’ممبئی والے ہمارا پانی پی جاتے ہیں،‘ انڈیا میں ’خوفناک مسائل‘ کی پیش گوئی کرتا بحران

image

انڈیا کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی کی چمکتی ہوئی بلند عمارتوں سے بہت دور اس میگا سٹی کو پانی فراہم کرنے والے علاقوں کے غریب دیہات خشک ہو رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملک بھر میں دہرایا جانے والا یہ ایک ایسا بحران ہے جو خوفناک مسائل کی پیش گوئی کرتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں سر پر بدبودار پانی سے بھرا سٹیل کا بھاری گھڑا اُٹھائے شہری سنیتا پندورنگ ستگیر نے کہا کہ ’ممبئی میں لوگ ہمارا پانی پیتے ہیں لیکن وہاں حکومت سمیت کوئی بھی ہمارے مطالبات پر توجہ نہیں دیتا۔‘

ایک ارب 40 کروڑ افراد پر مشتمل دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش بھی شدید ہیں اور گرمی کی شدت بھی زیادہ ہے لیکن دوسری طرف صاف پانی کی فراہمی میں کمی ہو رہی ہے۔

ممبئی کو 100 کلومیٹر دور ذخائر سے نہروں اور پائپ لائنوں کے ذریعے پانی سپلائی ہوتا ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی منصوبہ بندی کی ناکامی سے اکثر علاقوں کے سینکڑوں دیہات اور کئی قریبی اضلاع پانی کے اس نیٹ ورک سے منسلک نہیں ہیں اور کنوؤں جیسے روایتی ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسری جانب پانی کی طلب موجود وسائل سے کہیں زیادہ ہے اور زیِرِ زمین پانی کی سطح گر رہی ہے۔

شہری سنیتا پندورنگ ستگیر نے کہا کہ ’ہمارے دن اور ہماری زندگی صرف پانی ذخیرہ کرنے کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم ہر روز پانی کے لیے چار سے چھ چکر لگاتے ہیں جس کے بعد ہمارے پاس اور کچھ کرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔‘

ہیٹ ویو اور خشک ہوتے کنویں

موسمیاتی تبدیلی ہر ایک کو متاثر کر رہی ہے اور اس سے شدید خشک سالی بھی زیادہ سے زیادہ ہو رہی ہے۔

شدید گرمی میں کنویں تیزی سے خشک ہو جاتے ہیں۔

35 سالہ سنیتا ستگیر کا کہنا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں جب پانی کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے تو وہ پانی لانے کے لیے دن میں چھ گھنٹے صرف کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ رواں سال انڈیا میں درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس سے تک بڑھ گیا ہے۔

کنواں خشک ہونے کی صورت میں سارا گاؤں ایک سرکاری ٹینکر پر انحصار کرتا ہے جو ہفتے میں کبھی دو اور کبھی تین بار پانی لاتا ہے۔

سرکاری ٹینکر ایک دریا سے ایسا پانی لاتا ہے جہاں لوگ بھی نہاتے ہیں اور جانور بھی اسی پانی میں ہوتے ہیں۔

سنیتا ستگیر کا گھر کھیتی باڑی کے لیے مشہور شہر شہ پور کے قریب نوین واڑی نامی ایک دیہات میں واقع ہے جو ممبئی کی مصروف سڑکوں سے تقریباً 100 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ممبئی کو پانی فراہم کرنے والے بڑے ذخائر کا ذریعہ بھی ہے جہاں سے ممبئی کو تقریباً 60 فیصد پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

نریندر مودی نے سنہ 2019 کی انتخابی مہم میں ہر گھر میں پانی کا نلکا لگانے کا اعلان کیا تھا۔ممبئی انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا اور تیزی سے پھیلتا ہوا شہر ہے، جس کی آبادی دو کروڑ 20 لاکھ ہے۔

سنیتا ستگیر نے کہا کہ ’ہمارے اردگرد کا سارا پانی بڑے شہر کے لوگوں کو جاتا ہے اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری تین نسلیں اس کنویں سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ ہمارا واحد ذریعہ ہے۔‘

گاؤں کی سربراہ 26 سالہ روپالی بھاسکر سادگیر نے کہا کہ یہاں کے مکین اکثر اس پانی سے بیمار رہتے ہیں۔ لیکن یہ پانی ان کا واحد ذریعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم برسوں سے حکومتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ڈیموں میں دستیاب پانی بھی ہم تک پہنچے، لیکن صورتحال صرف بدتر ہو رہی ہے۔‘

میٹھے پانی کی دستیابی میں 40 فیصد کمی کی پیش گوئی

ریاستی سطح پر اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت دونوں کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ماضی قریب میں بھی حکام نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بار بار سکیموں کا اعلان کیا لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان سکیموں کا پانی ابھی تک مقامی لوگوں تک نہیں پہنچا۔

انڈین حکومت کے نیتی آیوگ پبلک پالیسی سنٹر نے جولائی 2023 کی ایک رپورٹ میں ’2030 تک میٹھے پانی کی دستیابی میں تقریباً 40 فیصد کمی‘ کی پیش گوئی کی ہے۔

رپورٹ میں ’پانی کی تیزی سے کمی، زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے اور وسائل کے معیار کی خستہ حالی‘ سے بھی خبردار کیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ زیر زمین پانی کے وسائل ’مختلف شرح سے ختم ہو رہے ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق یہ پانی کی کل فراہمی کا تقریباً 40 فیصد ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے اس ماہ اپنے عہدے کی تیسری مدت کا آغاز کیا سنہ 2019 میں ہر گھر کو پانی کا نلکا فراہم کرنے کے لیے ایک فلیگ شپ سکیم کا اعلان کیا تھا۔

ماضی قریب میں بھی حکام نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بار بار سکیموں کا اعلان کیا۔ فوٹو: اے ایف پیلیکن نوین واڑی گاؤں کے رہائشی آج بھی پانی کی ’راشن بندی‘ کرتے ہیں۔ جب پانی کا ٹینکر آتا ہے تو درجنوں خواتین اور بچے برتن، پتیلے اور بالٹیاں لے کر باہر بھاگتے ہیں۔

ایک دیہاڑی دار مزدور 50 سالہ سنتوش ترمبکھ دھونر نے کہا کہ وہ پانی بھرنے کے لیے کھڑا ہو گیا کیونکہ اس دن اسے کام نہیں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’پانی بھرنے کے لیے زیادہ ہاتھ ہوں گے تو مطلب گھر میں زیادہ پانی جمع ہوگا۔‘

25 سالہ گنیش واگھے نے بتایا کہ رہائشیوں نے شکایت کی اور احتجاج بھی کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بڑی خواہشوں کے ساتھ نہیں جی رہے، اگلی صبح صرف پانی کا خواب ہوتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.