’کینیڈی کے قتل کی گوگل سرچ‘ علاقے کی ریکی، ایک رائفل اور دو بموں سے لیس کروکس ٹرمپ کی ریلی میں کیسے پہنچے؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر 13 جولائی کو ہونے والے حملے کے بعد یہ تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں کہ اس واقعے کی منصوبہ بندی کیسے کی گئی اور کیسے سکیورٹی کی ناکامی کے سبب حملہ آور اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے قریب پہنچا۔
امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ، کروکس
Getty Images
پینسلوینیا میں ہونے والے حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا

پنسلوینیا میں تھامس میتھیو کروکس بغیر کسی رُکاوٹ کا سامنا کیے ایک بندوق، دھماکہ خیز مواد اور ہدف تک کا فاصلہ ناپنے کے لیے ایک رینج فائنڈر لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں داخل ہوئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر 13 جولائی کو ہونے والے حملے کے بعد یہ تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں کہ اس واقعے کی منصوبہ بندی کیسے کی گئی اور کیسے سکیورٹی کی ناکامی کے سبب حملہ آور اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے قریب پہنچا۔

خیال رہے کہ پنسلوینیا میں اس حملے میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا اور ایک گولی ڈونلڈ ٹرمپ کے کان کو چھوتے ہوئے گزر گئی تھی۔

اس ہفتے امریکی کانگرس میں اس حملے کے حوالے سے تین سماعتیں ہوئیں جن میں سیکرٹ سروس، ایف بی آئی اور پنسلوینیا پولیس کے سربراہان نے نہ صرف بریفنگ دی بلکہ انھیں سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

کانگریس کی ان سماعتوں میں ہونے والی گفتگو سے ایسی تفصیلات منظرِعام پر آئی ہیں جن سے کئی سوالات کے جوابات ملتے ہیں۔

حملے کی تیاری

اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والا حملہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے نہیں ہوا تھا بلکہ حملہ آور نے اس کی تیاری کر رکھی تھی۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ 6 جولائی کو کروکس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں شرکت کے لیے خود کو رجسٹر کروایا اور گوگل پر سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے حوالے سے معلومات بھی اکٹھی کرتا رہا کہ حملہ آور ’کینیڈی سے کتنا دور تھا؟‘

لی ہاروے آسولڈ وہ شخص تھا جس نے نومبر 1963 میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے بدھ کو کانگرس کو بتایا کہ ’یہ ایک (گوگل) سرچ تھی اور یہ اس لیے اہم ہے کہ ہمیں اس سے حملہ آور کی دماغی حالت کا پتا چلتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ گوگل پر دیگر سرچز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد کروکس نے اپنی ’توجہ‘ ٹرمپ پر مرکوز کر لی تھی۔

ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور اکیلا ہی اس حملے میں ملوث تھا اور اسے کسی اور کی مدد حاصل نہیں تھی۔

اس سے قبل کروکس نے ریلی کے مقام کی ریکی بھی کی۔ کرسٹوفر رے کے مطابق ریلی کی ابتدا سے قبل کروکس نے سٹیج سے تقریباً 200 میٹر دور ایک ڈرون بھی اُڑایا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈرون کا کیمرا تقریباً 11 منٹ تک کام کرتا رہا اور اس کی ویڈیو میں ریلی کے مقام کو دور سے دیکھا جا سکے گا۔

ہمیں میتھیو کروکس کے بارے میں کیا معلوم ہے؟

ایف بی آئی کے ڈرائریکٹر کرسٹوفر رے کہتے ہیں کہ کروکس نے قانونی طریقے سے اپنے والد سے ایک اے آر 15 رائفل خریدی تھی۔ اس بندوق کا دستہ باہر کی طرف نکلا ہوا تھا جس کے سبب اس کا استعمال آسان ہوجاتا ہے۔

اس ریلی کے دوران پولیس اہلکاروں نے یہ اطلاع دی تھی کہ حملہ آور رینج فائنڈر استعمال کر رہا ہے۔

اس وقت کروکس کے پاس دھماکہ خیز مواد بھی موجود تھا: حملے کے بعد ان کی گاڑی سے دو ’کروڈ ڈیوائسز‘ بھی برآمد ہوئی تھیں، جس کا ٹرانسمیٹر حملہ آور کی جیب میں تھا۔

کروکس کی جیب سے سیڑھی کی ایک خون آلود رسید بھی ملی تھی جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سیڑھی انھوں نے حال ہی میں خریدی تھی۔ تاہم جائے وقوعہ سے کوئی سیڑھی برآمد نہیں ہوئی۔

کرسٹوفر رے کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے عمارت کی چھت پر پہنچنے کے لیے ’مکینیکل سامان‘ کا استعمال کیا۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے بیان سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ ایک رائفل، ماضی میں ہونے والے قتل کی معلومات، دو بم اور علاقے کی پوری معلومات سے لیس ہو کر کروکس ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں پہنچے تھے۔

امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ، کروکس
BBC
ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور اکیلا ہی اس حملے میں ملوث تھا

منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عمل

اتنے سارے سامان کے ساتھ کسی صدارتی ریلی میں کسی شخص کا داخل ہونا تقریباً ناممکن ہونا چاہیے، لیکن پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں کروکس نے بالکل ایسا ہی کیا اور ایک ایسی جگہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے انھیں ریلی کا سٹیج صاف نظر آ رہا تھا۔

کانگرس کے سامنے پنسلوینیا کے پولیس کمشنر کرسٹوفر پیرس نے جو بیان دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 13 جولائی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے متعدد غلطیاں کیں۔

ریلی کے اطراف میں سکیورٹی کے انتظامات کو دو پرتوں میں تقسیم کیا گیا تھا: باہر کی سکیورٹی پولیس کے پاس تھی، جبکہ ریلی کے اندر سکیورٹی کے انتظامات سیکرٹ سروس نے سنبھالے ہوئے تھے۔

وہاں ایک آپریشن سینٹر بھی قائم کیا گیا تھا جس میں متعدد ایجنسیوں کے اہلکار موجود تھے۔ لیکن ریلی والے دن ان لوگوں کے درمیان کمیونیکیشن کا فقدان تھا اور یہ بات بھی واضح نہیں تھی کہ کسے کس چیز کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

پولیس کمشنر نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ پولیس کو اس عمارت کے قریبی علاقے کی سکیورٹی کی ذمہ داری دی گئی تھی جہاں سے کروکس نے ریلی پر فائرنگ کی۔

یہ دراصل اے جی آر انٹرنیشنل نامی ادارے کا ایک گودام تھا جو کہ ٹرمپ کے سٹیج سے تقریباً 400 فٹ کی دوری پر تھا۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس افسران نے ریلی سے قبل کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا اور انھیں سیکرٹ سروس کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ریلی کے مقام کے باہر جو علاقہ ہے اس کی سکیورٹی کی ذمہ دار پولیس ہو گی۔

کرسٹوفر پیرس کے مطابق اسی سبب اس عمارت کے اندر ایک ایمرجنسی سروس یونٹ کو تعینات کیا گیا تھا۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ ٹیم صرف دو پولیس اہلکاروں پر مشتمل تھی اور وہ بھی گرم موسم کے سبب عمارت کے اندر موجود تھے۔ اخبار کے ذرائع کے مطابق اس سکیورٹی پلان کی منظوری سیکرٹ سروس نے دی تھی۔

سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کمبرلی چیٹل رواں ہفتے اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کانگریس کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ عمارت کی چھت کے اوپر سکیورٹی اہلکاروں کو کیوں تعینات نہیں کیا گیا۔

امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ، کروکس
Getty Images
ریلی کے اطراف میں سکیورٹی کے انتظامات کو دو پرتوں میں تقسیم کیا گیا تھا

فائرنگ شروع ہونے سے قبل دو مرتبہ سیکرٹ سروس کو کروکس کے بارے میں بتایا گیا

پولیس کمشنر کرسٹوفر پیرس کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کروکس کی وہاں موجودگی کی اطلاع پولیس اہلکاروں کی جانب سے آئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ باقی لوگوں کی طرح حملہ آور نے پنڈال میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔

’کروکس کبھی سکیورٹی کے حصار سے گزر کے گئے ہی نہیں۔‘

کرسٹوفر پیرس کے مطابق کروکس ان تین لوگوں میں شامل تھے جنھیں اس وقت ’مشتبہ‘ قرار دیا گیا تھا۔

پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ ریلی کے شروع ہونے سے تقریباً 25 منٹ پہلے کروکس ایک بار پھر ایمرجنسی سروس یونٹ کو نظر آئے تھے۔ اس مرتبہ سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں رینج فائنڈر کے ذریعے دیکھا، لیکن انھیں کروکس کے پاس بندوق نہیں نظر آئی۔

ایمرجنسی سروس یونٹ کے اہلکاروں نے کروکس کی ایک تصویر بھی آپریشن سینٹر بھیجی۔ کرسٹوفر پیرس کہتے ہیں کہ سیکرٹ سروس کے ایک اہلکار نے یہ تصویر ایک دوسرے نمبر پر بھیجنے کے احکامات دیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی کے ذمہ دار ایجنٹس نے اس وقت تک کروکس کو کوئی بڑا خطرہ تصور نہیں کیا تھا، کیونکہ انھوں نے اس کے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھی تھی۔

کانگرس میں سماعت کے دوران کمبرلی شیٹل نے یہ قبول کیا تھا کہ فائرنگ شروع ہونے سے قبل دو مرتبہ سیکرٹ سروس کے ایجنٹس کو کروکس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایجنٹس کو اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ ’گولیاں چلنے سے کچھ سیکنڈ پہلے‘ ہی ہوا۔

نازک لمحات

پولیس کمشنرکرسٹوفر پیرس نے کانگرس کو بتایا کہ مقامی پولیس اور ایمرجنسی سروس یونٹ نے کروکس کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ بظاہر یہ لگتا تھا کہ وہ کہیں گُم ہوگئے ہیں اور خطرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس دوران انھوں نے عمارت کی چھت پر ایک شخص کو بندوق ہاتھ میں لیے رینگتے ہوئے دیکھا۔ جب یہ سب ہو رہا تھا اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ ریلی کے سٹیج پر پہنچ چکے تھے۔

کرسٹوفر پیرس کہتے ہیں کہ اس وقت مقامی پولیس اور ایمرجنسی سروس یونٹ نے کروکس کو دیکھ لیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار نے عمارت کی چھت پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن کروکس نے مزاحمت کی اور پولیس اہلکار زمین پر گر گئے۔

پولیس کمشنر کہتے ہیں یہ واقعہ فائرنگ شروع ہونے سے ’چند سیکنڈ قبل‘ پیش آیا۔

جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حصار میں لے لیا اور اگلے دو منٹ کے اندر انھیں سٹیج سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت تک کروکس کو بھی ایک سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

کروکس کی لاش کے پاس سے گولیوں کے آٹھ خول برآمد ہوئے تھے۔ ان کی فائرنگ کے سبب ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت یہ قیاس آرائیاں بھی چل رہی تھیں کہ حملے میں ٹرمپ کو گولی لگی بھی تھی یا نہیں۔ تقریباً دو ہفتوں بعد ایف بی آئی نے تصدیق کی کہ ٹرمپ اس ہی گولی سے زخمی ہوئے تھے جو کروکس کی بندوق سے چلی تھی۔

ایک بیان میں ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ: ’سابق صدر ٹرمپ کے کان پر جو گولی لگی تھی وہ حملہ آور کی رائفل سے ہی چلی تھی۔‘

امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ، کروکس
Getty Images
کانگرس میں سماعت کے ایک روز بعد کمبرلی شیٹل نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا

خطرے کے باوجود ٹرمپ کو سٹیج پر کیوں جانے دیا گیا؟

کروکس کو دیکھے جانے اور فائرنگ شروع ہونے کے درمیان تقریباً 10 منٹ کا وقفہ تھا اور اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ سٹیج پر موجود تھے۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی معلومات منظرِعام پر نہیں آئی ہیں کہ اس دوران سیکرٹ سروس نے کیا اقدامات کیے۔

کانگرس میں سماعت کے دوران کمبرلی شیٹل نے متعدد سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا، ان سوالات میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کتنے ایجنٹس ڈونلڈ ٹرمپ کی حفاظت پرمامور تھے۔

ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ موقع پر موجود سیکرٹ سروس کے ایجنٹس نے مقامی پولیس کی جانب سے جاری انتباہ کو نظرانداز کیا تھا کیونکہ پہلے کروکس کو کسی بندوق کے ساتھ نہیں دیکھا گیا تھا۔

کمبرلی شیٹل واقعے اور اس کی ٹائم لائن کے حوالے سے تفصیلات دینے سے قاصر نظر آئیں اور کہتی رہیں کہ ان کے پاس تمام معلومات موجود نہیں۔

کانگرس میں سماعت کے ایک روز بعد کمبرلی شیٹل نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ، کروکس
Reuters
کروکس کی سکول کے زمانے کی تصویر

حملے کے پیچھے کروکس کا مقصد کیا تھا؟

تقریباً دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ہمیں تاحال یہ نہیں معلوم کہ کس مقصد اور کس نظریے کے زیرِ اثر کروکس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کہتے ہیں کہ ان کی تحقیقات جن ’مرکزی سوالات‘ پر مرکوز ہے ان میں یہ سوال بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کروکس سے جُڑے لوگوں، ان کے گھر کی تلاشی اور ان کی انٹرنیٹ ہسٹری کو دیکھ کر بھی کوئی ’واضح تصویر‘ نظر نہیں آتی۔

کرسٹوفر رے نے کانگرس کو مزید بتایا کہ حملہ آور کے فون کا تجزیہ کیا گیا اور اس سے معلوم ہوا کہ انھوں نے نیوز آرٹیکلز سرچ کیے تھے، لیکن اس میں بھی کوئی واضح رجحان نظر نہیں آتا۔

ان کے مطابق تفتیش کار ابھی بھی کروکس کے فون میں موجود میسجز کو پڑھ رہے ہیں۔

تاہم ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ انھوں نے 2021 میں کیپیٹل ہِل پر ہونے والے حملے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کو 15 ڈالر کا عطیہ دیا تھا، لیکن کچھ مہینوں بعد انھوں نے اپنی رجسٹریشن بطور رپبلکن پارٹی کے ووٹر کروائی تھی۔

کروکس کے پاس جو دو بم موجود تھے وہ اس سے کیا کرنا چاہتے تھے، یہ بات اب بھی غیر واضح ہے۔ تاہم ہمیں ایک بات ضرور معلوم ہے کہ ان بموں کے ریسیور بند تھے اور کروکس ان بموں کو کسی ریموٹ کے ذریعے نہیں چلا سکتے تھے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.