دنیا کے وہ پانچ ’سمارٹ‘ شہر جہاں ٹیکنالوجی اور دیگر سہولیات زندگی آسان بنا رہی ہیں

’سمارٹ سٹی‘ کہلائے جانے والے یہ شہر باقیوں کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں۔ اس فہرست میں کینبرا تیسرے نمبر پر ہے جہاں 2045 تک شہر میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کاربن اخراج کو صفر کرنے کا ہدف بنایا گیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتی گرمی کے ساتھ ساتھ شہروں کے لیے اپنے باسیوں کو ایک محفوظ مستقبل مہیا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن وہیں کچھ شہروں میں ایسے اقدامات لیے گئے ہیں جن کی وجہ سے وہاں رہنے والوں کو اپنا مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے۔

’سمارٹ سٹی‘ کہلائے جانے والے یہ شہر باقیوں کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار منیجمنٹ ڈیویلپمنٹ (آئی ایم ڈی) بہترین معیارِ زندگی مہیا کرنے والے دنیا کے بہترین شہروں کی فہرست تیار کرتا ہے۔ اس فہرست کو تیار کرتے ہوئے ہر شہر کی معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ فہرست ’سمارٹ سٹیز اِنڈیکس‘ کہلاتی ہے۔

اس سال آئی ایم ڈی نے اپنی پانچویں فہرست ’سمارٹ سٹیز اِنڈیکس 2024‘ شائع کی ہے جس کے لیے 142 شہروں کے باسیوں کا انٹرویو لیا گیا ہے۔

ان انٹرویوز میں لوگوں سے ان کے شہر میں دستیاب صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات، سکیورٹی، ترقی کے مواقع، دیگر سرگرمیوں اور گورننس کے حوالے سے ان کی رائے لی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال جنوبی امریکہ یا افریقہ کا ایک بھی شہر چوٹی کے 20 شہروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ان 20 شہروں میں سے 17 یورپ یا ایشیا میں واقع ہیں ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ کیا چیز ان شہروں کو باقی جگہوں سے بہتر اور ’سمارٹ‘ بناتی ہے، ہم نے کچھ شہروں کے باسیوں سے بات کی۔

کینبرا، آسٹریلیا
Getty Images
آسٹریلیا کے دارالحکومت کو کم فضائی آلودگی کی وجہ سے بہت زیادہ اسکور ملا

کینبرا، آسٹریلیا

انڈیکس میں آسٹریلیا کا دارالحکومت کینبرا تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ اس فہرست میں شامل تین غیر ایشیائی یا یورپین شہروں میں سے ایک ہے۔

کینبرا کو اس کی صاف آب و ہوا اور ہریالی کے لیے امتیازی نمبرز ملے ہیں۔ اس کے علاوہ اس شہر کو یہاں بسنے والی اقلیتوں کو برابری کے سلوک اور ہم آہنگی کے احساس کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

تاہم یہ بات برائیڈن کیمپ بیل اور ڈیوڈ کیمپ بیل کے لیے حیران کن نہیں۔ یہ دونوں کینبرا میں واقع ایک کنسلٹنسی فرم ’برینڈ ریبیلین‘ کے بانی ہیں۔

برائیڈن کیمپ بیل کہتے ہیں کہ ’یہاں پر جو کمینوٹی کا احساس ہے وہ واقعی بہت الگ ہے۔ لوگوں میں سچ میں ایک دوسرے کی مدد اور خیال رکھنے کا جذبہ ہے۔ شاید اس ہی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا میں ایک اپنائیت سی ہے۔ لوگوں کو یہاں گھر جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کینبرا ڈیولپمنٹ کی جا رہی ہے کہ قدرتی نظام کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ماحول دوست پالیسیوں کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔

’کینبرا قابلِ تجدید تونائی کے شعبے میں بہت آگے ہے۔ شہر نے ہدف مقرر کیا ہے کہ سال 2045 تک شہر میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کاربن کا اخراج صفر کر دیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ شہر میں لیے جانے والے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکام اس بات کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

کینبرا کی حکومت نے شہر کو رہنے کے لیے بہترین بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو بھی اپنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ اقدامات شہر کو سٹارٹ اپس اور دیگر کاروبار کرنے والوں کے لیے پرکشش بنا رہا ہے۔

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ سمارٹ لائیٹنگ، صفائی اور ٹریفک کا نظام شہر کی کارکردگی اور دیگر خدمات کی فراہمی بہتر اور پائیدار بنا رہا ہے۔

تیز رفتار انٹرنیٹ کی بدولت لوگ کے پاس موقع ہے کہ وہ کہیں سے بھی کام کر سکتے ہیں اور آپس میں رابطے میں رہیں۔

سنگاپور

اس سال دو درجے ترقی کے بعد انڈیکس میں سنگاپور پانچویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

اس کی کئی وجوہات میں سے ایک سنگاپور میں سی سی ٹی وی کے استعمال کے باعث سکیورٹی کے نظام میں بہتری ہے۔

تیز تر انٹرنیٹ کی بدولت ٹریفک کو باآسانی مانیٹر کیا جا رہا ہے جبکہ آن لائن تعلیم کے حصول میں بھی مدد مل رہی ہے۔

اس کے علاوہ شکایات کی آن لائن اندراج اور دستاویزات کی پروسیسنگ کے باعث حکومتی بیوروکریسی کے ساتھ کام آسان ہو گئے ہیں۔

فردوس سوازنی طویل عرصے سنگاپور میں مقیم ہیں۔ وہ ’ڈالر بیورو‘ نامی ایک مالیاتی فرم کے بانی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں اوپن ڈیٹا کے استعمال اور بنا کیش کے نظام سے ٹریفک کی آمد و رفت میں بہت بہتری آئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت اور نجی کمپنیاں بڑی تعداد میں اس بارے میں اعداد و شمار شائع کرتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ ڈیٹا موبائل ایپلیکیشن بنانے والوں اور اربن پلاننگ پر کام والوں کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اس سے انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کو کس طرح مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

ان اعداد و شمار سے آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ ٹریفک کب، کہاں اور کیوں کم یا زیادہ ہوتا ہے۔

ان معلومات کی بنا پر لوگوں اپنے لیے بہتر راستہ منتخب کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے ان کا وقت بھی بچتا ہے اور شہر میں ٹریفِک کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے۔

کرک ویسٹاوے سنگاپور میں ایک جانے مانے ریسٹورنٹ کے شیف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں نے لوگوں کی روز مرہ کی زنگی میں بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں خاص طور پر ٹرانسپورٹیشن کے حوالے سے۔

کرک ویسٹاوے کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں ’پائیداری کے اصولوں کو ذہن میں رکھ کر ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں اربن فارمنگ بھی زندگی کا حصّہ بن گئی ہے۔‘

اربن فارمنگ سے مراد ہے شہر میں اناج کی کاشتکاری کرنا جس میں چھتوں پر یا کمیونٹی گارڈن وغیرہ میں اناج اگایا جاتا ہے۔ اربن فارمنگ میں مٹی اور پانی کا استعمال کم ہوتا ہے۔

یہاں واقع 'سوئسوٹل دی سٹامفرڈ' نامی ہوٹل کا 'ایکواپونکس فارم' اس اربن فارمنگ کی ایک مثال ہے۔ یہاں مٹی کے بغیر اور پانی کے کم سے کم استعمال کے ساتھ تازہ سبزیاں اور پھل اگائے جاتے ہیں۔

یہ ہوٹل ایک مثال ہے کہ کیسے بڑے شہروں میں ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بڑی مقدار میں اجناس اگایا جا سکتا ہے۔

لوزین، سوئٹزرلینڈ

لوزین سوئٹزرلینڈ کا ایک چھوٹا سا شہر ہونے کے با وجود اس انڈیکس میں ساتویں نمبر پر ہے۔

اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ کے دو اور شہر بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ زیورک کا سمارٹ سٹی کی لسٹ میں پہلا نمبر ہے جبکہ جینیوا چوتھی پوزیشن پر موجود ہے۔

تاہم لوزین کا اس فہرست میں صفِ اول کے دس شہروں میں شامل ہونا اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ یہ ایک بہت چھوٹا شہر ہے جس کی آبادی محض ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔

لوزین ٹورزم کمپنی کی مینجر اولیویا بسارٹ کا کہنا ہے کہ انھیں لوزین میں رہنا بہت پسند ہے کیونکہ ’یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں بڑے شہروں کی ہر سہولت موجود ہے۔‘

’سٹیشن سے لیک جینیوا نامی جھیل تک پہنچنے میں صرف 15 منٹ لگتے ہیں اور شہر کے مرکز تک جانا ہو تب بھی محض 15 منٹ لگتے ہیں۔‘

لوزین میں آب و ہوا کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور حکومت پارکس، باغات اور گرین سپیسز یعنی دیگر ہریالی سے بھرپور جگہوں پر سرمایا کاری کر رہی ہے۔

اس کی مثال ایک 360 ایکڑ پر پھیلا ایک گرین سپیس ہے جس میں ہر سال 1400 نئے درخت لگائے جا رہے ہیں۔

اس کے علاوہ شہر میں ڈیجیٹل اقدامات پر بھی توجہ دی جاتی ہے تاکہ مستقبل کو مستحکم بنایا جا سکے۔

لوزین حکومت کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر الیکزن بورنوز نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ رہائشیوں اور سیاحوں کو تمام تر سہولیات آن لائن فراہم کی جا سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ موبائل ایپ کے ذریعے لوگوں کو شہر کے بارے میں تمام ضروری معلومات مل جاتی ہیں۔ ’آپ کو کس کام کے لیے کہاں جانا ہے اور کس مسئلے کو کس سے حل کروانا ہے، یہ سب معلومات اس ایپ کے ذریعے آپ کو مل جائے گی۔‘

الیکزن بورنوز کا کہنا ہے کہ لوزین کے لوگوں کے لیے ای ایڈمنسٹریشن کی خدمات موجود ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن شی لی کر شہر میں وائن کہاں ملے گی یہ ساری معلومات لوگوں کو با آسانی آن لائن میسر ہے۔

لندن انگلینڈ
Getty Images

لندن، برطانیہ

اس سال انڈیکس میں لندن آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ ماضی میں یہ نمبر چھ پر تھا تاہم ابھی بھی اس کی رینکنگ بیشتر بڑے شہروں کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔

یہاں لوگوں کو آن لائن خدمات استعمال کرنے میں آسانی ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام اچھا ہے اور وائی فائی کی سہولت عام ہے۔ حتّیٰ کہ لوگ ووٹ بھی آن لائن ڈال سکتے ہیں۔

ایما اور ’وننگ بزنس‘ کے ساتھ منسلک ہیں اور لندن میں ای وی انفراسٹرکچر یعنی الیکٹرک وہیکل چارجنگ کے انفراسٹرکچر پر کام کرتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’لندن میں بس، ٹرین، کشتی اور سائیکل اور سکوٹر وغیرہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا نظام بہت زبردست ہے۔ لندن تفریح کے لیے بھی بہت اچھی جگہ ہے کیونکہ یہاں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ ریسٹورنٹ یا پب جا سکتے ہیں، نائٹ لائف، کنسرٹ اور کئی دیگر چیزوں ہیں جن سے آپ محظوظ ہو سکتے ہیں۔‘

’سمارٹ گرڈز میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ لندن ایک ’کلین سٹی‘ بننے کے لیے پر عزم ہے۔ اس ہی لیے ای وی انفراسٹرکچر میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ گرین سپیسز اور پیدل چلنے اور سائیکلنگ کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’لندن میں ٹرانسپورٹ کے محکمہ کی کوشش ہے کہ سال 2041 تک لوگ اپنا 80 فیصد سفر ایکٹو ٹریول یعنی پیدل یا سائیکل کے ذریعے کریں۔‘

اس کے علاوہ شہر میں جگہ جگہ ’الٹرا لو ایمیشن زون‘ قائم کیے گئے ہیں جہاں الیکٹرک گاڑیوں کے مقابلے میں دھویں کا اخراج کرنے والی گاڑیوں کو گزرنے کے لیے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔

ابو ظہبی، متحدہ عرب امارات

تین درجے ترقی کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی ریاست ابو ظہبی اس سال انڈیکس میں دسویں نمبر پر ہے۔

ٹرانسپورٹیشن کا نظام، آن لائن بکنگ سسٹم، معاشی طور پر کمزور علاقوں میں بھی صفائی کا خاص خیال اور سکولوں میں ڈیجیٹل سکِلز سکھانے پر خاص توجہ کی وجہ سے شہر کی رینکنگ میں بہتری آئی ہے۔

ابو ظہبی کی درجہ بندی میں بہتری کی ایک وجہ یہ بھی کہ مسلک کے لوگ یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔

یہاں کے رہائشیوں کے لیے شہر کے ٹراسپورٹیشن کے نظام میں کئی ’سمارٹ سہولتیں‘ موجود ہیں۔

دھانون شری رام مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) شعبے سے منسلک ہیں اور ابو ظہبی میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شہر کے انفرا سٹرکچر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا خاص دھیان رکھا جا رہا ہے۔ گاڑیاں تیزی سے چارج ہو جاتی ہیں اور آنا جانا بہت آسان ہو گیا ہے۔‘

'ابو ظہبی کے جدید انٹیلی جینٹ ٹرانسپورٹ سینٹر اس بات کو یقینی بناتا ہے سڑک، سمندر، ہوا اور ریل سب کا ٹرانسپورٹیشن نظام ہموار طریقے سے چلتا رہے۔‘

’اس ایڈوانس نظام کی بدولت ٹریفک کا دباؤ بہت کم ہو گیا ہے اور ماحول کو بھی کم سے کم نقصان پہنچتا ہے۔‘

دھانون شری رام ابو ظہبی کے ’مسدار سٹی‘ نامی ایک نئے علاقے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کا ’اربن ڈیزائن‘ مثالی ہے۔

’اس علاقے کی تعمیر میں روایتی عرب عناصر کے ساتھ ساتھ ٹیکنا لوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں شدید گرمی والے مہینوں میں بھی قدرتی طور پر ماحول قدرے ٹھنڈا رہتا ہے۔‘

ان کے مطابق یہاں چھتوں پر سولر پینلز نصب ہیں۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کا شمار مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر شمسی توانائی استعمال کرنے والے علاقوں میں ہوتا ہے۔

مسدار سٹی کی زیادہ تر عمارتوں کو ’لیڈ گولڈ یا پلیٹینم‘ کا سرٹیفیکیٹ ملا ہوا ہے۔ لیڈ سرٹیفیکیٹ ان عمارات کو دیا جاتا ہے جن کو اس انداز میں تعمیر کیا جاتا ہے کہ وہ توانائی اور پانی 40 فیصد کم استعمال کرتی ہے۔

اگرچہ اس علاقے کی تعمیر میں امید سے زیادہ وقت لگ رہا ہے امید ہے کہ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد یہاں 40 ہزار رہ سکیں گے۔

دھانون شری رام کہتے ہیں کہ ’ابو ظہبی وہ جگہ ہے جہاں ٹیکنالوجی اور پائیداری کا ملاپ دکھتا ہے جس سے مجھ جیسے رہائشیوں کی زندگی آسان اور خوشحال ہو گئی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.