چینی ٹیک فرم کا برطانیہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک کا ڈیٹا ہیک کرنے کا دعویٰ

لیک ہونے والی دستاویزات ایشیا (بشمول پاکستان) اور یورپ میں عوامی اداروں اور کاروباروں کی کامیاب ہیکنگ کا پتا دیتی ہیں، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ان میں سے کسی کے ڈیٹا تک رسائی ممکن ہو پائی تھی یا نہیں۔
ہیکنگ
BBC

ایک چینی سائبر سکیورٹی فرم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ برطانیہ کے دفتر خارجہ کے نظام کو ہیک کر سکتی ہے۔

لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق برطانیہ کی سرکاری ایجنسیاں، تھنک ٹینکس، کاروبار اور خیراتی ادارے بھی ائی سُون i-Soon کے لیک ہونے والے ڈیٹا میں نظر آتے ہیں۔

دیگر دستاویزات ایشیا (بشمول پاکستان) اور یورپ میں عوامی اداروں اور کاروباروں کی کامیاب ہیکنگ کا پتا دیتی ہیں، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ان میں سے کسی کے ڈیٹا تک رسائی ممکن ہو پائی تھی یا نہیں۔

ان دستاویزات کو لیک کرنے والے کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

برطانیہ میں چین کے سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ اس لیک سے لاعلم ہیں اور یہ کہ چین ہر قسم کے سائبر حملوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

تاہم اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق، چینی پولیس اور آی سوُون i-Soon مبینہ طور پر اس ڈیٹا ڈمپ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

بی بی سی نے برطانوی حکومت اور پاکستانی دفترِ خارجہ سے بھی تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے تاہم ابھی جواب موصول نہیں ہوئے۔

لیک حقیقی معلوم ہوتی ہے

GETTY IMAGES
Getty Images

i-Soon ان بہت سی نجی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو چین کی فوج، پولیس اور سکیورٹی سروسز کے لیے سائبر سکیورٹی خدمات فراہم کرتی ہیں۔

اس کمپنی کے شنگھائی ہیڈ کوارٹر میں 25 سے بھی کم ملازمین ہیں۔

16 فروری کو گِٹ ہب GitHub - ایک آن لائن ڈویلپر پلیٹ فارمپر 577 دستاویزات اور چیٹ لاگز کا مجموعہ لیک کیا گیا تھا۔

تین سکیورٹی محققین نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ لیک حقیقی معلوم ہوتی ہیں۔

لیک کی گئی دستاویزات کے مطابق i-Soon آٹھ سال سے برطانیہ، فرانس اور کئی ایشیائی ممالک - بشمول تائیوان، پاکستان، ملائیشیا اور سنگاپور میں سسٹمز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

ایسے ہی ایک معاملے میں جنوب مغربی چین میں ایک سرکاری تنظیم نے ویتنامی ٹریفک پولیس کی ویب سائٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار ڈالر (11900 پاؤنڈ) ادا کیے۔

ایک اور معاملے میں X (سابقہ ٹویٹر) پر ڈس انفارمیشن مہم چلانے والے سافٹ ویئر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر (79 ہزار پاؤنڈ) تھی۔

’باس لو‘

’باس لو‘ اور ایک اور نامعلوم صارف کے درمیان ایک نامعلوم تاریخ کو ہوئی چیٹ لاگ کے مطابق، برطانیہ کے دفتر خارجہ کو i-Soon کے لیے ایک ترجیحی ہدف قرار دیا گیا ہے۔

نامعلوم صارف نے کہا کہ انھیں دفتر خارجہ کے سافٹ ویئر کی کمزوری کا علم ہے۔ تاہم باس لو نے کہا کہ آپ کوئی اور تنظیم ڈھونڈیں کیونکہ اس کام کا ٹھیکہ ایک حریف کو دے دیا گیا ہے۔

ایک اور چیٹ لاگ میں ایک صارف برطانیہ کے اہداف کی ایک فہرست i-Soon کو بھیجتا ہے جس میں برٹش ٹریژری، چیتھم ہاؤس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل شامل ہیں۔

جسے یہ فہرست بھیجی گئی اس کا جواب آتا ہے کہ ’فی الحال ہمارے پاس ان کا اپ ڈیٹڈ ڈیٹا نہیں ہیں لیکن ہم اس پر کام کر سکتے ہیں۔‘

اس کے بعد یہ دونوں کسی ایسے کام سے متعلق جس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، اپنے کلائنٹ سے دوبارہ سے ادائیگی کے متعلق بات کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک اور چیٹ لاگ میں i-Soonکا عملہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ کے کیے گئے معاہدوں پر بات کرتا نظر آتا ہے۔

GETTY IMAGES
Getty Images

مینڈیئنٹ انٹیلی جنس کے چیف تجزیہ کار جان ہلٹکوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ لیک ’تجارتی سطح پر چلائے جانے والے ایکہائی سٹیک انٹیلیجنس آپریشن‘ کی اندورنی کہانی سناتی ہے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کانٹریکٹر کس طرحایک ہی وقت میں صرف ایک نہیں بلکہ متعدد ایجنسیوں‘ کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا لیک ہونے کے پیچھے بہت سے محرکات ہو سکتے ہیں۔

اسلیک کے پیچھے ایک ناراض سابق ملازم، کوئی غیر ملکی انٹیلیجنس ایجنسی، یا کسی حریف کی جانب سے آئی سُؤن کی عوامی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

چین کی سائبر جاسوسی مہمات کے بارے میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے، لیکن یہ لیک اس کام میں نجی شعبوں کی شمولیت کا بھی پتا دیتی ہے۔

ایٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب میں نان ریذیڈنٹ فیلو ڈکوٹا کیری کا کہنا ہےکہ چینی حکام اس معاملے کی تحقیقات کے نتائج کو عام کریں، ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.