مانچسٹر ایئرپورٹ پر’پولیس تشدد‘ کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد نوجوان کون ہیں

پولیس کے مطابق گزشتہ رات پیش آنے والے اس واقعے کے بعد کم از کم ایک پولیس اہلکار کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا ہے جس کی ویڈیوز ائیر پورٹ پر عینی شاہدین اور متاثرین کے خاندان کی جانب سے فلمائی گئی تھیں۔
bbc
BBC

پولیس اہلکاروں نے آسمانی رنگ کی قمیض پہنے ہوئے نوجوان لڑکے کو دبوچ کر زمین پر لٹایا ہوا ہے جس کے چہرے اور سر پر لاتیں ماری جا رہی ہیں جبکہ ساتھ ہی شلوار قمیض میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر خاتون مسلسل رو رہی ہیں۔

یہ مناظر برطانیہ کے مانچسٹر ایئر پورٹ کے ہیں جس کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایک جانب مقامی ایشیائی نژاد شہریوں نے غصے کا اظہار کیا تو دوسری جانب پولیس کے رویے کی مذمت بھی کی گئی ہے۔

بدھ کو راچڈیل میں پولیس سٹیشن کے باہر مظاہرے کے بعد جمعرات کی رات مانچسٹر میں ’نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‘ کا نعرہ لگاتے سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے اور پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف ’انصاف نہیں تو امن نہیں‘ جیسے نعرے لگائے۔

پولیس کے مطابق منگل کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد اس پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے جس کی ویڈیوز ایئر پورٹ پر عینی شاہدین اور متاثرین کے خاندان کی جانب سے فلمائی گئی تھیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ جب ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس دوران تین افسران پر پُرتشدد حملہ کیا گیا اور انھیں گھونسے مارے گئے تاہم گریٹر مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہم نے اس ویڈیو کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو سمجھتے ہیں۔

پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد افراد کون ہیں؟

مانچسٹر ایئر پورٹ
BBC

بی بی سی کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس ویڈیو میں پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے افراد دو بھائی ہیں جو اپنی والدہ کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

ان کی والدہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مانچسٹر پہنچی تھیں۔ اس خاندان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن کے علاقے ناڑ کوٹلی سے ہے جو اب برطانیہ کے شہر روچڈیل میں رہائش پذیر ہے۔

برطانیہ میں اس خاندان کے وکیل بیرسٹر اکمل یعقوب نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کا تعلق بھی ایک ایسے پولیس اہلکار کے خاندان سے ہی ہے جو گریٹر مانچسٹر پولیس فورس میں ہی ملازم ہے اور وہ خود اپنے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے۔

احمد یعقوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے تشدد کے شکار محمد فاہر نامی شخص ہسپتال میں زیرِ علاج ہے اور اس کی حالت تشویش ناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زخمی کے سی ٹی سکین سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے دماغ میں گلٹی بن گئی ہے۔

بی بی سی کے لیے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے احمد یعقوب نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ایک درخواست پر پولیس کے غیرجانبدار پینل (آئی او پی سی) نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس اہلکار معطل کیا گیا ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ پولیس اہلکاروں کو برطرف کرکے ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں، متاثرہ خاندان کو زرتلافی دیا جائے اور ان سے معافی مانگی جائے۔‘

بیرسڑ اکمل یعقوب کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے لیے پولیس کو تمام ثبوت فراہم کیے جا رہے ہیں۔

وائرل ویڈیوز میں کیا نظر آ رہا ہے؟

https://twitter.com/Resisting_batil/status/1816164574342558032

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دوپولیس اہلکار ایک نوجوان کو ٹیزر سے نشانہ بناتے ہیں اور اس کے زمین پر گرنے کے بعد اسے لاتیں مارتے ہیں اور گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک دوسری ویڈیو میں ایک شخص پولیس والوں سے کہہ رہا ہے ’ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم عام شہری ہیں۔‘

سرخ ٹی شرٹ میں ملبوس ایک باریش نوجوان چار سے پانچ پولیس اہلکاروں کے آگے بار بار یہ الفاظ دہرا رہا ہے جبکہ ان کے ساتھ خواتین اور بچے سامان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

دوسرے زاویے سے بنائی گئی ایک اور ویڈیو میں پولیس اہلکار ٹیزر سے نشانہ بنانے کے بعد نوجوان کو مارتے ہوئے گردن سے دبوچ کر گراتے ہیں اور لاتیں مارتے نظر آتے ہیں۔ اس دوران ایک خاتون کے چیـخنے کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ’اس نے کچھ نہیں کیا۔‘

ان کے بالکل پیچھے دو پولیس اہلکار ایک تیسرے نوجوان کو بھی اسی طرح گرا کر مارتے ہوئے گرفتار کر رہے ہیں اور وہ خاتون چیخ رہی ہیں کہ ’اس نے کچھ نہیں کیا، آپ اس طرح گرفتار نہیں کر سکتے۔ بتائیں اس نے کیا کیا ہے؟‘

اس کے ساتھ ہی دو پولیس اہلکار آتے ہیں اور سرخ شرٹ میں ملبوس شخص کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے ان کا فون چھینتے ہیں اور ان کی جیبوں سے مزید کئی فون نکالتے ہیں، اس موقع پر وہ شخص پولیس کو بتاتے سنائی دیتے ہیں کہ ’ہم ابھی ابھی جہاز سے اترے ہیں اور یہ فون میرے بھائی کے ہیں۔‘

مانچسٹر ایئرپورٹ پر کیا ہوا تھا؟

لیڈز سے تعلق رکھنے والے ایک عینی شاہد عامر منہاس نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ ایئر پورٹ پر ’آمد‘ والے حصے میں آئے تو انھوں نے یہ منظر دیکھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں نے تقریباً 20 سالہ نوجوان کے پاس آ کر اسے کہا کہ وہ ایک مطلوب شخص ہے۔ ’اس کے بعد انھیں نے اسے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔‘

عامر بتاتے ہیں کہ اس موقع پر ایک اور نوجوان نے پولیس کے ساتھ بحث شروع کی جس کے ساتھ ہی لڑائی ہو گئی۔

اس دوان پولیس اہلکاروں نے جس نوجوان کو دیوار کے ساتھ دبوچ رکھا تھا اس نے انھیں مکے مارنے شروع کر دیے جس پر پولیس نے اسے ٹیزر گن سے نشانہ بنایا اور وہ فرش پر گرا، جبھی پولیس اہلکاروں نے اسے لاتیں مارنا شروع کر دیں۔

پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ مسافروں کی جانب سے جھگڑے کی اطلاعات کے بعد منگل کو تقریباً آٹھ بج کر 25 منٹ پر مسلح افسران کو ایئر پورٹ پر طلب کیا گیا۔

گریٹر مانچسٹر پولیس (جی ایم پی) کے مطابق منگل کو ہوائی اڈے کے ٹرمینل ٹو میں لڑائی کے بعد ایک شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران مسلح افسران پر حملہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس دوران تین افسران پر پرتشدد حملہ کیا گیا اور انھیں گھونسے مارے گئے۔

’چونکہ یہ پولیس افسران مسلح تھے لہذا ان سے اسلحہ چھینے جانے کا واضح خطرہ موجود تھا۔‘

ترجمان کے مطابق تین پولیس اہلکاروں کو علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا ہے جن میں سے ایک خاتون افسر کی ناک ٹوٹی ہوئی ہے۔

پولیس نے تصدیق کی کہ دو افراد کو پولیس افسران پر حملہ کرنے، ایمرجنسی اہلکار پر حملہ کرنے، پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دو دیگر افراد کو بھی ایمرجنسی ورکر کے ساتھ جھگڑنے اور حملہ کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس ویڈیو کو ’دیکھنا مشکل‘ ہے

سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد مقامی کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور سینکڑوں افراد نے بدھ کی شام گریٹر مانچسٹر کے روچڈیل میں پولیس سٹیشن کے باہر احتجاج کیا ہے۔

مانچسٹر ایوننگ نیوز کے مطابق مظاہرین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’اب ہم پولیس کی سفاکی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ ہم پولیس پر بھروسہ کرتے ہیں مگر اس کے بدلے میں وہ ہم پر تشدد کرتے ہیں۔ پولیسکی وردی میں یہ دراصل غنڈے ہیں۔‘

گریٹر مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہم نے بھی اس ویڈیو کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق انھوں نے جی ایم پی کے ڈپٹی چیف کانسٹیبل سےاپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل بلیک پولیس ایسوسی ایشن کے صدر اینڈی جارج کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کو 'دیکھنا مشکل' ہے۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے لکھا: ’پولیس کا کام آسان نہیں ہے لیکن ہمیں بہترین برتاؤ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور ہم سے امید بھی یہی کی جاتی ہے کہ ہم اچھا برتاؤ کریں گے۔‘

ہوم آفس کی وزیر ڈیم ڈیانا جانسن نے بھی ایکس پر پوسٹ کیا: ’میں نے آج سہ پہر مانچسٹر ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعے کی پریشان کن فوٹیج دیکھی ہے اور اس حوالے سے عوام کی تشویش کو سمجھتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے گریٹر مانچسٹر پولیس سے مکمل تفصیل مانگی ہے۔‘

اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل وسیم چوہدری نے جمعرات کو بی بی سی نیوز کو دیے ایک بیان میں کہا ہے کہ مانچسٹر ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعے کے متعلق روچڈیل پولیس سٹیشن کے باہر گذشتہ رات ہونے والا احتجاج بحفاظت ختم ہو گیا۔

اس سے قبل ایک بیان میں اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل چوہدری نے کہا: ’ہمیں مانچسٹر ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعے کی وائرل ویڈیو کا علم ہے اور ہم اس حوالے سے عوام کی تشویش (جو بجا ہے) کو سمجھتے ہیں۔‘

’کسی کو گرفتار کرنے کے لیے اس طرح کی طاقت کا استعمال ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ایک مرد افسر کو آپریشنل ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا ہے اور ہم پولیس کے ردِعمل کے حوالے سے انڈیپینڈنٹ آفس آف پولیس کنڈکٹ سے رجوع کر رہے ہیں۔‘

انڈیپینڈنٹ آفس آف پولیس کنڈکٹ کا کہنا ہے کہ جی ایم پی اس واقعے کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ مزید کسی کارروائی کی ضرورت ہے یا نہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.