’غداروں کو سزا دو‘: غریب چینی خاندان کا بچہ جس نے بڑے ہو کر امریکہ میں اربوں ڈالر کا فراڈ کیا

جون 2020 کے اوائل میں نیو یارک کے باسیوں نے اپنے سروں کے اوپر آسمان پر کئی چھوٹے جہاز دیکھے۔ ان جہازوں پر بینرز لہرا رہے تھے جن پر لکھا تھا کہ: ’چین کی نئی وفاقی ریاست کو مبارکباد۔‘
چین، امریکہ، بزنس
Getty Images

امریکہ کی ایک عدالت میں جلاوطن چینی بزنس مین گو وینگوئی پر فراڈ اور منی لانڈرنگ سمیت الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔

وینگوئی ایک ایسی کاروباری شخصیت ہیں جنھوں نے پہلے چین میں ریئل اسٹیٹ کا ایک بڑا کاروبار کھڑا کیا اور پھر امریکہ میں اربوں ڈالر کا فراڈ کیا۔

جون 2020 کے اوائل میں نیو یارک کے باسیوں نے اپنے سروں کے اوپر آسمان پر کئی چھوٹے جہاز دیکھے۔ ان جہازوں پر بینرز لہرا رہے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’چین کی نئی وفاقی ریاست کو مبارکباد۔‘

ان جہازوں پر ایک آسمانی رنگ کا عجیب سا جھنڈا بھی آویزاں تھا۔ یہ کوئی مذاق تھا، شعبدے بازی تھی یا پروپگینڈا تھا؟

یہ معمہ کچھ دن بعد اس وقت حل ہوا جب وینگوئی وائٹ ہاؤس کے سابق چیف سٹریٹجسٹ سٹیفن بینن کے ہمراہ ایک آن لائن ویڈیو میں نمودار ہوئے۔

یہ دونوں افراد مجسمہِ آزادی کے قریب ایک کشتی میں سوار تھے اور اس کشتی پر وہی آسمانی رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس ویڈیو میں ان دونوں افراد نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

وینگوئی نے اس ویڈیو میں کہا کہ ’ہمیں مارکس ازم، لینن ازم اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت پسند حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔‘

یہ وینگوئی اور بینن کے درمیان تازہ ترین اشتراک تھا، ان دونوں ہی شخصیات نے چینی حکمرانوں کی مخالفت، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت، کورونا وائرس اور اس کی روک تھام کے لیے بنائی گئی ویکسین کے حوالے سے اپنے سازشی نظریات کا پرچار کرکے انٹرنیٹ پر اپنے پیروکاروں کے بڑے نیٹ ورک بنا لیے تھے۔

ان دونوں شخصیات کی ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے چار برس بعد وینگوئی پر فراڈ اور منی لانڈرنگ سمیت 12 جرائم ثابت ہوئے۔

منی ٹریل

استغاثہ کے مطابق وینگوئی نے اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کا استعمال کرکے اپنے حامیوں کے ساتھ فراڈ کیا۔

چین سے باہر مقیم چینی حکومت کے ہزاروں مخالفین نے وینگوئی کو پیسے بھیجے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا پیسہ کاروبار اور کرپٹو کرنسی پر لگایا جا رہا ہے۔

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہزاروں چینی باشندوں کی جانب سے بھیجی گئی رقم کسی کاروبار میں بطور سرمایہ استعمال نہیں ہو رہی تھی بلکہ وینگوئی اور ان کے لندن میں مقیم بزنس پارٹنر کِن منگ جو اس رقم سے ایک پُرتعیش زندگی گزار رہے تھے۔

ان دونوں نے مل کر اس پیسے سے نہ صرف مہنگے گھر، ایک بحری جہاز اور سپورٹس کاریں خریدیں بلکہ 10 لاکھ ڈالر کی ایک قالین اور ایک لاکھ 40 ڈالر کا ایک پیانو بھی خریدا۔

بی بی سی نے متعدد لوگوں سے بات چیت کی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے چینی بزنس مین کے کاروبار میں ہزاروں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

امریکہ میں تقریباً ایک دہائی سے مقیم کوکو نامی ایک چینی پناہ گزین کہتی ہیں کہ ’میں ان کی لائیو سٹریمنگ ویڈیوز روزانہ دیکھا کرتی تھی۔‘

ہم ان کا پورا نام نہیں تحریر کر رہے کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ وینگوئی کے دیگر پیروکار ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ان کی ویڈیوز بہت سنسنی خیز ہیں اور ہم نے ان پر مکمل بھروسہ کیا۔‘

وینگوئی کے دیگر پیروکاروں کی طرح کوکو کی توجہ بھی ان کی طرف اس لیے گئی تھی کیونکہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے مخالف تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس سینیئر چینی حکام کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔

وینگوئی اور وائٹ ہاؤس کے سابق چیف سٹریٹجسٹ بینن نے ساتھ مل کر ’جی ٹی وی‘ کے نام سے ایک میڈیا کمپنی قائم کی تھی۔ کوکو کو اس کاروبار پر شک اس وقت ہوا جب انھیں ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا اس وعدے کے ساتھ کہ انھیں وینگوئی تک رسائی دی جائے گی۔

اسی واٹس ایپ گروپ کے ذریعے انھیں پیغام دیا گیا کہ تمام افراد کو وینگوئی کے ایک مخالف کے گھر کے باہر احتجاج کرنا ہے۔ کوکو کہتی ہیں کہاس احتجاج میں شریک ہونے والے مظاہرین کو پیسے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ پیسے انھیں کبھی نہیں دیے گئے۔

’ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ وہ کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔‘

کوکو کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’جی ٹی وی‘ میں چھ ہزار ڈالر کا سرمایہ لگایا جبکہ ان کے ایک دوست نے ایک لاکھ ڈالر کا سرمایہ لگایا تاکہ انھیں وینگوئی کے قریبی حلقے میں جگہ مل سکے۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس سرمائے کے بدلے سرمایہ کاروں کو بڑا منافع دینے کے وعدے کیے گئے تھے۔

اپنے پاس آنے والی بے تحاشہ دولت کے باوجود گذشتہ برس وینگوئی کی کمپنیوں اور فاؤنڈیشن نے خود کو دیوالیہ ظاہر کر دیا تھا۔

غربت سے امیری تک

وینگوئی کے ماضی کے قصے سُن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں غربت میں زندگی گزارنے کا تجربہ بھی تھا۔

گذشتہ برس امریکی میگزین نیو یارکر میں شائع ہونے والی ایک پروفائل کے مطابق وینگوئی نے 1970 میں چین کے صوبے شانڈونگ کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور ان کے سات بہن بھائی تھے۔

انھوں نے چینی جیل میں بھی وقت گزارا اور پھر وہاں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار چین کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔

وہ خود کہتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے چین کے خفیہ اداروں میں تعلقات بنائے۔ بعد میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی دولت اور تعلقات کے سبب انھیں چینی حکام کے بارے میں اندر کی معلومات ملنے لگیں۔

لیکن ان ہی تعلقات کے سبب بعد میں ان پر چینی حکومت کا ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی عائد ہوئے۔

چین، امریکہ، بزنس
Getty Images
وینگوئی نے 1970 میں چین کے صوبے شانڈونگ کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی

سنہ 2014 میں ایک کاروباری جھگڑے اور خفیہ ادارے کے ایک افسر کی گرفتاری کے بعد وینگوئی چین سے فرار ہوکر لندن پہنچ گئے اور بعد میں وہاں سے نیو یارک آ گئے۔

دونوں شہروں میں وینگوئی اہم شخصیات کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کامیاب رہے۔ 2015 میں انھوں نے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی فاؤنڈیشن کو 25 لاکھ ڈالر بطور عطیہ دیے۔

سابق برطانوی وزیراعظم نے بعد میں وینگوئی کے لیے ایک رکمینڈیشن لیٹر بھی لکھا جس کی مدد سے چینی کاروباری شخصیت نے نیو یارک میں ایک پینٹ ہاؤس خریدا۔

یہ وہ ہی پینٹ ہاؤس ہے جس پر ایف بی آئی نے چھاپہ بھی مارا تھا۔

وینگوئی شہرت سے بھاگتے نہیں تھے بلکہ وہ ملک سے باہر نکل کر چین کے حکمرانوں کے ایک بڑے ناقد بن گئے اور ان پر کرپشن کے الزامات لگایا کرتے تھے۔

دوسری جانب چینی حکام بھی وینگوئی پر رشوت خوری، اغوا، فراڈ، منی لانڈرنگ اور ریپ جیسے الزامات عائد کرتے تھے۔ چینی حکام نے انٹرپول کے ذریعے وینگوئی کی گرفتاری کے لیے ’ریڈ نوٹس‘ بھی جاری کروائے تھے۔

سنہ 2017 میں وینگوئی نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا اور جلد ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی بڑی فالوئنگ بنالی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ چینی حکام انھیں انتقام کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اسی سبب انھوں نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دی۔

وینگوئی کی ملاقات بنین سے ہوئی جو ماضی میں وائٹ ہاؤس کی نوکری سے فارغ کیے گئے تھے۔ ان دونوں کے خیالات آپس میں ملتے تھے اور اسی سبب دونوں ایک دوسرے کے پوڈکاسٹ اور ویڈیوز میں نظر آنے لگے۔

لیک ہونے والے کچھ دستاویزات کے مطابق وینگوئی کی ایک کمپنی نے بینن کو کنسلٹنسی فیس کی مد میں 10 لاکھ ڈالر دیے۔ بعد میں ان دونوں نے مل کر ’جی ٹی وی‘ نامی میڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔

چین، امریکہ، بزنس
Getty Images
سنہ 2017 میں وینگوئی نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا

سوشل میڈیا انیلیٹکس کمپنی گرافکا کے سینیئر تجزیہ کار کیل ویس نے 2021 میں ایک رپورٹ تحریر کی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ وینگوئی کی سوشل میڈیا پر موجودگی کس طرح سے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔

کیل کہتے ہیں کہ ’جب 2017 میں وہ بولنا شروع ہوئے اور میڈیا کو انٹرویو دینے لگے تو انھوں نے بطور چینی کمیونسٹ پارٹی کے مخالف اپنی ایک بڑی فالوئنگ بنا لی۔‘

’ایسا عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔‘

کیل کے اس تجزیے کے درست ہونے کا اندازہ وینگوئی کے پیروکاروں سے گفتگو کر کے کیا جا سکتا ہے۔

سارہ نامی ایک اور چینی پناہ گزین کہتی ہیں کہ ’انھوں نے بہت سارے لوگوں کے دل جیتے کیونکہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘ سارہ بھی ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے وینگوئی کو 50 ہزار ڈالر دیے۔

’غداروں کو سزا دو‘

بینن کی مدد سے مواد بنانے کا فارمولا کامیاب رہا اور وینگوئی کے ہزاروں فالوورز نہ صرف انٹرنیٹ پر متحرک ہو گئے بلکہ سڑکوں پر بھی۔

یہ معاملہ اپنی انتہا پر اس وقت پہنچا جب وینگوئی کے پیروکاروں نے ان کے مخالفین کے گھروں کا محاصرہ کرنا شروع کردیا۔

وینگوئی کے مخالفین کی بڑی تعداد بھی چینی حکومت کے مخالفین پر مشتمل تھی، جو کسی سبب چینی بزنس مین کے مخالف ہو گئے تھے۔

وینگوئی نے الزام عائد کیا کہ یہ مخالفین دراصل چینی حکومت کے جاسوس ہیں۔

وینگوئی لوگوں کو تشدد پر اُکسانے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے ’غداروں کو سزا دو‘ کے نام سے ایک مہم شروع کر رکھی تھی۔

اس تحریک میں جن لوگوں کو ہدف بنایا گیا انھیں مبینہ طور پر قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔ ایک شخص کو اس سبب مار بھی پڑی تھی۔

یونیورسٹی آف شکاگو سے منسلک چینی پروفیسر ٹینگ بیاؤ کہتے ہیں کہ وہ بھی ان افراد میں شامل تھے جنھیں ’غداروں کو سزا دو‘ مہم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے 2017 میں وینگوئی کے خلاف لکھنا شروع کیا کہ چین کاروباری شخصیت چینی حکومت کے ناقدین کی آواز کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وینگوئی نے ٹینگ بیاؤ پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

لیکن اس سب کے باوجود بھی ٹینگ بیاؤ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ 2021 میں تقریباً دو ماہ تک 30 کے قریب افراد نیو جرسی میں ان کے گھر کے باہر جمع ہوتے تھے۔

ٹینگ بیاؤ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بینرز تھامے میرے گھر کے باہر کھڑے رہتے تھے، مجھے کمیونسٹ پارٹی کا جاسوس قرار دیتے تھے اور میرے گھر کی ویڈیو لائیوسٹریم کرتے تھے۔‘

’وینگوئی کے پیروکاروں نے مجھے قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔‘

بعد میں وینگوئی کی ناقد بن جانے والی چینی پناہ گزین کوکو بھی کہتی ہیں کہ انھوں نے ماضی میں ایک ریلی میں حصہ لیا تھا جو چینی حکومت کے مخالف بوب فو کے گھر کے باہر نکالی گئی تھی۔

بوب فو ایک مذہبی پیشوا اور مذہبی آزادی کے حامی کارکن ہیں، جنھوں نے 1990 کی دہائی میں چین کو خیرباد کہہ دیا تھا، وینگوئی نے ان پر چینی جاسوس ہونے کا الزام لگایا تھا۔

کوکو کہتی ہیں کہ ’مجھے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے پر شدید افسوس ہے، یہ لوگ چینی جاسوس نہیں۔‘

ماضی میں رضاکارانہ طور پر وینگوئی کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والی ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ چینی کاروباری شخصیت کی کمپنیاں ان لوگوں کی ذاتی تفصیلات جمع کرتی تھیں جو انھیں عطیات دیتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وینگوئی کے پاس ان کی تمام ذاتی تفصیلات بشمول پاسپورٹ، شناختی کارڈ نمبر، ای میل ایڈریس اور فون نمبرز بھی موجود تھے۔‘

وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اسی سبب بہت سارے چینی باشندے وینگوئی کے خلاف بولنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ کہیں ان کی ذاتی معلومات لیک نہ ہو جائیں۔

فراڈ کے الزامات

لیکن مارچ 2023 میں وینگوئی کا کاروبار اس وقت مشکلات کا شکار ہوگیا جب امریکی حکام نے ان پر اربوں ڈالر کے فراڈ کا الزام عائد کیا۔

فردِ جرم عائد کرنے کے دوران جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق وینگوئی کی میڈیا کمپنی جی ٹی وی کے سبب کم از کم ساڑھے پانچ ہزار افراد کے 452 ملین ڈالر ڈوب گئے جبکہ وینگوئی کہتے ہیں کہ یہ کُل رقم دو ارب ڈالر تھی۔

درحقیقت یہ ایک نیا کاروبار تھا، جس کے ذریعے کوئی منافع نہیں آ رہا تھا۔

وینگوئی کے زوال کی کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب سٹیفن بینن کو وینگوئی کے بحری جہاز سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بیین پر الزام تھا کہ انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کا دعویٰ کرکے لوگوں سے عطیات لیے تھے اور ان کے ساتھ فراڈ کیا تھا۔

جب وینگوئی اور بینن اپنی شراکت داری کو مضبوط کر رہے تھے، اسی وقت امریکی حکام ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔

ان تحقیقات کے سبب وینگوئی پر سرمایہ کاروں کو گمراہ کرنے کے الزامات لگے اور انھیں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ساتھ 539 ملین ڈالر کا تصفیہ کرنا پڑا۔

سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے الزام عائد کیا تھا کہ وینگوئی نے غیرقانونی طور پر کرپٹو کرنسی اور جی ٹی وی کے شیئرز سرمایہ کاروں کو فروخت کیے۔

یہ ان کے لیے قانونی مشکلات کی شروعات تھی۔ مارچ 2023 میں انھیں فراڈ اور منی لانڈرنگ کے جرممیں گرفتار کیا گیا۔

وینگوئی کی کمپنی کے نمائندوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ امریکی محکمہ انصاف چینی کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔

بینن کا نام وینگوئی کے خلاف درج کیے گئے مقدمے میں شامل نہیں اور انھوں نے ان تمام معاملات پر تبصرہ کرنے کے لیے بھیجے گئے پیغامات کا جواب نہیں دیا۔

اس کے تقریباً ایک برس بعد بینن پر بھی منی لانڈنگ کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ وہ کانگرس کے ایک حکم کی تعمیل نہ کرنے کے سبب اس وقت چار مہینے کی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.