پاکستان میں نجی بجلی گھروں کا مالک کون ہے اور کیا بِیگاس سے چلنے والے پلانٹس کو بھی کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی بیگاس سے چلنے والے بجلی گھروں کو کپیسِٹی پیمنٹ نہیں کی جاتی اور ملک میں موجود آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں؟

پچھلے کئی روز سے پاکستان میں بجلی کے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیوں یعنی کپیسِٹی پیمنٹ زیرِ بحث ہے۔

جہاں کئی افراد سوال کر رہے ہیں کہ یہ کارخانے بجلی بناتے ہی نہیں تو ان کو اربوں روپے کی ادائیگیوں کی کیا ضرورت ہے تو وہیں کچھ الزام لگاتے ہیں کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے دراصل ملک کی اشرافیہ بشمول سیاستدان اور کاروباری شخصیات ہیں جو ان سے بے جا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

اس ہی سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کے بجلی گھر کو بھی کیپسِٹی پیمنٹ کی مد میں منافع مل رہا ہے۔

منگل کے روز انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ بیگاس سے پیدا ہونے والی بجلی کے لیے کیپسٹی پیمنٹ ادا نہیں کی جاتی۔

ان کے مطابق بیگاس یعنی گنے کے پھوک سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو صرف اس بجلی کی قیمت ادا کی جاتی ہے جو گرڈ کو دی جاتی ہے اور اگر پلانٹ نہیں چل رہا تو اسے ادائیگی نہیں کی جاتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی بیگاس سے چلنے والے بجلی گھروں کو کپیسِٹی پیمنٹ نہیں کی جاتی اور ملک میں موجود آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں؟

اس سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کپیسِٹی پیمنٹ کا مسئلہ آخر کیا ہے؟

کپیسِٹی پیمنٹ کیا ہے؟

کپیسِٹی پیمنٹ کو لے کر اس ساری بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کے سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پاور پلانٹس کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات جاری کیں۔

انھوں نے دعوٰی کیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاور پلانٹس کو کپیسِٹی پیمنٹ کی مد میں 1900 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔

کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

سلیمان شہباز کی جانب سے ایکس پر شیئر کیے گئے پیغام کی وجہ ان کی زیر ملکیت چنیوٹ پاور کمپنی ہے جو گوہر اعجاز کی جانب سے جاری کی جانے والی ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے، جنھیں کیپسٹی پیمنٹ کی گئی۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پاکرا) کے مطابق چنیوٹ پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سلیمان شہباز شریف ہیں اور وہ کمپنی کے 94 فیصد حصص کے مالک بھی ہیں۔

چنیوٹ پاور شریف گروپ کا حصہ ہے۔

بیگاس پلانٹس کیا ہیں اور ملک میں یہ کتنی تعداد میں ہیں؟

بیگاس بنیادی طور پر شوگر مل میں گنے کی کرشنگ کے بعد بچ جانے والا پھوک ہوتا ہے جسے بجلی پیدا کرنے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔

بگاس سے شوگر ملوں کے اندر بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کے علاوہ اسے دیگر پاور پلانٹس میں بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت آٹھ آئی پی پیز ایسے ہیں جو بیگاس سے بجلی پیدا کرتے ہیں جن میں سے سات پنجاب اور ایک سندھ میں واقع ہے۔ ان آٹھ پاور پلانٹس کی مجموعی انسٹالڈ کپیسِٹی 259 میگاواٹ ہے۔

وزارت توانائی کے ذیلی ادارے پرائیوٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بیگاس سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس میں جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز (یونٹ دوئم) اور جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز (یونٹ سوئم) سیاست دان جہانگیر ترین کے ملکیتی جے ڈی ڈبلیو گروپ کی ملکیت ہیں۔

چنیوٹ پاور کے مالک سلیمان شہباز ہیں۔ اس کے علاوہ رحیم یار خان شوگر ملز، لیہ شوگر ملز، المعیز انڈسٹریز اور چنار انرجی لمیٹڈ بھی بیگاس سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا بیگاس پاور پلانٹس کو کپیسِٹی پیمنٹ کی جاتی ہے؟

سلیمان شہباز کے دعوٰے سے متعلق جب توانائی کے شعبے کے ماہرین سے بات کی گئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بیگاس سے بجلی پیدا کرنے کا ایک خاص سیزن ہوتا ہے اور جب یہ سیزن چل رہا ہوتا ہے تو ان بجلی گھروں کو کپیسِٹی پیمنٹ کی مد میں ادئیگیاں کی جاتی ہیں۔

انرجی امور کے ماہر عمار حبیب نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ گنے کے کرشنگ سیزن میں کرشنگ کے بعد جب بیگاس دستیاب ہوتا ہے تو اس پر پلانٹ چلتا ہے۔ ان کے مطابق اس سیزن میں ان کمپنیز کو کپیسِٹی پیمنٹ دی جاتی ہے۔

عمار کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ان کمپنیز کو پورے سال کیپسٹی پیمنٹ ملے کیونکہ یہ پلانٹس پورے سال نہیں چلتے۔

انھوں نے واضح کیا کہ کپیسِٹی پیمنٹ صرف اس وقت دی جاتی ہے جب پلانٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے قابل ہو۔

بجلی
PA Media

نینشل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین توصیف فاروقی نے بھی بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ کرشنگ سیزن میں جب بیگاس دستیاب ہوتا ہے اور یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو اس وقت انھیں بھی کپیسِٹی پیمنٹ ادا کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نان کرشنگ سیزن میں کیونکہ یہ پلانٹ غیر فعال ہوتے ہیں اس لیے ایسی پیمنٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

واضح رہے کہ گوہر اعجاز کی جانب سے ایکس پر جاری کی جانے والی فہرست میں بیگاس سے چلنے والے پاور پلانٹس کو کی جانے والی کپیسِٹی پیمنٹ کا بھی ذکر ہے۔

ان فہرستوں کے مطابق جن کمپنیوں کو رواں سال کے پہلے تین مہینوں یعنی جنوری سے مارچ کے دوران پیمنٹ کی گئی ان میں چنیوٹ پاور، جے ڈی ڈبلیو دوئم ، جے ڈی ڈبلیو سوئم اور بیگاس پر چلنے والے دیگر پاور پلانٹس شامل ہیں۔

پاکستان میں موجودہ آئی پی پیز کن کی ملکیت ہیں؟

پاکستان میں کام کرنے والے آئی پی پیز کن کی ملکیت ہیں اس بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق ملک میں اس وقت 100 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔

بجلی گھر
Getty Images

پاکستان میں کام کرنے والے ان آئی پی پیز کی ملکیت کے بارے میں جب مختلف ذرائع اور ماہرین سے بات کی گئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر کے بارے میں معلومات اس لیے دستیاب نہیں کیونکہ بجلی کی خریداری کے معاہدے کے تحت ان کی معلومات عام افراد کے لیے دستیاب نہیں ہوتیں تاہم جو پلانٹس سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ ہیں ان کی معلومات باآسانی مل جاتی ہیں۔

وزارت توانائی کے ذیلی ادارے پرائیوٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر اعداد و شمار کے مطابق بیگاس سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس میں جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز (یونٹ دوئم) اور جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز (یونٹ سوئم) ہے جو سیاست دان جہانگیر ترین کے ملکیتی جے ڈی ڈبلیو گروپ کی ملکیت ہیں۔

چنیوٹ پاور کے مالک سلمان شہباز ہیں۔ اس کے علاوہ رحیم یار خان شوگر ملز، لیہ شوگر ملز، المعیز انڈسٹریزاور چنار انرجی لمٹیڈ بیگاس سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس ملک میں موجود ہیں۔

ملک میں فرنس آئل پر چلنے والے نشاط پاور پلانٹ کی ملکیت منشا گروپ کی ہے۔ کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس کے بورڈ چیئرمین ملک کی بڑی کاروباری شخصیت میاں منشا کے صاحبزادے میاں حسن منشا ہیں۔ لال پیر پاور پلانٹ بھی نشاط گروپ کی ملکیت ہے جس کے مالک میاں منشا ہیں۔ اسی طرح میاں منشا کا نشاط گروپ پاک جین کمپنی میں سب سے زیادہ حصص کا مالک ہے۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابقاورینٹ پاور کمپنی میں ندیم بابر کے 22 فیصد حصص ہیں جو سابقہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں مشیر پٹرولیم تھے۔ سیف پاور پراجیکٹ سیف گروپ آف کمپنیز کی ملیکت ہے جو خبیر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی خاندان سیف اللہ کی ملیکت ہے۔ اینگرو پاور پراجیکٹ اینگرو انرجی لمٹیڈ کی ملکیت ہے جو ملک کے ایک بڑے کاروباری گروپ داود گروپ کی داود ہرکولیس گروپ کی ملکیت ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تصور درست نہیں کہ بیشتر پاور پلانٹس سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔

اس سلسلے میں عمار حبیب نے بتایا کہ آدھے سے زائد پلانٹس خود حکومت کے ہیں یا ان میں اس کی ہولڈنگ ہے۔ اسی طرح سی پیک کے تحت لگنے چینی کمپنیوں کے پلانٹس اور پرائیوٹ انویسٹرز کے پلانٹس موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات میں صداقت نہیں کہ بیشتر پلانٹس سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری نے اس سلسلے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بحث ہی غلط ہے کہ یہ آئی پی پیز کس کی ملکیت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی چاہے وہ غیر ملکی یا مقامی فرد ہو یا کوئی کمپنی، جب وہ سرمایہ کاری کریں گے وہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے لیے ضمانت چاہیں گے۔

ڈاکٹر فیاض کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آئی پی پیز میں سے 52 فیصد تو خود حکومت کی ملکیت ہیں جنھیں کپیسِٹی پیمنٹ مل رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب نجی شعبے نے یہ پلانٹ لگائے تھے تب ان سے بتر ڈیل کرنی چاہیے تھی۔

آئی پی پیز کو کپیسِٹی پیمنٹ کی ادائیگی مسئلہ کیوں بنی؟

ملک میں جاری کپیسِٹی پیمنٹ کی بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے نیپرا کے سابق چیئرمین توصیف فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ ادائیگیاں تو گزشتہ کئی برسوں سے کی جا رہی ہیں لیکن اس پر کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی۔

تاہم جب ڈالر ریٹ بڑھا اور ادایئگیوں کی مالیت بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے صارفین پر بوجھ پڑا تو پھر یہ بحث شروع ہوئی کہ یہ ادائیگیاں کیسے صارفین پر بوجھ بن رہی ہیں۔

توصیف فاروقی کہتے ہیں کہ جس حساب سے یہ پلانٹس لگائے گئے اگر پاکستان کی معیشت سات فیصد کی شرح سے ہر سال ترقی کرے تو پھر بجلی کی اتنی زیادہ کھپت ہو سکتی ہے لیکن معیشت میں یہ گروتھ نہیں ہو سکی اور یہ مسئلہ بن گیا۔

انھوں نے کہا یہ تو اچھا ہوا کہ ان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 25 سے 30 پاور پلانٹس کے ساتھ کپیسِٹی پیمنٹ کی ادائیگی کو 148 روپے فی ڈالر پر مقرر کر دیا گیا ورنہ جس طرح گزشتہ دو سال میں ڈالر کی قیمت بڑھی ہے تو باقی آئی پی پیز کی ساتھ ان کو بھی 280 روپے فی ڈالر کے حساب سے پیسے دینے پڑتے اور صارفین پر مزید بوجھ پڑتا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.