کپیسِٹی پیمنٹ: حکومت نجی بجلی گھروں کو کروڑوں کی ادائیگیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا کر سکتی ہے

پاکستان کی حکومت اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز یا آئی پی پیز کے درمیان معاہدے ہمیشہ سے ہی متنازع رہے ہیں جن کے تحت بجلی فراہم نہ کرنے کی صورت میں بھی انھیں فعال رکھنے کے لیے ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ تو یہ کپیسِٹی پیمنٹ کیا ہوتی ہے، حکومت ایسا کرنے پر کیوں مجبور ہے اور اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے یا نہیں؟
capacity
Getty Images

پاکستان میں آج کل ہر کوئی بجلی کے بلوں کا رونا رو رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) یعنی نجی بجلی گھروں کو کتنی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور آیا وہ اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق بجلی بنا بھی نہیں رہی ہیں۔

کپیسِٹی پیمنٹ یعنی ان نجی بجلی گھروں کو ادائیگیوں کا معاملہ نیا نہیں تاہم حال ہی میں اس بحث کا ایک بار پھر آغاز اس وقت ہوا جب سابق نگران وفاقی وزیر برائے کامرس اور انڈسٹریز، سرماری کاری گوہر اعجاز کی جانب سے یہ دعوٰی سامنے آیا کہ حکومت ایک آئی پی پی سے 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جب کہ آئی پی پیز کو کل دو ہزار ارب سالانہ کی ادئیگیاں کی جا رہی ہیں۔

تو یہ سارا معاملہ ہے کیا اور کیا حکومت واقعی آئی پی پیز کو سالانہ دو ہزار ارب روپے کپیسِٹی پیمنت کی مد میں دے رہی ہے۔

لیکن پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کپیسٹی پیمنٹ ہوتی کیا ہے؟

آئی پی پیز
Getty Images

کپیسٹی پیمنٹ کیا ہے؟

نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 90 آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ جب آپ کا بل آتا ہے تو اس میں کل استعمال کیے گئے یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔

کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔

مثال کے طور پر اگر سردیوں میں بجلی کی مانگ 10 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ گرمیوں میں یہ بڑھ کر 20 ہزار تک پہنچ جائے تو ایسی صورت میں حکومت کو پورے سال 20 ہزار میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنی پڑے گی تاکہ بوقتہ ضرورت بجلی کی مانگ ہوری کی جاسکے۔

لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں ہے تو ایسے وقت ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

اس ادائیگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاور پلانٹ لگانے میں ایک خطیر سرمایہ لگتا ہے اور اسی لیے حکومت سرمایہ کاروں کو مختلف مراعات دینے کا وعدہ کرتی ہے جن میں ان کا یقینی منافع، پلانٹ لگانے کے لیے حاصل کردہ قرض اور اس پر دیے جانے والے سود کی ادائیگی میں مدد بھی شامل ہے۔

تاہم گوہر اعجاز کا دعوٰی ہے کہ 2015 میں بجلی کی کھپت اوسطاً 13 ہزار میگاواٹ تھی جبکہ کل پیداواری صلاحیت 20 ہزار تھی جس کے لیے 200 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں 2024 میں بجلی کی مانگ کی اوسط 13 ہزار میگاواٹ ہی ہے تاہم اس دوران پیداوار بڑھ کر 43 ہزار سے بھی زیادہ پر آگئی ہے جس میں 23 ہزار 400 میگاواٹ کے نئے آئی پی پیز شامل ہیں۔

ان کے مطابق پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باعث کپیسٹی پیمنٹ 10 گنا بڑھ کر دو ہزار ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔

گوہر اعجاز کے مطابق 52 فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت جبکہ بقایا 48 فیصد میں نجی اور سی پیک کے تحت چلنے والے پلانٹس شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے ہوں گے۔

اس کے علاوہ انھوں یہ بھی دعوٰی کیا کہ حکومت کو بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریباً 35 روپے پڑتی ہے جس میں 10 روپے 60 پیسے فیول کے اور 24 روپے کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔ ان کا کہنا کہ تھا تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ رہی ہیں اس کے باوجود حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

حکومت بند بجلی گھروں کو بھی ادائیگی کرنے پر مجبور کیوں ہے؟

وفاقی وزیرِ پانی و بجلی اویس لغاری نے مختلف انٹرویوز میں دعوی کیا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدے انتہائی مجبوری کی حالت میں کیے گئے تھے کیونکہ اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران تھا۔

انھوں نے ادائیگیوں میں اضافے کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ایک حصہ نیشنل ٹرانسمیشن لائن پر آنے والی لاگت ہے جو تقریباً تین روپے فی یونٹ ہے، جبکہ تقسیم کار کمپنییں پانچ روپے فی یونٹ لیتی ہیں۔

’اس کے علاوہ انرجی کوسٹ آٹھ سے دس روپے فی یونٹ ہے۔ باقی 18 روپے آپ ان پلانٹس کا کرایہ دے رہے ہیں ان پلانٹس کو لگانے کا سود اور قرضے کی واپسی، روپے اور ڈالر ریٹ کا فرق، اور اس کا منافع ہے جو سرمایہ کاروں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو کپیسٹی پیمنٹ کہتے ہیں۔‘

اویس لغاری کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر ساہیوال پاور پلانٹ جب 2015 یا 2016 میں لگایا گیا تو اس کی فی یونٹ کپیسٹی پیمنٹ تین روپے کے قریب تھی، آج وہ بڑھ کر 12 روپے ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً 80 ارب روپے کی کییپیسٹی پیمنٹ ان فرنس آئل پلانٹس کو جاتی ہے جو 2002 اور 1994 کی پالیسی کے تحت لگائے گئے تھے۔

ان کے مطابق تیل کی زیادہ قیمت کے باعث یہ پلانٹس استعمال نہیں ہوتے۔ اویس لغاری کا کہنا تھا کہ حکومت ان پلانٹس کی مکمل پیمنٹ کرکے انھیں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دیگر آئی پی پیز سے بھی بات کی جائے گی۔

حکومت چھوٹے بجلی گھروں سے چھٹکارا کیسے پا سکتی ہے؟

ایس ڈی پی آئی میں انرجی پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر خالد ولید کے مطابق اس معاملے میں حکومت ایک مشکل میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تویہ کپیسٹی چارجز پوری معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ ٹیرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت پر لازم ہے کہ اس نے جس مدت کے لیے یہ معاہدے سائن کیے ہیں، اگر انھیں اس سے پہلے جبراً ختم کیا جاتا ہے تو وہ بھی فارن ڈائیریکٹ انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) اور کوئی بھی سرمایہ کار یہاں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔

’رہی بات کہ کیا حکومت اس بارے میں آئندہ کچھ مختلف کر سکتی ہے تو اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر اپ کسی بھی معاہدے کو دیکھیں یا لائسنسز کو دیکھیں تو ان کے لائسنسز میں ایک چیز لکھی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ کپیسٹی پیمنٹس ’ڈیپینڈیبل‘ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یعنی ایک مجموعی کپیسٹی ہے اور ایک وہ کپیسٹی جو آپ واقعی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس ڈیپینڈیبل کپیسٹی کا آڈٹ حکومت کر سکتی ہے۔ اس لیے جو پاور پلانٹس سنہ 1994 کی پالیسی کے تحت لگے ہوئے ہیں ان کا باقاعدگی سے آڈٹ ہونا چاہیے، تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ ان کی ڈیپینڈیبل کاپیسٹی کتنی ہے اور کیا یہ کپیسٹی چارجز لینے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دوسری چیز یہ کی جا سکتی ہے کہ ان پاور پروڈیوسرز کو جلدی ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 1994 والے جو پلانٹس ہیں وہ تو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں کچھ ریٹائر بھی ہو گئے ہیں۔ اگر حکومت کو ان کے ساتھ معاہدے دوبارہ کرنے ہیں تو ان کے قواعد و ضوابط بھی اپ ڈیٹ ہونے چاہییں۔

تیسری چیز پوری دنیا میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ آف تھرمل ایسٹس یا خاص طور پر کوئلے کے پاور پلانٹس ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایشیائی ڈیویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے انرجی ٹرانزیشن میکنزم کے ذریعے بینک آپ کو قرضے دیتا ہے اور یہ قرض حکومت استعمال کرتی ہے تاکہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو خرید کر انھیں پائیدار توانائی پیدا کرنے والے بجلی گھروں میں تبدیل کر دیا جائے۔

’اس کے علاوہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی طریقے سے ڈیمانڈ بڑھائی جائے اور یوٹیلائزیشن ریٹ بڑھایا جائے۔ جتنی ڈیمانڈ بڑھے گا اتنے کپیسٹی چارجز یونٹ ٹرمز میں کم ہوتے جائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت فوری طور پر حکومت معاہدے ختم نہیں کر سکتی لیکن انھیں ریوائز کیا جا سکتا ہے۔

’ان کپیسٹی چارجز میں 50 فیصد سے زیادہ شیئر گردشی قرضوں، ان پر سود، ایکویٹی پر رٹرن کی مد میں ہے اور تمام ہی پاکستان میں شرح سود، عالمی شرح سود، مہنگائی، اور ایکسچینج ریٹ سے جڑے ہیں۔ تو اگر یہ کم ہو جائیں اس صورت میں بھی کپیسٹی چارجز میں کمی آ سکتی ہے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘

معاشی ماہر عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ اگر آج کی بات کریں تو مسئلہ آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کا نہیں بلکہ اُن گردشی قرضوں کا ہے جن کا سامنا ہماری معیشت کو ہے۔

عمار حبیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2015 کے بعد جو بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے جن میں جوہری منصوبے، ڈیم، یا دیگر مُمالک کی مدد سے شروع کیے جانے والے منصوبے تمام کی مدد میں لیے جانے والے قرضے اور پھر ان پر لگنے والے سود کی وجہ سے حالات مُشکل ہوئے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حاصل کردہ قرضے سود کے ساتھ واپس کرنے پڑ رہے ہیں۔ ’پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے حکومت کو اب اپنے قرضوں میں شرح سود میں اضافے کا سامنا ہے۔‘

کیا اب اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

اس سوال کے جواب میں عمار حبیب کا کہنا ہے کہ ’ہم جو ایک کام کر سکتے ہیں یا جس کے کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ حکومت اُن قرضوں کی واپسی کی تاریخ میں اضافے کی کوشش کرے جن کی ادائیگی اُسے اس سال کرنی تھی۔‘

’ایسا کرنے سے حکومت کو بہتر انداز میں منصوبہ بندی کے لے وقت مل جائے گا اور مُلکی معیشت بھی مستحکم ہو سکے گی۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.