پنجاب: وہ صوبہ جس کے بغیر انڈیا کی اولمپکس تاریخ ادھوری ہی رہے گی

اگرچہ پنجاب انڈیا کی ایک زرعی ریاست ہے لیکن جانیے کہ اولمپکس میں جانے والے انڈین دستوں میں اس ریاست کے کھلاڑیوں کی شمولیت لازمی کیوں سمجھی جاتی ہے۔

پنجاب انڈیا کی ایک ایسی ریاست ہے جو آزادی سے پہلے بھی اپنے کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی کے لیے مشہور تھی۔

تقسیم ہند کے سانحے اور انتہا پسندی کا دور دیکھنے کے بعد یہ ریاست منشیات اور نوجوانوں کی نقل مکانی کے باوجود کھیلوں میں سب سے آگے ہے۔

اگرچہ پنجاب ایک ایسی ریاست ہے جہاں زیادہ تر افراد کا روزگار زراعت سے جڑا ہے لیکن اولمپکس میں میڈل جیتنے والوں کی فہرست میں بھی اس کا نام سنہری حروف میں درج ہے۔

اولمپکس میں انڈیا کی شرکت کا سفر 1900 سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت نارمن پریچرڈ نے انفرادی سطح پر انڈیا کی نمائندگی کرتے ہوئے ایتھلیٹکس میں دو چاندی کے تمغے جیتے تھے۔

اس کے بعد وہ وقت آیا جب انڈیا اولمپکس میں اپنے کھلاڑیوں کا باضابطہ دستہ بھیجنے لگا۔ سنہ 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر کل سات تمغے جیتے۔

انڈیا نے اب تک جتنے کھلاڑی اولمپکس میں بھیجے ہیں ان میں سے ایک تہائی کا تعلق پنجاب سے ہے۔

پنجاب کے کھلاڑی
Getty Images
ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد ٹیم کے کھلاڑی گولڈن ٹیمپل پہنچے

اولمپکس میں پنجاب کے کتنے کھلاڑی گئے

سنہ 1900 میں پیرس اولمپکس سے لے کر 2020 کے ٹوکیو اولمپکس تک، انڈیا نے کل 35 تمغے جیتے ہیں۔ ان میں انفرادی مقابلوں میں 23 جبکہ انڈین مردوں کی ہاکی ٹیم کے 12 تمغے شامل ہیں۔

اولمپکس میں انڈیا کے تمغے جیتنے والے کھلاڑیوں کی کل تعداد 233 ہے۔ ان میں سے انفرادی تمغہ جیتنے والوں کی تعداد 23 اور ٹیم کی سطح پر تمغہ جیتنے والوں کی تعداد 210 ہے۔ واضح رہے کہ اولمپکس میں تمغے جیتنے والوں میں سے 76 کا تعلق پنجاب سے ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا کے ہر تیسرے میڈلسٹ کا تعلق پنجاب سے ہے۔

جہاں تک اولمپکس کے تمغوں کا تعلق ہے تو انڈیا کے کل 35 تمغوں میں سے 13 پنجاب کے کھلاڑیوں نے جیتے ہیں، جو کل تمغوں کا تقریباً 40 فیصد ہے۔

انفرادی مقابلوں میں انڈیا کا پہلا طلائی تمغہ بھی پنجاب کے حصے میں آیا جب شوٹر ابھینو بندرا نے سنہ 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ اسی طرح ہاکی میں انڈیا کے جیتنے والے تمام 12 تمغوں میں پنجاب کا بڑا حصہ رہا ہے۔

کرنل بلبیر سنگھ سنہ 1968 کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی مردوں کی ہاکی ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے آزاد ہونے سے پہلے ہی پنجاب نے کھیلوں پر غلبہ حاصل کر رکھا تھا جو آج بھی برقرار ہے۔ ٹوکیو اولمپکس 2020 میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی انڈین مردوں کی ہاکی ٹیم کے نصف سے زیادہ کھلاڑی پنجاب سے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب نے نہ صرف ہاکی بلکہ ایتھلیٹکس اور شوٹنگ میں بھی عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔‘

سابق اولمپین کرنل بلبیر سنگھ کہتے ہیں: ’اولمپکس میں انڈین ہاکی کے ڈیبیو یعنی 1928 سے لے کر آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا جب ٹیم میں پنجاب کا کوئی کھلاڑی نہ رہا ہو۔‘

کرنل بلبیر سنگھ کو کھیلوں کے گرانقدر ارجن ایوارڈ سے اس وقت نوازا گیا جب وہ انڈین ملٹری اکیڈمی میں جنٹلمین کیڈٹ کے طور پر تربیت حاصل کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں: ’پنجاب میں ہاکی کو مقبول بنانے میں فوج نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سنسار پور کو ہاکی میں اولمپکس میڈل جیتنے والوں کے گاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے، جو جالندھر چھاؤنی کے قریب ہونے کی وجہ سے ہاکی کا پاور ہاؤس بن گیا۔‘

پنجاب نے نہ صرف ہاکی میں بلکہ ایتھلیٹکس میں اور انڈیا کی تقریباً ہر اولمپکس ٹیم میں مستقل حصہ ڈالا ہے۔ سنہ 1960 کی دہائی سے لے کر آج تک پنجاب نے اولمپکس کے لیے شوٹنگ دستے میں مضبوط موجودگی برقرار رکھی ہے۔ اولمپکس میں شامل دیگر کھیلوں میں بھی پنجاب کے کھلاڑی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

اولمپکس
Getty Images
اولمپک کھیلوں میں پنجاب کا سفر 1924 کے پیرس اولمپکس میں دلیپ سنگھ کی لمبی چھلانگ سے شروع ہوا اور پھر اس سفر میں محمد سلیم کا نام بھی شامل ہو گیا جو لان ٹینس کے کھلاڑی تھے

تقسیم سے پہلے اولمپکس میں پنجاب کا حصہ

اولمپک کھیلوں میں پنجاب کا سفر 1924 کے پیرس اولمپکس میں دلیپ سنگھ کی لمبی چھلانگ سے شروع ہوا اور پھر اس سفر میں محمد سلیم کا نام بھی شامل ہو گیا جو لان ٹینس کے کھلاڑی تھے۔ چار سال بعد اگلا اولمپکس سنہ 1928 میں ایمسٹرڈیم میں منعقد ہوا، جس میں انڈیا نے مردوں کی ہاکی کی بدولت اپنا پہلا اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا۔

انڈیا کی 16 رکنی ٹیم میں غیر منقسم پنجاب کے تین کھلاڑی فیروز خان، کیہر سنگھ گل اور برومی ایرک پُنّیگر شامل تھے۔ فیروز اور کیہر سنگھ لاہور کالج کے ہاکی گریجویٹ تھے، جبکہ پنیگر نارتھ ویسٹرن ریلوے پنجاب کے ملازم تھے اور لاہور میں تعینات تھے۔ پنیگر کے پاس پہلے نائب کپتان کی ذمہ داری تھی لیکن جے پال سنگھ موندرا کے جانے کے بعد انھیں ہاکی ٹیم کا کپتان بننے کا موقع بھی ملا۔

انڈین ہاکی کا آغاز کلکتہ (اب کولکتہ) سے ہوا تھا اور 19ویں صدی کے اوائل میں اینگلو انڈین کھلاڑیوں کی شراکت کی وجہ سے اسے فروغ ملا۔ اس کے بعد ہاکی جلد ہی راجے رجواڑے اور دوسرے شہروں میں مقبول ہو گئی۔ سنہ 1930 کی دہائی میں پنجاب ہاکی کا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھرا۔ پنجاب پولیس میں ملازمت کے مواقع اور پنجاب یونیورسٹی کے کالجوں میں سخت مقابلے کی وجہ سے انڈین ہاکی کو ایک نئی جہت ملی۔

سنہ 1932 میں جب اولمپک گیمز سے قبل نیشنل ہاکی چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا تو پنجاب چیمپئن بنا اور اس چیمپئن ٹیم کے سات کھلاڑی اولمپکس کے لیے 15 رکنی ٹیم کا حصہ بنے۔ انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم نے 1932 کے اولمپکس میں لگاتار دوسری بار سونے کا تمغہ جیتا۔

اس ٹیم کے کپتان سید لعل شاہ بخاری تھے جنھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا اور پنجاب پروونشل سروسز میں کام کیا۔

اس ٹیم میں شامل پنجاب کے سات کھلاڑیوں میں سے پانچ سید شاہ بخاری، گرمیت سنگھ، سید محمد جعفر، مسعود علی خان منہاس اور سردار محمد اسلمنے لاہور میں اپنے کالج کے دنوں میں ہاکی میں مہارت حاصل کی تھی۔ باقی دو کھلاڑی بروم ایرک پنیگر اور آرتھر چارلس کا تعلق نارتھ ویسٹرن ریلوے پنجاب سے تھا۔

سنہ 1936 میں قومی چیمپئن شپ میں پنجاب بنگال سے ہار گیا تھا اور اسی میچ کی بنیاد پر اولمپک ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب ہونا تھا۔ اس کے نتیجے میں برلن اولمپکس کے لیے 19 رکنی انڈین ٹیم میں پنجاب کے صرف تین کھلاڑیوں کو موقع ملا۔ لیکن اس طرح بننے والی ٹیم نے انڈیا کو مردوں کی ہاکی میں مسلسل تیسرا طلائی تمغہ دلایا۔

اس ٹیم میں پنجاب کے سید محمد جعفر، علی اقتدار شاہ دارا اور گروچرن سنگھ گریوال تین کھلاڑی شامل تھے۔ یہ تینوں کھلاڑی گورنمنٹ کالج لاہور کی پیداوار تھے۔

پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس اور کھیلوں کے سرپرست آر ایس گِل کہتے ہیں: ’ہاکی انڈیا میں انگریزوں نے شروع کی تھی اور آہستہ آہستہ ہاکی انڈین فوج کے ذریعے پنجاب تک پہنچی۔ ان کی اچھی جسمانی ساخت اور لڑاکا طبیعت کی وجہ سے پنجاب کے لوگوں نے اس کھیل کو خوب اپنایا اور پھر پنجاب ہاکی کا پاور ہاؤس بن گیا۔ آزادی سے پہلے پنجاب میں لاہور تعلیم کا سب سے بڑا مرکز تھا۔‘

'لاہور کے کالجوں نے ہاکی کے فروغ میں بڑا کردار ادا کیا۔ آزادی سے پہلے پنجاب کے زیادہ تر ہاکی کھلاڑی انڈیا کی اولمپکس ٹیم کا حصہ بنتے تھے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کے انٹر ہاکی سسٹم کی پیداوار ہوا کرتے تھے۔'

تقسیم ہند سے پہلے اولمپک کھیلوں میں انڈیا کو تمغے ملنے کا واحد ذریعہ ہاکی تھا۔ لیکن دیگر کھیلوں میں پنجاب کے کھلاڑیوں نے بطور خاص ایتھلیٹکس، سائیکلنگ، لان ٹینس اور ریسلنگ میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اور چیف ایگزیکٹو آفیسر راجہ کے ایس سدھو کا کہنا ہے کہ ’پٹیالہ کے شاہی خاندان نے انڈیا کے اولمپک سفر میں بہت بڑا تعاون کیا، جس سے پنجاب میں کھیلوں کو رفتار ملی ہے۔‘

انڈین اولمپکس ایسوسی ایشن (آئی او اے) 97 سال سے وجود رکھتی ہے اور اس عرصے میں پٹیالہ خاندان سے تعلق رکھنے والے مہاراجہ بھوپندر سنگھ، مہاراجہ یادوندر سنگھ اور راجہ بھالیندر سنگھ کل 52 سال تک اس کے سربراہ رہے۔ راجہ رندھیر سنگھ 25 سال تک اس کے جنرل سیکرٹری رہے۔

گولڈ میڈل
Getty Images
1948 کے لندن اولمپکس میں انڈیا نے برطانیہ کو ہرا کر طلاعی تمغہ حاصل کیا

تقسیم کے بعد اولمپکس میں پنجاب کا حصہ

1947 میں آزادی تک انڈین ٹیم نے اولمپک گیمز میں برطانوی انڈیا کے جھنڈے تلے ایک کالونی کے طور پر حصہ لیا۔ آزادی کے بعد انڈین ٹیم کو 1948 کے لندن اولمپکس میں انڈین پرچم تلے اولمپکس میں جانے کا پہلا موقع ملا۔

پنجاب نے سنہ 1946 میں نیشنل ہاکی چیمپئن شپ جیتی اور آزادی ملنے سے پہلے 1947 میں بھی چیمپئن بنی لیکن اگست 1947 میں ریڈکلف لائن نے برصغیر پاک و ہند کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کردیا۔

اس کے ساتھ ہی پنجاب بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ مشرقی پنجاب بھارتی علاقے میں آ گیا جبکہ مغربی پنجاب پاکستان کا حصہ بن گیا۔ تقسیم کی وجہ سے دونوں طرف کے گھروں کی ایک بڑی تعداد تباہ ہو گئی اور انھیں نئے ملک میں جانا پڑا۔ اس دوران دونوں طرف سے لاکھوں لوگ مارے گئے اور پنجاب کو اس تباہی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

برصغیر کی تقسیم سے پنجاب میں ہاکی کو بہت بڑا دھچکا لگا کیونکہ 1948 کے لندن اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے زیادہ تر کھلاڑی لاہور میں ہی رہے۔ کچھ کھلاڑیوں کے خاندان کلکتہ، بمبئی اور دہلی میں آباد تھے جو بعد میں انڈین ٹیم کا حصہ بنے۔

1948 میں ہونے والی قومی چیمپئن شپ میں دفاعی چیمپئن پنجاب کو بری طرح شکست ہوئی اور ابتدائی راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی۔

1948 کے لندن اولمپکس کے لیے پنجاب کے ترلوچن سنگھ باوا، بلبیر سنگھ سینیئر، گرہانندن سنگھ اور امر کمار 20 رکنی دستے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

گرہانندن سنگھ (نندی سنگھ) اور امر کمار دونوں نے 1947 میں صوبہ پنجاب سے قومی چیمپئن شپ کھیلی جو تقسیم کے بعد بالترتیب مغربی بنگال اور ممبئی میں آباد ہو گئے۔

ایک سال بعد 12 اگست 1948 کو انڈین مردوں کی ہاکی ٹیم کے لیے فخر کا ایک لمحہ آیا جب اس نے آزاد انڈیا کے لیے پہلا اولمپک تمغہ جیتا تھا۔ لندن میں ہونے والے فائنل میچ میں بھارت نے برطانیہ کو چار صفر سے شکست دی اور پنجاب کے کھلاڑیوں نے تین گول کیے۔ بلبیر سنگھ نے دو جبکہ ترلوچن سنگھ نے ایک گول کیا۔

بلبیر سنگھ سینیئر نے اس بارے میں بتایا: ’اگر انڈین ٹیم 1947 کے نیشنلز کے بعد بنی ہوتی تو ٹیم کے آدھے سے زیادہ کھلاڑی پنجاب سے آتے۔ لیکن تقسیم نے ہمارے کچھ اچھے کھلاڑیوں کو الگ کر دیا جو اولمپکس میں پاکستان کے لیے کھیلے تھے۔‘

1948 کے اولمپکس کے لیے پاکستانی مردوں کی ہاکی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی مغربی پنجاب سے تھے۔

ہاکی کے علاوہ لندن جانے والے کھلاڑیوں کے دستے میں پنجاب نے اہم کردار ادا کیا۔ آٹھ رکنی ایتھلیٹک ٹیم میں چھوٹا سنگھ، سادھو سنگھ اور سومناتھ چوپڑا سمیت کل پانچ کھلاڑی پٹیالہ (پنجاب) سے تھے۔

سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور پنجاب کے کھیلوں کے سرپرست آر ایس گل کہتے ہیں: ’انڈین فوج، پنجاب پولیس اور پٹیالہ کے شاہی خاندان نے پنجاب کو انڈیا میں کھلاڑیوں کا ایک بڑا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پنجاب میں آزادی سے پہلے ہی کھیلوں کا کلچر پروان چڑھ چکا تھا اور اسی وجہ سے تعلیم میں آگے رہنے والے لوگ بھی کھیلوں کی طرف مائل ہوئے اور جب بھی موقع ملا انھوں نے کھیلوں کے سرپرست کا کردار ادا کیا۔‘

’آزادی کے بعد پنجاب کے پہلے انسپکٹر جنرل سنت پرکاش سنگھ نے کھیلوں کو زبردست ترقی دی، بعد کے افسران نے ان کی پیروی کی اور ریاستی پولیس فورس میں کھلاڑیوں کی بھرتی جاری رکھی۔‘

کشتی
Getty Images
آزادی سے پہلے بھی پنجاب پہلوانوں کے لیے مشہور تھا

غیر منقسم پنجاب (پنجاب-ہریانہ) پہلوانوں کا گڑھ

آزادی سے پہلے بھی پنجاب اپنے پہلوانوں اور ان کی کشتی کے لیے مشہور تھا لیکن تقسیم کے بعد لاہور اور پنجاب کے مشہور گاما پہلوان پاکستان چلے گئے۔

1950 کی دہائی میں پنجاب میں ایک بار پھر کشتی میں دلچسپی کا رجحان بڑھ گیا اور اس میں پنجاب کا وہ خطہ بھی شامل ہے جسے آج ہم ہریانہ کے نام سے جانتے ہیں۔

1956 کے اولمپکس میں جانے والی انڈین ریسلنگ ٹیم میں 50 فیصد پہلوان پنجاب سے تھے، جنھوں نے کشتی میں مہاراشٹر کا غلبہ توڑا تھا۔ اس وقت پنجاب کے ضلع حصار کے گاؤں منڈولہ کے مشہور پہلوان لیلا رام فوج کے ذریعے اولمپکس میں پہنچے تھے۔

یکم نومبر 1966 کو ہریانہ پنجاب سے الگ ہو کر ایک نئی ریاست بنا جس نے ریسلنگ میں اپنا تسلط قائم کیا اور آہستہ آہستہ اولمپک کھلاڑی اس کی پہچان بن گئے۔

ہریانہ نے ایتھلیٹکس میں باکسر وجیندر سنگھ، پہلوان یوگیشور دت، ساکشی ملک، بجرنگ پونیا، روی کمار اور نیرج چوپڑا جیسے کھلاڑی دیے ہیں جنھوں نے اولمپکس میں انڈیا کے لیے تمغے جیتے تھے۔

1966 کے بعد پنجاب نے انڈیا کو کچھ بڑے پہلوان بھی دیے جن میں کرتار سنگھ بھی شامل ہیں جو تین بار اولمپکس میں گئے تھے۔

ہاکی ٹیم
Getty Images

انڈین ہاکی اور پنجاب

1952 کے اولمپکس میں پنجاب کے پانچ کھلاڑی تھے۔ جبکہ 1956 کے اولمپکس میں جب انڈیا نے ہاکی میں اولمپک گولڈ کی ہیٹ ٹرک کی تھی، تب بھی 18 رکنی ٹیم میں ہاکی کے آٹھ کھلاڑی پنجاب سے تھے۔

پھر 1960 کے اولمپکس میں پنجاب کے پانچ کھلاڑی اولمپک ہاکی ٹیم کے رکن تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب آزاد انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم کو اولمپکس میں شکست ہوئی تھی۔ پاکستان نے فائنل میں بھارت کو ایک-صفر سے شکست دی۔

اولمپکس میں یہ پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل تھا جس میں ٹیم کے تقریباً نصف کھلاڑی پاکستانی پنجاب سے تھے۔ انفرادی مقابلے میں پاکستان کا پہلا تمغہ (کانسی) لاہور کے پہلوان محمد بشیر نے حاصل کیا۔

پھر 1964 کے اولمپکس میں انڈیا نے ہاکی میں دوبارہ اولمپک گولڈ جیتا اور اس ٹیم کے نو کھلاڑی پنجاب سے تھے جنھوں نے فائنل میں پاکستان کو شکست دی۔

لیکن اس کے بعد 1968 کے اولمپکس میں انڈیا کو کانسی کے تمغے سے ہی مطمئن ہونا پڑا۔ اس وقت بھی ٹیم کے نو ہاکی کھلاڑی صرف پنجاب سے تھے۔ آزاد انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم پہلی بار اولمپکس کے فائنل میں نہیں پہنچ سکی۔

کرنل بلبیر سنگھ کہتے ہیں: ’پنجاب کے لوگوں کی ہاکی سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1968 کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیت کر انڈیا واپس آنے کے بعد بھی ہم اپنے گاؤں سنسار پور جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب ہم اولمپک ہاکی کے فائنل میں نہیں پہنچ سکے تھے۔ ہماری والدہ نے یہاں تک کہا کہ تم ہاکی کھیلنا نہیں جانتے۔ ہاکی پنجاب کی ثقافت میں شامل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے یہ پوری ریاست میں مقبول ہے۔ آج بھی جب کرکٹ دیگر کھیلوں پر چھائی ہوئی ہے، ہاکی پنجابیوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔‘

اگر ہم 1972 کے اولمپکس کی بات کریں تو اس وقت بھی انڈین ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا اور 18 رکنی ٹیم میں پنجاب کے آٹھ کھلاڑی اپنی جگہ بنا چکے تھے۔

سال 1976 کا اولمپکس انڈین ہاکی کے لیے اچھا نہیں رہا لیکن انڈیا نے ایک بار پھر 1980 کے ماسکو اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا۔ اس ٹیم میں پنجاب کے چار کھلاڑی شامل تھے۔

اس کے بعد انڈین ہاکی تقریباً چار دہائیوں تک اولمپکس میں تمغے کے لیے ترستی رہی۔ لیکن 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا نے کانسی کا تمغہ جیتا اور اس ٹیم کے کپتان منپریت سنگھ تھے، جو پنجاب پولیس میں افسر ہیں۔

ابھینو بندرا
Getty Images
پنجاب کے ابھینو بندرا نے 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں 10 میٹر ایئر رائفل مقابلے میں انڈیا کے لیے طلائی تمغہ جیتا تھا

پنجاب اور شوٹنگ

پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے ابھینو بندرا نے 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں 10 میٹر ایئر رائفل مقابلے میں انڈیا کے لیے طلائی تمغہ جیتا تھا۔ اولمپکس میں انڈیا کی 108 سالہ تاریخ میں، ابھینو بندرا کسی انفرادی مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتنے والے پہلے انڈین ہیں۔

17 سال کی عمر میں ابھینو بندرا نے پہلی بار سنہ 2000 میں سڈنی اولمپکس میں حصہ لیا۔ وہ 2016 میں ریو تک لگاتار پانچ اولمپکس میں انڈیا کی نمائندگی کرتے رہے۔

پٹیالہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ رندھیر سنگھ پہلے انڈین شوٹر اور تمام کھیلوں میں پہلے انڈین کھلاڑی تھے جنھوں نے 1968 سے 1984 تک پانچ اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔

سابق بین الاقوامی شوٹر راجہ کے ایس سدھو کہتے ہیں: ’شوٹنگ پنجاب کا ایک لازمی حصہ رہی ہے، جو شاہی خاندان سے لے کر عام لوگوں تک پہنچی۔ شوٹنگ پنجابیوں کی فطرت کا حصہ بن گئی اور بندوقیں ان کی ثقافت کا حصہ بن گئیں، جس نے پنجاب میں شوٹنگ کو بطور کھیل فروغ دیا۔‘

ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم کے 18 ارکان میں سے 10 کھلاڑی پنجاب سے تھے
Getty Images
ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی انڈین ٹیم کے 18 ارکان میں سے 10 کھلاڑی پنجاب سے تھے

چار دہائیوں کے بعد ٹوکیو اولمپکس میں انڈین ہاکی کا جلوہ

ٹوکیو اولمپکس 2000، کووڈ 19 کی وجہ سے ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس اولمپکس میں انڈیا نے آج تک اپنی بہترین کارکردگی پیش کی اور ایک سونے اور دو چاندی سمیت کل سات تمغے جیتے۔

چار سال میں ایک بار منعقد ہونے والے اولمپک گیمز کے لیے انڈین ہاکی کا تقریباً چار دہائیوں کا طویل انتظار ٹوکیو میں ہی ختم ہوا۔ ٹوکیو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی انڈین ٹیم کے 18 ارکان میں سے 10 کھلاڑی پنجاب سے تھے۔

ہریانہ، جو کبھی پنجاب کا حصہ تھا، نے ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا کے تمغوں کی تعداد میں تین تمغوں کا حصہ ڈالا اور اس کے کھلاڑیوں نے کشتی میں انڈیا کے لیے دو تمغے اور جبکہ نیرج چوپڑا نے جیولن تھرو ایونٹ میں ایک گولڈ میڈل حاصل کیا۔

ہریانہ کے بعد پنجاب واحد ریاست تھی جہاں سے انڈین دستے میں سب سے زیادہ ایتھلیٹ ٹوکیو گئے۔ پیرس اولمپکس میں بھی پنجاب کے کھلاڑیوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.