں اضافہ ہو جاتا کیونکہ سال میں انھیں صرف زیادہ سے زیادہ تین بار نہانے کی اجازت ملتی تھی۔

ان چمنیوں میں صفائی کے لیے خاصا ہنرمند ہونا لازمی تھا وگرنہ ان تنگ سوراخ والی چمنیوں میں عام مزدور تو اندر پھنس کر رہ جاتا۔

خوش قسمت لوگوں کو رسی سے کھینچ کر باہر نکالا جاتا۔ اگر ایسی مدد میں تاخیر ہو گئی یا انھیں باہر نکالنے کی تمام کوششیں بے سود رہیں تو پھر وہ دم گھٹنے سے اندر ہی مر جاتے۔

’حادثاتی اموات‘ کے ان معاملات میں لاشوں کو ہٹانے کا واحد طریقہ اینٹوں کو ہٹانا تھا۔ بچاؤ کی ایسی کوششوں میں بچوں کو زندہ رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مضبوط اور چست ہونا تھا۔

جو لوگ کامیاب ہوئے وہ بعد میں 18ویں صدی کے یورپ میں خاص طور پر انگلینڈ میں ایک خاص بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہوئے۔

یہ بیماری ’چمنی سویپ کینسر‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، جو بچوں کو بہت متاثر کرتی۔

بہت سے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کی وجہ جنسی بیماریاں تھیں جو اس وقت پھیلی ہوئی تھیں، لیکن برطانوی سرجن پرسیوال پوٹ کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ مختلف تھی۔

سنہ 1775 میں انھوں نے ایک مقالہ شائع کیا، جس میں دھوئیںمیں رہنے کی وجہ سے اور چمنی کے بچوں میں سکروٹل کینسر کے بڑے واقعات کے درمیان اعداد و شمار کے لحاظ سے خاص تعلق دکھایا گیا ہے۔

اس کے ساتھانھوں نے پہلی بار یہ دریافت کیا کہ کینسر ماحولیاتی ایجنٹوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو انسانوں میں سرطان پیدا کرنے والے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

اور انھوں نے پہلے صنعتی کینسر کی نشاندہی کی۔

اس سب کا مطلب یہ تھا کہ چمنی صاف کرنے والے بچوں کا مستقبل تاریک تھا: اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ وہ اپنی جوانی تک پہنچ پاتے۔

بالآخر بچوں کی مشقت کا خاتمہ

ان کا کام ختم ہونے پر بھی ڈراؤنا خواب ختم نہیں ہوا۔

والدین کے بغیر ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے یا ان کے تحفظ کے لیے قوانین، بچے مکمل طور پراجنبیوں کے رحم و کرم پر تھے جو انھیں کام کا محض ایک آلہ سمجھتے تھے۔

بچوں کے ساتھ جنسی تشدد بھی اکثرکیا جاتا اور انھیں صرف اتنا لباس دیا جاتا تھا کہ وہ ننگے نہ ہوں۔ مگر انھیں سردی اور مضر دھویں سے بچنے کے لیے کپڑنے میسر نہ تھے۔

وہ بہت کم کھاتے تھے اور سڑک پر یا تہہ خانے میں سوتے تھے۔۔۔ لیکن ان کی حالت ہر کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔

برطانوی شاعر ولیم بلیک اور فرانسیسی مصنف وکٹر ہیوگو جیسے مصنفیننے ان بچوں کی زندگیوں کو ادب اور مقبول ثقافت کا حصہ بنایا، جس نے عوام کی توجہ مبذول کرائی۔

ان تمام ممالک میں بااثر لوگوں کی کوششوں کے باوجود جہاں بچوں کے استحصال کی اس شکل کو قبول کیا گیا تھا، اس پر پابندی لگانے میں وقت لگا۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں مخیر حضرات جوناس ہین وے کی سنہ 1760 کی دہائی میں ایک مہم کے بعد سنہ 1788 میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا، جس میں چمنی صاف کرنے کے لیے کم از کم آٹھ سال کی عمر کی حد مقرر کی گئی تھی۔

لیکن نہ تو یہ اور نہ ہی دیگر ضوابط نافذ کیے گئے، یہاں تک کہ ایک اور بچے کی موت سے پھر قانون ساز متحرک ہوئے۔

جارج بریوسٹر کی عمر 11 سال تھی جب وہ کیمبرج شائر کے وکٹورین ہسپتال کی تنگ چمنی میں پھنس گئے۔

اگرچہ اس تک پہنچنے کے لیے ایک دیوار توڑی گئی مگر اس کے فوراً بعد ہی وہ مر گئے تھے۔

شافٹسبری کے ارل ہفتم آف نے اس بچی کی موت کے بارے میں پڑھا اور ’بچوں کے چمنی کے جھاڑو‘ کے طور پر استعمال کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا۔

سنہ 1875 کے قانون کے مطابق چمنی جھاڑو کے لیے لائسنس یافتہ ہونا اور پولیس رجسٹریشن ضروری قرار دی گئی۔ اب نگرانی کرنا قانون کا حصہ بن گیا۔

یوں بالآخر چمنی کی صفائی پر مامور ان بچوں کی بربریت سے جان خلاصی ہوئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.