ثانیہ زہرہ کے شوہر گرفتار: ’ثانیہ میرے بچوں کی ماں تھی، اسے مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘

ثانیہ زہرہ کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ان کی مدعیت میں 11 جولائی کو ثانیہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں نوجوان لڑکی ثانیہ زہرہ کی موت کے گیارہ دن بعد پولیس نے ان کے شوہر علی رضا کو گرفتار کر لیا ہے۔

گرفتاری سے قبل ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی رضا نے کہا کہ ثانیہ ان کے بچوں کی ماں تھیں اور وہ انھیں مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

نو جولائی کی صبح نو بجے 20 سالہ ثانیہ زہرہ کی لاش ان کے سسرال کے گھر سے ملی تھی۔

ثانیہ زہرہ کی لاش ملنے کے بعد انھیں بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا گیا تھا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی کر کے ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔

ثانیہ زہرہ کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ان کی مدعیت میں 11 جولائی کو ثانیہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ثانیہ زہرہ کی موت نے ملک میں خواتین کی حالت زار اور گھریلو تشدد کے حوالے سے بحث چھیڑ دی تھی۔

’جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کوئی اعضا فریکچر نہیں‘

ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر نے اس کیس پر بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے والدین کو اسی وقت پوسٹ مارٹم کرانے کا کہا تو انھوں نے ایف آئی آر درج کرانے اور پوسٹ مارٹم سے انکار کر دیا۔‘

’میں نے ان کے گھر جا کر ان سے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرائیں لیکن فیملی نے انکار کر دیا اور لاش کو دفنا دیا گیا۔‘

ڈی آئی جی ملتان نے بتایا کہ سنیچر کے روز قبر کشائی کے بعد ثانیہ زہرہ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

’ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں چند چیزیں واضح ہیں: جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، کسی اعضا میں کوئی فریکچر نہیں جبکہ موت کی وجہ گلا گھٹنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ثانیہ کو مار کر لٹکایا گیا لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ موت کی وجہ گلے کا گھٹنا ہے۔

’ہم نے معدے سے نمونے بھی لیے ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ ثانیہ زہرہ کو مرنے سے پہلے کوئی نشہ آور چیز یا زہر تو نہیں دیا گیا تھا۔ ثانیہ کے ناخنوں کے نمونے لیے گئے ہیں، پھندے کے لیے جو رسی استعمال کی گئی، اس کی بھی جانچ کی جا رہی ہے، اگر کسی اور نے پھندا دیا تو اس کا بھی پتا چل جائے گا۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’نشہ آور چیز کھلا کر یا زہر دینے سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں آ جائے گی جبکہ ڈی این اے رپورٹ 20 دن تک آئے گی۔‘

’بیٹی کے سسرال میں تحفظ کا قانون بننا چاہیے‘

ثانیہ زہرہ کے والد سید عباس شاہ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’پولیس تحقیقات کر کے مجھے یہ بتائے کہ میری بیٹی کا قتل ہوا یا اس نے خود کشی کی اور اگر اس نے خود کشی بھی کی ہے تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘

انھوں نے اس بات پر بار بار زور دیتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کو قتل کیا گیا، کہا کہ ’پولیس تحقیقات کرے کہ سسرال والوں نے ایسا کیا کیا کہ میری بیٹی خود کشی پر مجبور ہو گئی۔ مجھے اپنی بیٹی کی موت کی صاف اور شفاف تحقیقات چاہیے۔‘

انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سید عباس شاہ نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں لڑکیوں کو کبھی تیزاب پھینک کر تو کبھی آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، ان تمام واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بیٹی کے سسرال میں تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ 9 جون کو ہوا مگر بہت زیادہ احتجاج کے بعد پولیس نے ایف آئی آر 11 جون کو درج کی لیکن ابھی تک ملزم، اس کے اہلخانہ اور گھر میں سے کسی بھی ملازم تک کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے پہلے ہی دن سسرال سے لوگوں کو حراست میں لیا تھا لیکن ثانیہ کے والد کی درخواست پر انھیں رہا کر دیا گیا۔

’انھوں نے کہا کہ ہم نے ایف آئی آر نہیں کرانی، انھیں چھوڑ دیا جائے تو ہم نے انھیں چھوڑ دیا۔ پھر سوشل میڈیا پر اتنا شور مچا کے وہ لوگ ڈر کر کہیں بھاگ گئے ہیں لیکن ہم انھیں پکڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘

’ثانیہ زہرہ موت کے وقت حاملہ تھیں‘

اگرچہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کے نشانات ظاہر نہیں ہوئے تاہم ثانیہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق جب ثانیہ زہرا کی لاش ان کے سسرال کے گھر سے ملی تو ان زبان کٹی ہوئی تھی اور جبڑا ٹوٹا ہوا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ زہرہ کی ٹانگوں پر رسی سے باندھنے کے نشانات کے علاوہ تشدد کے بھی نشانات پائے گئے۔

درج ایف آئی آر کے مطابق ثانیہ کے دائیں رخسار پر خون کے جمنے کے نشانات کے ساتھ ساتھ دائیں آنکھ اور کہنیاں بھی زخمی تھیں۔

ثانیہ زہرہ کے والد کے مطابق ان کی بیٹی موت کے وقت حاملہ تھیں۔

ایف آئی آر میں ثانیہ کے والد نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی کا شوہر اکثر اپنی بیوی پر تشدد کرتا تھا اور مار پیٹ کر کے انھیں میکے بھیج دیتا تھا، اسی دوران ثانیہ نے اپنے شوہر کے خلاف فیملی کورٹ میں نان و نفقہ اور حق مہر کا مقدمہ بھی درج کرایا لیکن لیکن بچوں کی خاطر صلح کر لی۔

ثانیہ زہرہ کے والد سید علی عباس شاہ نے درج ایف آئی آر میں یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کی بیٹی کا شوہر ان پر دباؤ ڈالتا تھا کہ ثانیہ کے حصے کی جائیداد ان کے حوالے کی جائے ورنہ وہ ثانیہ کو جان سے مار دے گا۔

دوسری جانب ثانیہ کے شوہر علی رضا نے گرفتاری سے قبل اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کا ثانیہ کے ساتھ جائیداد کا کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ تعلق بہت اچھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’یہ ہی حقیقت اور مردوں کا اصلی چہرہ ہے‘

ثانیہ زہرہ کی موت کا یہ واقعہ جب سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر ان کے نام کا ہیش ٹیگ ٹریڈ کرنے لگا۔ صارفین جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے، نے پاکستان میں گھریلو تشدد اور خواتین کے حق وراثت جیسے مسائل پر بات چیت شروع کر دی۔

عمارہ احمد نے لکھا کہ ’میڈیا اور معروف شخصیات کی جانب سے شور تو مچایا جائے گا لیکن قانونی نظام میں اصلاحات اور نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے بہت سے واقعات میں سے ایک ہے جو روز سامنے آتے ہیں۔‘

شانی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’جب بھی پاکستان میں خواتین کے حق وراثت پر بات کی جاتی ہے تو ہر مرد یہ ہی کہتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کو ان کا حق دیتا ہے۔

https://twitter.com/ThisisOshaz_/status/1811432857891660176

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر خواتین اپنی جائیداد اور قیمتی اثاثے شوہروں یا بھائیوں کو نہیں دیتی تو ان کے ساتھ بھی یہ یہی ہوتا ہے جو ثانیہ کے کیس میں ہوا۔ یہ حقیقت اور مردوں کا اصل چہرہ ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’یہ کیس پاکستان میں گھریلو تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ مرد اپنے غیر معقول مطالبات کا پورا ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اپنا غصہ اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں اور اس قدر خوفناک جرم کرنے کے بعد بھی ان کے خاندان ان کی حفاظت کرتے ہیں۔‘

آمنہ نے لکھا ’گھریلو تشدد کا ہر معاملہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین یہ محسوس کرتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان کی بیٹی کی شادی ہونا لازمی ہے۔ زندہ یا مردہ۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.