کیا آپ کسی اجنبی کا پاخانہ اپنے جسم میں داخل کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟

صحت مند پاخانہ عطیہ کرنے والوں کی سکریننگ کی جاتی ہے اور ان نمونوں سے بیکٹیریا کو لے کر مریض کی آنتوں میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔
رک ڈلاوے
Rick Dallaway/Getty Images
رک ہنستے ہوئے اس عمل کی وضاحت کرتے ہیں کہ ’یہ صرف پاخانے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ اس کو لیبارٹری میں رکھا جاتا ہے

عطیہ شدہ پاخانے کے کلینیکل ٹرائل میں پہلی بار شامل ہونے والے رک ڈلاوے کہتے ہیں کہ انسانی فضلے کو ٹرانسپلانٹ کرنے کا خیال یقینی طور پر کافی عجیب ہے۔

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف برمنگھم میں 50 برس کے رک میں انسانی فضلے کو ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ اس عمل سے جگر کی نایاب بیماری ’پرائمری سکلیروسنگ کولنگائٹس‘ (پی ایس سی) پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

رک ہنستے ہوئے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ صرف پاخانے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ اس کو لیبارٹری میں رکھا جاتا ہے۔‘

اس وقت جگر کی پیوند کاری کے علاوہ رک کو لاحق اس نایاب بیماری کا کوئی علاج نہیں۔

برطانیہ میں ایک لاکھ افراد میں سے چھ یا سات افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں جس سے ان کی متوقع عمر 17 سے 20 برس تک کم ہو جاتی ہے۔

رک میں اس کی تشخیص آٹھ برس قبل اس وقت ہوئی جب ان کی عمر 42 برس تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت بے چینی ہوئی۔ مجھے اپنے مستقبل کی فکر ہوئی۔ یہ کسی چٹان سے گرنے جیسا تھا۔‘

پاخانے کا ٹرانسپلانٹ کیا ہے؟

فیشل مائیکرو بائیوٹا ٹرانسپلانٹ (ایف ایم ٹی) جسے ’پاخانے کا ٹرانسپلانٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، کو بہت سے ممالک میں آنتوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے کلینکل ٹرائلز کے طور پر انجام دیا جا رہا ہے۔

صحت مند پاخانہ عطیہ کرنے والوں کی سکریننگ کی جاتی ہے اور ان نمونوں سے بیکٹیریا کو لے کر مریض کی آنتوں میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔

ریک نے آزمائشی بنیادوں پر علاج کروایا لیکن برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر کی گائیڈ لائنز کے مطابق اس وقت ملک میں صرف ’پرائمری سکلیروسنگ کولنگائٹس‘ کے علاج کے لیے ہی ایف ایم ٹی کو تجویز کیا گیا ہے۔

کلوسٹریڈیم نامی بیکٹیریا سے ہونے والے شدید انفیکشن سے متاثر افراد، ملک کی نیشنل ہیلتھ سروس کے ذریعے اس علاج تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

کلوسٹریڈیم ایک نقصان دہ بیکٹیریا ہے جس کی وجہ سے اسہال ہوتا ہے۔ یہ اکثر ان لوگوں کو متاثر کرتا ہے جنھوں نے بہت لمبےعرصے تک اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا ہو۔

ایف ایم ٹی کے لیے 50 ملی لیٹر کے ایک نمونے کی قیمت 1300 پاؤنڈ ہے اور ماہرین کے مطابق یہ قیمت بار بار اینٹی بایئوٹک اور ہسپتال کے علاج کی لاگت سے کہیں کم ہے۔

کچھ صورتوں میں مریض کو انسانی فضلے میں پائے جانے والے صحت مند بیکٹیریا سے بنے کیپسول بھی دیے جاتے ہیں، جو وہ کھا سکتا ہے۔

اہم اعضا کا متبادل انسانی پاخانہ

ایسے لوگ جنھیں نئے جگر، گردے یا دل کی ضرورت ہوتی ہے، انھیں مناسب ڈونر کی تلاش میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

ان انتہائی اہم اعضا کے برعکس انسانی پاخانہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہے۔ اگرچہ کسی اور کے پاخانے کا خیال کچھ لوگوں کے لیے کراہت کا سبب بن سکتا ہے لیکن رک سائنس پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی بیوی اور دوستوں نے اس سفر میں ان کا ساتھ دیا۔

رک کہتے ہیں کہ ’اس میں کسی شرمندگی یا پریشانی کی بات نہیں۔ میرے خاندان اور دوستوں نے کہا کہ اگر واقعی امکان ہے کہ یہ طریقہ کام کر سکتا ہے تو اسے کیوں نہ اپنایا جائے۔‘

انسانی پاخانہ
MTC/University of Birmingham

پاخانے کے بینک

برمنگھم یونیورسٹی میں مائیکروبیوم سینٹر (ایم ٹی سی) برطانیہ کا پہلا ایسا مرکز ہے، جہاں ایف ایم ٹی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

یہ مرکز سینکڑوں مریضوں کا محفوظ طریقے سے علاج کرنے اور تحقیقی ٹرائلز کے لیے ڈاکٹروں کو پاخانے کے نمونے بھی فراہم کرتا ہے۔

اس مرکز میں ڈونرز کو سکریننگ کے سخت عمل سے گزرنا پڑتا ہے، جس میں ان کی میڈیکل ہسٹری، طرز زندگی کی جانچ اور خون اور پاخانے میں جراثیم کی موجودگی کے لیے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

مکمل جانچ پڑتال کے بعد پاخانے کے صحت مند نمونوں کو 12 ماہ تک منفی 80 سیٹی گریڈ پر فریزر میں محفوظ کیا جاتا ہے۔

جب کسی مریض کو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو جمے ہوئے اس پاخانے کو ڈیفروسٹ کر کے سرنج میں ڈالا جاتا ہے۔

مائیکروبیوم سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر طارق اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جن ممالک میں پاخانے کو محفوظ کرنے کے لیے بینک (مراکز) نہیں، وہاں یہ مشکل کام ہے لیکن ہم تجویز کریں گے کہ منجمد ایف ایم ٹی کو استعمال کیا جائے تاکہ آپ ان لوگوں کی مناسب طریقے سے سکریننگ کر سکیں۔‘

ڈونرز کو دس دن کے لیے نگرانی میں رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد انھیں گفٹ کارڈ کے ساتھ 200 پاؤنڈ دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پی ایس سی کی وجوہات نامعلوم

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ 70 سے 80 فیصد مریض جن کی حالت رک جیسی ہے، انھیں آنتوں کی سوزش کی بیماری ہو سکتی ہے۔ ایک ایسی بیماری جس میں معدے میں شدید درد کے ساتھ مریض کا پیٹ بھی خراب رہتا ہے۔

رک کے ٹرائل کی نگرانی کرنے والی ڈاکٹر پلک ترویدی کہتی ہیں کہ سائنسدانوں کو اس بارے میں علم نہیں کہ لوگوں کو پرائمری سکلیروسنگ کولنگائٹس (پی ایس سی) کیوں ہوتا ہے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا آنتوں کی سوزش سے کیا تعلق ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم صحت مند مائیکرو بائیوٹا کو پرائمری سکلیروسنگ کولنگائٹس والے مریضوں کی آنتوں میں منتقل کر کے دیکھنا چاہیں گے کہ اس کا ان کی جگر کی بیماری پر کیا اثر ہوا۔‘

پاخانہ دینے والے ڈونر کو سکریننگ کے سخت عمل سے گزرنا پڑتا ہے
Getty Images
پاخانہ دینے والے ڈونر کو سکریننگ کے سخت عمل سے گزرنا پڑتا ہے

ٹرانسپلانٹ کے لیے گائیڈ لائنز

ایف ایم ٹی کی گائیڈ لائنز ترتیب دینے میں تعاون کرنے والے ایمپیرئل کالج آف لندن کے ڈاکٹر ہوریس ولیمز کہتے ہیں کہ ’یہ ٹرانسپلانٹ کسی بھی بیماری کے لیے تجویز کیا جانے والا پہلا علاج نہیں۔‘

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کلوسٹریڈیم بیکٹیریا سے ہونے والے شدید انفیکشن سے متاثرہ افراد کو ہی صرف ایف ایم ٹی کی پیشکش کی جاتی ہے۔

وہ تجویز کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر علاج کے خواہشمند مریضوں کو کلینکل ٹرائلز میں شامل ہونا چاہیے، جیسا رک نے کیا۔

ایف ایم ٹی گائیڈ لائنز ترتیب دینے میں تعاون کرنے والے ایمپیرئل کالج آف لندن کے ایک اور ڈاکٹر بینجمین مولیش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت سے لوگ کسی ڈاکٹر کی رہنمائی کے بغیر اپنے طور پر بھی ایف ایم ٹی کر رہے ہیں، جو انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘

جنوبی افریقہ میں یونیورسٹی آف وٹز کی ڈاکٹر ہیریٹ ایتھریج نشاندہی کرتی ہیں کہ کسی ماہر ڈاکٹر اور گائیڈ لائنز کے بغیر ایف ایم ٹی نقصان دہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے غریب ممالک جہاں صحت سے متعلق سہولیات نہیں۔

چند ایک کیسز میں اس علاج سے لوگوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔

رشتے دار یا اجنبی میں سے کس کا پاخانہ؟

امریکہ اور یورپ کے علاوہ برازیل، جنوبی افریقہ اور انڈیا میں بھی یہ ٹرانسپلانٹ آزمائشی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔

بہت سے مریض کسی اور کے پاخانے کے بارے میں سوچ کر کراہت کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سماجی اور مذہبی عقائد کی وجہ سے بھی علاج کے اس طریقہ کو اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

انڈیا میں سر گنگا رام ہسپتال کے ڈاکٹر پیوش رنجن کہتے ہیں کہ ’لوگ بعض اوقات اس علاج پر کافی عجیب ردعل دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید ڈاکٹر مذاق کر رہے ہیں۔‘

ایف ایم ٹی، مریض
Getty Images

اپنے تجربے کی روشنی میں میںڈاکٹر پیوش نے بتایا کہ تاہم کچھ مریض کسی اجنبی کی بجائے اپنے رشتہ دار کے پاخانے کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے اس اجنبی کی مکمل سکریننگ ہوئی ہو اور وہ صحت مند بھی ہو۔

تاہم اس کے برعکس برطانیہ کے خیراتی ادارے ’کروہنز اینڈ کولائٹس‘ کے 200 سے زیادہ ممبران پر کیے گئے ایک پول کے نتائج کے مطابق زیادہ تر لوگ اپنے کسی جاننے والے پر ایسے اجنبی کے پاخانے کو ترجیح دیتے ہیں، جو سکریننگ کے عمل سے گزرا ہو۔

اس پول میں ابتدائی طور پر 37 فیصد افراد نے کہا کہ وہ ٹرانسپلانٹ کے آپشن کا انتخاب نہیں کریں گے لیکن اس عمل کے بارے میں مزید جاننے کے بعد ان افراد کی تعداد بڑھ کر 54 فیصد ہو گئی۔

یہ مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر بریٹ پالمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تعلیم بہت سی رکاوٹوں کو ختم کر سکتی ہے۔‘

دوسری جانب رک کو امید ہے کہ اس طریقے سے ان کی نایاب حالت کا علاج ممکن ہو سکے گا۔

’آج سے 10 برس قبل اگر کوئی مجھے یہ بتاتا کہ انسان کے پاخانے سے علاج ممکن ہے تو میں اس پر کبھی یقین نہ کرتا لیکن اب یہ ایک حقیقت ہے اور ایسا ہو رہا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.