وہ سابق وزیر جنھیں حکومت جانے کے بعد شاپنگ سینٹر میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنا پڑی

جب کسی بھی ملک میں حکومٹ کا تختہ الٹا جاتا ہے تو اس سے بہت سے لوگوں کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے خصوصاً ان افراد کی جن کا تعلق براہِ راست حکومت سے ہوتا ہے۔
محمد فرح عیسی غشان
Getty Images

جب کسی بھی ملک میں حکومٹ کا تختہ الٹا جاتا ہے تو اس سے بہت سے لوگوں کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے، خصوصاً ان افراد کی جن کا تعلق براہِ راست حکومت سے ہوتا ہے۔

ایسے افراد کو اکثر اپنی جانیں بچا کر ملک سے بھاگنا پڑتا ہے۔

ایسا ہی کچھ سابق صومالی وزیر محمد فرح عیسٰی غشان کے ساتھ ہوا جب 1990 کی دہائی کے آغاز میں خانہ جنگی کے بعد صومالی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انھیں اپنی جان بچا کر امریکہ جانا پڑا۔

امریکہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے دوران، غشان کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ خانہ جنگی کے باعث اب وہ اپنے گھر واپس لوٹ نہیں سکیں گے۔

اس بات کا احساس ہونے کے بعد انھوں نے امریکہ میں نوکری ڈھونڈنا شروع کی تاکہ صومالیہ میں رہ جانے والے اپنے خاندان کی مالی مدد کر سکیں۔

غشان کہتے ہیں کہ انھوں نے نوکری کی تلاش میں درجنوں جگہوں پر درخواستیں بھیجیں جس میں انھوں اپنی تمام سابقہ ​​پوزیشنوں، تعلیم اور تجربے کا حوالہ دیا۔ ’میں ایک سال تک درخواستیں بھیجتا رہا لیکن کہیں سے بھی جواب نہیں آیا۔‘

تقریباً ایک سال کے بعد ایک غیر ملکی مینیجر نے غشان کی نوکری کی درخواست کا جائزہ لے کر انھیں بتایا کہ ’اتنی قابلیت اور تجربہ رکھنے والے شخص کو کم از کم 80 ہزار ڈالر ملنے چاہییں اور جو ہم یہاں ادا نہیں کر پائیں گے۔ آپ زیادہ کوالیفائیڈ ہیں۔‘

اس کے بعد غشان نے اپنی ملازمت کی درخواستوں کی حکمت عملی تبدیل کی اور انھوں نے اپنے سابقہ ​​عہدوں اور تجربے کے بارے میں معلومت کو حذف کرتے ہوئے صرف اپنی انگریزی پر عبور کو اجاگر کیا۔

اور یہ حکمتِ عملی کام کر گئی اور انھیں جلد ہی دو کمپنیوں کی جانب سے جواب موصول ہوا۔

ان میں سے ایک شاپنگ سینٹر تھا جہاں سکیورٹی عملے کی ضرورت تھی۔

’انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں ایک سیکورٹی گارڈ کی ضرورت ہے اور میں نے ان کی آفر قبول کر لی۔ ایک چھوٹے سے ٹیسٹ کے بعد انھوں نے مجھے ملازمت پر رکھ لیا اور مجھے ایک وردی کے طور پر سفید قمیض اور کالی پتلون دی گئی اور ساتھ میں رابطے کے لیے ایک ریڈیو ٹراسمیٹر دیا گیا۔‘

’کیا آپ واقعی ہمارے سابق وزیر ہیں؟‘

غشان کہتے ہیں کہ ایک دن ڈیوٹی کے دوران انھیں ایک خاتون نے پہچان لیا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے دیکھ کر اس خاتون کو یقین نہیں آیا اور اس نے ان سے پوچھا ’اوہ مائی گاڈ، کیا آپ واقعی ہمارے سابق وزیر ہیں؟‘

غشان بتاتے ہیں کہ انھوں نے بمشکل اس خاتون کو یقین دلایا کہ وہ اپنی نوکری سے مطمئن ہیں اور انھیں اپنی خریداری جاری رکھنے کو کہا۔

غشان نے ایک سال تک سکیورٹی گارڈ کی نوکری کی۔ ان کے پاس اب بھی اپنی وردی کی وہ پتلون ہے جو وہ نوکری پر پہنا کرتے تھے۔

وہ تمام حکومتی عہدے جن پر غشان فائز رہے

محمد فرح عیسٰی جنھیں غشان کے نام سے جانا جاتا ہے، 1946 کے آخر میں گاروے اور قردھو شہر کے درمیان واقع دیہی علاقے میں پیدا ہوئے۔

انھوں نے اپنی نوعمری موغادیشو میں ایک یتیم خانے میں گزاری۔ غشان نے انڈرگریجویٹ ڈگری عمدا یونیورسٹی کے کالج آف پولیٹیکل سائنس سے حاصل کی۔

انھوں نے اپنی دوسری ڈگری امریکہ کی یونیورسٹی آف البینی سے حاصل کی۔

غشان ان نوجوانوں میں سے تھے جنھوں نے 1969 میں انقلاب کے نتیجے میں آنے والی فوجی حکومت کا خیر مقدم کیا تھا۔

انقلابی حکومت کے اقتدار کے دوران غشان کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

انقلابی حکومت کے اقتدار کے دوران غشان کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

غشان 1977 میں قراکا ٹریڈ یونین کی انسپکشن اور تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اس کے بعد تو جیسے ان پر ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔

1980 کی دہائی میں وہ پارلیمنٹ کے رکن رہے جبکہ 1984 میں وہ صومالیہ کے نائب وزیرِ صحت بنے۔ بعد ازاں انھوں نے وزارتِ خزانہ اور محنت و سماجی امور کی وزارت میں بھی نائب وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔

1985 کے آخر میں غشان ٹریڈ یونینوں کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ملک چھوڑنے تک وہ اس عہدے پر براجمان رہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.