خلع کی درخواست پر تشدد: ’میری ٹانگیں توڑ دی گئیں تاکہ میں عدالت نہ جا سکوں‘

صوبیہ شاہ پر تشدد کا یہ واقعہ وسطی سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں ہوا جس کے بعد مقامی پولیس نے مقدمہ درج کر کے صوبیہ کے والد اور کزن کو گرفتار کیا ہے۔ صوبیہ کے مطابق ان کے والد نے خلع کی درخواست پر انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔

’چچا نے میرے بازو پکڑے، والد نے ٹانگوں پر کلہاڑی کے وار کیے اور کہا کہ تم عدالت جاؤ گی اور ہماری پگڑی اچھا لوگی۔۔۔‘ یہ کہنا ہے صوبیہ شاہ کا جو اس وقت نواب شاہ کے پیپلز میڈیکل ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

صوبیہ شاہ پر تشدد کا یہ واقعہ وسطی سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں ہوا جس کے بعد مقامی پولیس نے مقدمہ درج کر کے صوبیہ کے والد اور کزن کو گرفتار کیا ہے۔

ایس ایس پی صدام خاصخیلی نے بتایا کہ صوبیہ اپنی شادی سے تنگ تھیں اور خلع لینا چاہتی تھیں جس پر ان کے والد اور چچا نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

صوبیہ پر حملے کے مقدمے میں نامزد چار ملزمان نے عدالت سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

سماجی کارکنان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی جانب سے مقدمے میں قابل ضمانت دفعات شامل کیے جانے کی وجہ سے ملزمان ریلیف حاصل کر رہے ہیں۔

عدالت میں خلع کے دعوے پر دھمکیاں

اس واقعے پر درج کیے گئے مقدمے کے متن کے مطابق صوبیہ کو بچپن میں ہی ان کے والد نے گھر سے نکال دیا تھا جس کے بعد سے وہ اپنے ننہیال میں والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

صوبیہ کے مطابق انھوں نے اپنے ماموں اور دیگر بزرگوں کے اصرار پر دوسری شادی کی تھی لیکن وہ اس سے کئی عرصے تک ناخوش رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری شادی ماموں کے بیٹے کے ساتھ کی گئی۔ وہ کراچی میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا، غیر تعلیم یافتہ اور پسماندہ ذہنیت کا شخص تھا۔ وہ ہر چیز پر شک کرتا، اس قدر کہ اگر خواتین سے بات کرتی تھیں تو اس پر بھی وہم کا شکار ہوجاتا تھا۔‘

صوبیہ چھ جماعتیں پاس ہیں اور ان کا ایک پانچ سالہ بیٹا بھی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ شادی کو آٹھ سال ہونے کے باوجود بھی معاملات ٹھیک نہیں ہو رہے تھے تو انھوں نے شوہر سے کہا کہ ’یا تو تم طلاق دے دو یا میں عدالت سے جا کر (خلع) لوں گی۔‘

صوبیہ نے بتایا کہ انھوں نے شوہر کی شکایت ماموں اور ساس سے بھی کی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ’ان کے بیٹے کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے۔‘

صوبیہ شاہ نوشہرفیروز میں اپنی والدہ کے پاس آگئیں۔ بقول ان کے سات آٹھ ماہ ہوگئے لیکن ان کے شوہر نے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بیٹے کی خیریت معلوم کی۔

ان کے مطابق انھیں اس معاملے پر والد، چچا اور دیگر رشتے دار دھمکیاں دیتے رہے جس کے بعد وہ پولیس سے تحفظ لے کر عدالت میں پیش ہوئیں اور عدالت نے انھیں دارالامان بھیجا جہاں سے وہ اپنی والدہ کے گھر پر آگئیں۔

صوبیہ کے مطابق جب انھوں نے کیس دائر کیا تو واضح کہا کہ والد اور چچا وغیرہ درمیان میں نہ آئیں۔ انھوں نے بچپن سے ’یتیموں جیسی زندگی گزاری، اب یہ ہمارے وارث بن رہے ہیں۔ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے۔‘

ان کے بقول اس پر ان کے والد اور چچا ناراض ہوئے اور دھمکیاں دینے لگے۔

’دیکھتے ہیں اب عدالت کیسے جاؤ گی‘

صوبیہ نے نوشہروفیروز کی عدالت میں خلع کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی سماعت 25 جولائی کو ہونا تھی اور ایک رات قبل ان پر حملہ کیا گیا۔

اس مقدمے کے متن کے مطابق صوبیہ نے بتایا کہ سب لوگ رات کا کھانا کھا کر، کنڈی لگا کر سوگئے تھے مگر رات کو تقریباً ایک بجے ’والد، چچا اور کزن اسلحے اور کلہاڑیوں کے ساتھ (گھر میں) موجود تھے۔‘

انھوں نے ان پر ’بندوق کے بٹ سے تشدد کرنا شروع کیا۔ جب والدہ، بہن، بھائی درمیان میں آئے تو ان پر بھی تشدد کیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے بازو اور ٹانگیں پکڑی گئیں۔ اس کے بعد والد نے دونوں ٹانگوں پر وار کیے اور میں تڑپتی رہی۔‘

ان کے بقول ان کے والد نے ان سے کہا کہ ’اب تمھاری ٹانگیں توڑ دی ہیں، لنگڑا کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں عدالت کیسے جاتی ہو۔ پھر بھی گئی تو اگلی مرتبہ جان سے جاؤ گی۔ عورت ہو کر معتبر بنتی ہو اور عدالت میں جاتی ہو۔‘

صوبیہ کے مطابق صبح چھ بجے تک ان کا خون بہہ رہا تھا اور تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہوگئی تھیں جس کے بعد چھوٹا بھائی تھانے گیا اور پولیس نے انھیں ہسپتال منتقل کیا۔

والد اور کزن گرفتار مگر چار ملزمان ضمانت پر

نوشہروفیروز پولیس نے صوبیہ کی فرہاد پر ان کے والد، چچا اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کر کے والد اور کزن کو گرفتار کرلیا ہے۔

ایس ایس پی صدام خاصخیلی نے بتایا کہ لڑکی نے پہلے تحفظ کی درخواست کی تھی جس کے بعد اس کو عدالت میں پیش کر کے دارالامان بھیجا گیا۔

ان کے مطابق وہ وہاں سے اپنی رضا سے واپس آئیں۔ ’اس کی شادی کزن سے کی گئی تھی جس سے وہ خلع لینا چاہتی تھی۔اس کے والد اور چچا ناراض تھے اور انھوں نے اس پر تشدد کیا۔‘

نواب شاہ کے ہسپتال میں زیر علاج صوبیہ کہتی ہیں کہ انھیں کمزوری محسوس ہو رہی ہے اور چکر بھی آ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان میں خون کی کمی ہے۔

ایم ایس ڈاکٹر یار محمد جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبیہ کو ان کے پاس 25 جولائی کی شام لایا گیا تھا۔ ’ان کی دونوں ٹانگوں میں فریکچر ہیں لیکن زخم زیادہ گہرے نہیں ہیں۔ دونوں ٹانگیں آپریشن سے بہتر ہوجائیں گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’خون زیادہ بہنے کی وجہ سے صوبیہ میں اس وقت ہیمو گلوبن کی کمی ہے جس کے لیے انھیں خون لگایا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ پیر تک اس کی حالت میں بہتری آئے گی اور اس کا آپریشن کیا جائے گا۔‘

صوبیہ پر حملے کے مقدمے میں نامزد چار ملزمان نے عدالت سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

مقامی ایکٹوسٹ اور وکیل لالہ حسن پٹھان کہتے ہیں کہ پولیس نے ’کمزور مقدمہ بنایا ہے جس کی وجہ سے ملزمان با آسانی ریلیف لے رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق پولیس نے مقدمے میں ’قابل ضمانت دفعات شامل کی ہیں۔ ماسوائے دفعہ 324 کے، ایف آئی آر میں ملزمان کا زخموں کے حوالے سے کردار بھی واضح نہیں کیا گیا۔ جیسے کہ فلاں ملزم نے سر پر اور فلاں نے ٹانگ پر چوٹ لگائی۔ جس سے ملزمان کو ضمانت میں فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

حسن پٹھان کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ابتدا سے ہی عدم دلچسپی ظاہر کی ہے حالانکہ یہ مقدمہ واضح طور پر اس ذہنیت کے بارے میں ہے جو عورت کے عدالت جانے کو جرم سمجھتی ہے۔

ایس ایس پی صدام خاصخیلی کہتے ہیں ڈاکٹروں کی رپورٹس کے مطابق ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کے حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک میں 499017 طلاق یافتہ افراد موجود ہیں، جن میں سے 270130 افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.