ناروے کی حکومت کا باضابطہ طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

image

اوسلو۔22مئی (اے پی پی):ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر اسٹور نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت باضابطہ طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر رہی ہے۔ چینی خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق انہوں نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ناروے فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کا درجہ دینے کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناروے کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا 28 مئی کو نافذ ہو جائے گا۔ دو ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو گا اور فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی دو ریاستی حل نہیں ہو سکتا۔

ناروے کے وزیر اعظم نے کہا کہ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے حصول کے لیےفلسطینی ریاست ایک شرط ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان علاقائی حد بندی 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ہونی چاہیے، جس میں بیت القدس دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہے۔ یہ موقف سرحدوں پر کسی حتمی تصفیے کے لیے تعصب کے بغیر ہے، جس میں زمین کا تبادلہ شامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا موجودہ وقت انتہائی اہم ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ امن اور استحکام کے حصول کی پیشنگوئی مسئلہ فلسطین کے حل پر ہونی چاہیے۔ اسرائیل فلسطین طویل تنازع میں جنگ کا درجہ سب سے نیچے ہے۔

اس موقع پر ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایڈی نے غزہ میں جنگ بندی کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ جنگ بندی کا حصول ہے اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ کے لوگوں تک کافی انسانی امداد پہنچ جائے اور یرغمالیوں کی رہائی ہو جائے۔ انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے امن مذاکرات کی تجدید کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ طویل مدت میں، ہم امید کرتے ہیں کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے فریقین کو امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب ملے گی جس کا مقصد حتمی حیثیت کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ ایک فلسطینی ریاست اسرائیلیوں کی سلامتی کو بھی فروغ دے گی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.