’اس قیامت کے ڈر سے میرا جسم کانپ اُٹھتا ہے‘: ہیروشیما میں ایٹم بم کے متاثرین غزہ سمیت دیگر جنگوں سے خوفزدہ

یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اور امریکہ نے ابھی ابھی چیکو کے آبائی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔ 15 سالہ چیکو نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا: ’ایسا لگا کہ آسمان سر پر آ گرا ہے اور یہ دیکھ کر میں بے ہوش ہونے لگی تھی۔‘
ہیروشیما شہر ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا
Getty Images
ہیروشیما شہر ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا

اس دن صبح سے ہی گرمی تھی اور چیکو کرائیکے کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہی تھیں۔ وہ کہیں چھاؤں کی تلاش میں ہی تھیں کہ اچانک تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

15 سالہ چیکو نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ یہ چھ اگست سنہ 1945 کا دن تھا اور جاپان میں صبح کے سوا آٹھ بج رہے تھے۔

وہ اس دن کے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ایسا لگا کہ آسمان سر پر آ گرا ہے اور یہ دیکھ کر میں بے ہوش ہونے لگی تھی۔‘

یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اور امریکہ نے ابھی ابھی چیکو کے آبائی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی جنگ میں جوہری ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہو۔

اگرچہ جرمنی نے یورپ میں ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن اتحادی افواج اب بھی جاپان سے لڑ رہی تھیں۔

انتباہ: اس تحریر کی تفصیلات جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

چیکو اس وقت سکول کی طالب علم تھیں لیکن بہت سے بڑے شاگردوں کی طرح انھیں بھی جنگ کے دوران فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔

وہ لڑکھڑاتے ہوئے بامشکل اپنے ایک زخمی دوست کو پیٹھ پر لاد کر سکول پہنچی تھیں۔ کئی طلبہ بُری طرح جھلس گئے تھے۔ چیکو نے ان کے زخموں پر ہوم اکنامکس کی کلاس روم میں موجود زیتون کا تیل لگایا۔

چیکو نے کہا کہ ’اس وقت یہی ایک علاج تھا جو ہم انھیں دے سکتے تھے۔ لیکن پھر ایک کے بعد ایک کی موت ہونے لگی۔‘

'ہم جیسے کچھ بڑی عمر کے طلبہ جو زندہ بچ گئے تھے انھیں ہمارے اساتذہ نے کھیل کے میدان میں گڑھا کھودنے کے لیے کہا اور ہم نے اپنے ہاتھوں سے (اپنے ہم جماعتوں) کو دفن کیا تھا۔ مجھے ان کے لیے بہت افسوس تھا۔'

اب چیکو 94 سال کی ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کے واقعے کو تقریباً 80 سال ہوچکے ہیں اور اب اس سانحے میں زندہ بچ جانے والے متاثرین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

ایٹم بم کے حملے میں بچنے والوں کو جاپان میں ہیباکوشا کہا جاتا ہے اور اب اپنی اس وقت کی کہانی بتانے کے لیے بہت کم لوگ بچے ہیں۔

ان میں سے بیشتر صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں اور ایٹمی حملے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔

اب وہ بی بی سی ٹو کی فلم کے لیے اپنے تجربات شیئر کر رہے ہیں جس میں ماضی کے واقعے کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے تاکہ یہ مستقبل کے لیے ایک انتباہ کا کام کر سکے۔

چیکو کا کہنا ہے کہ اس ہیبت ناک واقعے کے بعد ان کے شہر میں زندگی پھر سے لوٹنے لگی ہے۔

انھوں نے کہا: 'لوگ کہتے تھے کہ 75 سال تک گھاس نہیں اُگے گی۔ لیکن اگلے سال کے موسم بہار میں چڑیائیں لوٹ آئی تھیں۔‘

چیکو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کئی بار موت کے قریب پہنچیں لیکن انھیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ کسی عظیم طاقت نے انھیں زندہ رکھا ہوا ہے۔

آج جتنے ہیباکوشا زندہ ہیں ان میں سے زیادہ تر بم دھماکوں کے وقت بچے تھے۔ جیسے جیسے ہیباکوشا (جس کا لفظی ترجمہ 'بم سے متاثرہ لوگ' ہے) بڑے ہوتے گئے عالمی تنازعات میں شدت آتی گئی۔ ان کے مطابق جوہری خطرات میں اضافہ پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی محسوس ہوتا ہے۔

86 سالہ مشیکو کوڈاما کہتی ہیں کہ جب وہ یوکرین پر روسی حملے اور غزہ جنگ جیسے دنیا بھر کے تنازعات کے بارے میں سوچتی ہیں تو ’میرا جسم کانپ اٹھتا ہے اور آنسو بہنے لگتے ہیں۔‘

'ہمیں ایٹم بم سے برپا ہونے والی قیامت کی دوبارہ اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مجھے بحران کا احساس ہو رہا ہے۔'

میشیکو جوہری اسلحہ میں کمی لانے کے لیے مہم چلانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس لیے آواز اٹھاتی ہیں کہ مرنے والوں کی آوازیں سنی جا سکیں اور ان کی باتیں اگلی نسلوں تک پہنچیں۔

وہ کہتی ہیں: 'میرے خیال میں ہیباکوشا کی آپ بیتی کو سننا ضروری ہے جنھوں نے براہ راست بمباری کا سامنا کیا ہے۔‘

میشیکو اس وقت سکول میں تھیں اور ان کی عمر سات سال تھی جب ہیروشیما پر بم گرایا گیا تھا۔

’میری کلاس روم کی کھڑکیوں سے ایک تیز روشنی ہماری طرف آرہی تھی جو زرد نارنجی اور چاندی جیسی چمکدار تھی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح کلاس روم میں کھڑکیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں، ملبہ دیواروں، میزوں اور کرسیوں پر ہر جگہ بکھرا پڑا تھا۔

’چھت ہم پر آ گری تھی اور میں میز کے نیچے چھپ گئی تھی۔‘

دھماکے کے بعد میشیکو نے تباہ شدہ کمرے کے اردگرد دیکھا۔ ہر طرف اسے اپنے ساتھیوں کے ہاتھ پاؤں پھنسے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

'میں رینگتی ہوئی کلاس روم سے راہداری تک پہنچی جبکہ میرے دوست مدد کے لیے پکار رہے تھے۔'

جب ان کے والد انھیں لینے کے لیے آئے تو وہ انھیں اپنی پیٹھ پر اٹھا کر گھر لے گئے۔

میشیکو کا کہنا ہے کہ آسمان سے 'کیچڑ کی طرح' سیاہ بارش ہوئی تھی۔ یہ تابکار مواد اور دھماکے سے نکلنے والی باقیات کا مرکب تھا۔

وہ گھر واپسی کا سفر کبھی نہیں بھول سکیں۔

میشیکو نے کہا کہ 'وہ کسی جہنم کا منظر تھا۔ لوگ جو بھاگ بھاگ کر ہماری طرف آرہے تھے ان میں سے بیشتر کے کپڑے مکمل طور پر جل چکے تھے اور ان کا گوشت پگھل پگھل کر نیچے گر رہا تھا۔'

انھیں ایک لڑکی یاد ہے جسے انھوں نے راستے پر دیکھا تھا۔ وہ بالکل اکیلی تھی اور بری طرح جھلس گئی تھی۔

میشیکو بتاتی ہیں: 'لیکن اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس لڑکی کی آنکھیں مجھے اب تک چبھتی ہیں۔ میں اسے بھول نہیں سکتی۔ 78 سال گزر جانے کے باوجود وہ میرے دل و دماغ میں چھائی ہوئی ہے۔'

میشیکو آج زندہ نہ ہوتیں اگر ان کا خاندان اپنے پرانے گھر میں رہتا کیونکہ ان کا پرانا گھر اس جگہ سے صرف 350 میٹر کے فاصلے پر تھا جہاں بم پھٹا تھا۔ تقریباً 20 دن پہلے ان کا خاندان صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر نئے مکان میں منتقل ہوا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

کہا جاتا ہے کہ ہیروشیما میں 1945 کے آخر تک تقریباً 140,000 جانیں ضائع ہوگئی تھیں۔

ہیروشیما کے تین دن بعد ناگاساکی پر امریکہ نے بمباری کی تھی جس میں کم از کم 74,000 افراد مارے گئے۔

سویچی کیڈو ناگاساکی دھماکے کے مرکز سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر رہ رہے تھے۔ اس وقت اس کی عمر پانچ سال تھی۔ اس دھماکے میں ان کے چہرے کا ایک حصہ جل گیا تھا۔

ان کی والدہ نے انھیں دھماکے کے مکمل اثر سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ زیادہ زخمی ہوگئی تھیں۔

سوئیچی اب 83 سال کے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے خطرات سے خبردار کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے خطاب کرنے نیویارک پہنچے تھے۔

وہ کہتے ہیں: ’ہم اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوئے۔‘

وہ دھماکے کے نتیجے میں بیہوش ہو گئے تھے اور جب وہ ہوش میں آئے تو سب سے پہلے انھیں ایک سرخ تیل کا ڈبہ یاد آیا۔ برسوں تک اس کا خیال تھا کہ اس تیل کے ڈبے سے ہی دھماکہ ہوا تھا اور وہی آس پاس کی تباہی کا باعث بنا تھا۔

ان کے والدین نے انھیں درست نہیں کیا اور یہ نہیں بتایا کہ وہ ایک ایٹمی حملہ تھا، لیکن جب بھی وہ اس کا ذکر کرتے تو وہ سب رو پڑتے تھے۔

تمام زخم فوری طور پر واضح نہیں ہوئے تھے۔ دھماکے کے بعد کے ہفتوں اور مہینوں کے دوران دونوں شہروں میں بہت سے لوگوں میں تابکار زہر کی علامات ظاہر ہونے لگیں اور وہاں لیوکیمیا اور کینسر کی سطح میں اضافہ ہو گيا۔

زندہ بچ جانے والوں کو معاشرے میں برسوںتک امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملے میں۔

میشیکو کہتی ہیں انھیں یہ بتایا گیا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ ہیباکوشا کا خون ہمارے خاندانی سلسلے میں داخل ہو۔‘

لیکن بعد میں ان کی شادی ہوئي اور ان کے دو بچے بھی ہوئے۔

انھوں نے اپنی ماں، باپ اور بھائیوں کو دھماکے سے پیدا ہونے والے کینسر میں کھو دیا۔ ان کی بیٹی سنہ 2011 میں اسی بیماری سے فوت ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں: ’میں تنہا محسوس کرتی ہوں، مجھے غصہ ہے اور خوف محسوس کرتی ہوں کہ کیا اگلی باری میری ہے۔'

بم دھماکے سے بچ جانے والی ایک اور فرد کیومی اگیورو ہیں۔ وہ ناگاساکی پر حملے کے وقت 19 سال کی تھیں۔ وہ ایک دور کے رشتہ دار کے خاندان میں شادی کرنے اور اسقاط حمل ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی ساس نے اسے ایٹم بم سے منسوب کیا تھا۔

'تمہارا مستقبل خوفناک ہے۔ انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھا۔'

کیومی کا کہنا ہے کہ انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ ایٹم بم کے حملے کو دیکھ چکی ہیں۔

افسوس کہ دستاویزی فلم کے لیے انٹرویو کیے جانے کے بعد کیومی کی وفات ہوگئی۔

انھوں نے 98 سال کی عمر پائی۔ وہ ہر سال ناگاساکی کے پیس پارک کا دورہ کرتیں اور حملے کے وقت یعنی 11:02 پر گھنٹی بجاتیں کیونکہ اسی وقت شہر پر بم گرا تھا۔ وہ گھنٹی بجا کر امن کے لیے دعا کرتیں۔

سوئیچی نے یونیورسٹی میں جاپانی تاریخ پڑھائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیباکوشا ہونے کی وجہ سے ان کی شناخت پر اثر پڑا تھا۔ لیکن پھر انھیں احساس ہوا کہ وہ ایک عام انسان نہیں ہیں اور انسانیت کو بچانے کے لیے آواز اٹھانا ان کا فرض ہے۔

سویچی کہتے ہیں: ’یہ احساس کہ میں خاص شخص ہوں میرے اندر پیدا ہوا۔'

یہ ایک ایسی چیز ہے جسے سارے ہیباکوشا محسوس کرتے ہیں کہ ان میں مشترک ہے اور ان میں یہ یقینی بنانے کا ایک مستقل عزم ہے کہ ماضی کبھی بھی حال نہ بنے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.