خلیجی ممالک میں پاکستانی آئی ٹی پروفیشنلز اور انجینیئرز کی مانگ میں اضافہ

image

بیرون ملک ملازمت پاکستان کے ہر دوسرے نوجوان کا خواب ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ملازمتوں کے کم مواقع اور کم آمدن ہے، جبکہ بیرون ملک ملازمت کی وجہ سے نہ صرف بہتر آمدن میسر آتی ہے بلکہ لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوتا ہے۔

گذشتہ اڑھائی برس میں پاکستان سے 22 لاکھ پاکستانیوں نے بیرون ملک ملازمتیں حاصل کی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بیورو آف امیگریشن سے پروکٹوریٹ لگوایا۔ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

وزارت اوورسیز پاکستانیز کے مطابق ’بیرون ملک جانے والے 65 فیصد پاکستانی اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں لیکن 35 فیصد کا پتہ ہمیں ایئرپورٹ پر ان کی آمد سے پتہ چلتا ہے جو از خود بیرون ملک کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرتے ہوئے خود ہی ویزہ لگوا لیتے ہیں۔‘

اعداد شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں بیرون ملک جانے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے جبکہ گذشتہ آٹھ لاکھ 62 ہزار پاکستانی بیرون ملک گئے تھے۔ سال 2022 میں یہ تعداد آٹھ لاکھ 60 ہزار تھی۔

گذشتہ اڑھائی سال میں بیرون ملک جانے والے کل پاکستانیوں کا 90 فیصد سے زائد عرب ممالک میں گیا ہے جبکہ 50 فیصد نے سعودی عرب کا رخ کیا ہے۔ اڑھائی سال میں سعودی عرب نے 12 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں جبکہ متحدہ عرب امارات نے چار لاکھ سے زائد اور عمان نے دو لاکھ کے قریب لوگوں کو ملازمتیں دیں۔

پاکستانیوں کی ترجیح خیلجی ممالک ہی کیوں؟

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، کویت، اور بحرین کئی دہائیوں سے پاکستانی محنت کشوں کے لیے پسندیدہ منزل رہے ہیں۔ یہ گہرا تعلق صرف اقتصادی نہیں بلکہ تاریخی بھی ہے، کیونکہ پاکستان اور ان ممالک کے درمیان ثقافتی، مذہبی اور سیاسی رشتے مضبوط ہیں۔ برسوں سے لاکھوں پاکستانیوں نے جی سی سی ممالک کا رخ کیا، جہاں انہوں نے ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پاکستان کی معیشت کو بھی بڑی حد تک سہارا دیا۔

تاریخی تعلقات اور ہجرت کے رجحانات

پاکستان اور جی سی سی ممالک کے درمیان تعلقات پاکستان کی آزادی کے ابتدائی سالوں سے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں تیل کی دولت کے باعث خلیجی ممالک میں مزدوری کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا، اور پاکستان اس وقت اہم افرادی قوت فراہم کرنے والا ملک بن کر ابھرا۔

مشترکہ اسلامی ورثے اور مضبوط سفارتی تعلقات نے اس مزدوری کی ہجرت کو مزید آسان بنایا۔ آج تقریباً 96 فیصد پاکستانی بیرون ملک افرادی قوت خلیجی ممالک میں کام کرتی ہے، جو کہ اس خطے میں سب سے بڑی پاکستانی برادری میں سے ایک ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 45 لاکھ پاکستانی مختلف خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی محنت کشوں کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے، جن کی تعداد تقریباً 30 لاکھ اور 15 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ محنت کش مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

بیرون ملک پاکستانی کن شعبوں میں ملازمتیں حاصل کرتے ہیں؟

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستانیوں کی بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے والی بڑی تعداد غیر ہنر مند افراد اور مزدوروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ صرف گذشتہ سال پاکستان سے بیرون مالک جانے والے آٹھ لاکھ 62 ہزار افراد میں سے چار لاکھ مزدور اور دو لاکھ ڈرائیورز تھے جبکہ باقی دو لاکھ ساٹھ ہزار کا تعلق دیگر 40 شعبہ جات سے تھا جن میں انجینیئر، ڈاکٹرز، نرسز، خانسامے، اکاونٹنٹ ، اساتذہ اور بڑھئی وغیرہ بھی شامل ہیں۔

پاکستانیوں کی ملازمت کے حوالے سے اہم شعبہ جات درج ذیل ہیں۔

تعمیرات

یہ شعبہ پاکستانی مزدوروں کا سب سے بڑا آجر ہے۔ خاص طور پر غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند محنت کشوں کے لیے یہاں بہت سے مواقع ہیں۔ پاکستانی خلیجی ممالک کی تیز رفتار شہری ترقی اور توسیع کے لیے بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔

 صحت کا شعبہ

 خلیجی ممالک کے صحت کے شعبے میں پاکستانی ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کویت جیسے ملک جس نے پاکستانیوں کو ویزہ دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی دس سال بعد اسے ختم کیا ہے اور اب چار ہزار سے پاکستانی ہیلتھ پروفیشنل خدمات انجام دے رہے ہیں۔

آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن

جی سی سی ممالک کے ڈیجیٹلائزیشن اور سمارٹ سٹی کے منصوبوں کے تحت پاکستانی آئی ٹی پروفیشنلز اور انجینئرز کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ جاپان اور جرمنی جیسے ممالک بھی پاکستانی آئی ٹی ماہرین کی طلب بڑھ رہی ہے۔

ہاسپٹلیٹی اور خدمات

پاکستانی کارکنان ہاسپٹلیٹی سیکٹر میں نمایاں ہیں، خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں جہاں سیاحت ایک بڑا شعبہ ہے۔

ہنر مند کارکنوں کی طلب اور پاکستان کے اقدامات

خلیجی ممالک میں لیبر مارکیٹ بتدریج غیر ہنر مند مزدوری کے بجائے ہنر مند مزدوروں کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ مختلف نیشنلائزیشن پالیسیوں جیسے سعودائزیشن اور اماراتائزیشن کے تحت مقامی افراد کو ہنر مند ملازمتوں میں بھرتی کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم جی سی سی ممالک اب بھی اپنے لیبر کی طلب پوری کرنے کے لیے بڑی حد تک غیر ملکی محنت کشوں پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں مقامی مہارت کی کمی ہے۔

پاکستان کے فنی تربیتی پروگرام بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھل رہے ہیں۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن جیسے اقدامات اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستانی مزدوروں کی مہارت کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالا جائے۔

وزارت سمندر پار پاکستانیز کے حکام کے مطابق پاکستان فعال طور پر خلیجی ممالک میں ہنر مند افرادی قوت کے حصے کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ حکومت، اپنے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل  کے ذریعے ان شعبوں کی شناخت کر رہی ہے جہاں ہنر کی طلب زیادہ ہے اور پاکستانی مزدوروں کو جی سی سی کے آجروں کی ضروریات کے مطابق تربیت اور تصدیق دلانے کی کوششیں کر رہی ہے۔

مختلف سٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈیٹا کے تبادلے کو ہموار کرنے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں تاکہ پاکستانی مزدوروں کو بیرون ملک ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

آنے والے سالوں میں صحت، قابل تجدید توانائی، آئی ٹی اور تعمیرات جیسے شعبوں میں خلیجی ممالک میں ہنر مند مزدوروں کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان اپنی فنی تربیتی پروگراموں کو مضبوط بنا کر اور خلیجی ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کو فروغ دے کر ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔

ویزا پروسیجرز اور چیلنجز

پاکستانی تارکین وطن مزدوروں کے لیے ویزا کے طریقہ کار میزبان ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن عام طور پر چند اہم مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں:

ملازمت کی پیشکش

 پہلا مرحلہ ملازمت کی پیشکش حاصل کرنا ہے۔ آجروں کی طرف سے عام طور پر ایک پیشکش خط فراہم کیا جاتا ہے جس میں ملازمت کی تفصیلات، تنخواہ اور دیگر شرائط بیان کی جاتی ہیں۔

ویزا کی درخواست

 کارکن اکثر اپنے آجر کی مدد سے متعلقہ ملک کے سفارت خانے یا قونصلیٹ میں ویزا کی درخواست جمع کراتا ہے۔ اس درخواست میں عام طور پر پیشکش خط، پاسپورٹ، طبی معائنہ کی رپورٹس، اور قابلیت کے ثبوت شامل ہوتے ہیں۔

ورک پرمٹ

 ایک بار ویزا منظور ہونے کے بعد، کارکن کو ورک پرمٹ دیا جاتا ہے، جو انہیں میزبان ملک میں قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کچھ صورتوں میں، ورک پرمٹ میزبان ملک میں پہنچنے پر جاری کیا جاتا ہے۔

پروٹیکٹر اور بریفنگ

روانگی سے قبل پاکستانی ورکرز کو اپنے پاسپورٹ پر پروٹیکٹر لگوانا ہوتا ہے جس کے لیے مختلف شہروں میں مراکز قائم ہیں۔ اب یہ پروٹیکٹر آن لائن بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت تارکین وطن مزدوروں کے لیے روانگی سے قبل ایک تربیتی سیشن کو لازمی قرار دیتی ہے، جس میں ان کے حقوق، میزبان ملک کے قانونی ڈھانچے، اور نئے ماحول میں ڈھلنے کے مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.