’نوکری کرنی ہے، جاؤ پہلے شوہر سے اجازت لے کر آؤ‘

ندا بتاتی ہیں کہ جب وہ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے گئیں تو انھیں کہا گیا ’پہلے تحریری بیان دیں کہ مجھے میرے شوہر کی طرف سے کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔‘
An Iranian woman working as a seamstress in a lingerie factory in Tehran
Getty Images

’جب میں ایک ملازمت کے لیے انٹرویو دینے گئی تو مجھ سے کہا گیا کہ پہلے تحریری بیان دیں کہ مجھے میرے شوہر کی طرف سے کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔‘

یہ الفاظ ندا کے ہیں جنھوں نے ایران میں آئل اینڈ گیس انجینیئرنگ میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ ندا کہتی ہیں کہ یہ سن کر انھیں بہت بے توقیری محسوس ہوئی۔

’میں نے انھیں کہا کہ میں ایک بالغ عورت ہوں اور یہ کہ میں اپنے فیصلے خود آزادی سے کرتی ہوں۔‘

ندا وہ واحد خاتون نہیں ہیں جن کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ ایران میں شادی شدہ خواتین کو ملازمت کے لیے اپنے خاوند کی طرف سے تحریری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ یہ ان بہت ساری رکاوٹوں میں سے ایک ہے جب کوئی خاتون ملازمت کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے۔

ورلڈ بینک نے اپنی سنہ 2024 کی رپورٹ میں ایران کو صنف کی بنیاد پر ملازمتوں کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں رکھا ہے۔ ایران سے صرف یمن، مغربی کنارہ اور غزہ ہی درجہ بندی میں نیچے ہیں۔

دیگر اعداد و شمار بھی یہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی سنہ 2024 کی ’گلوبل جینڈر گیپ‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 146 ممالک کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایران ملازمتوں کی مارکیٹ میں خواتین کی شرکت سے متعلق کم ترین درجے پر ہے۔

Graphic
BBC

سنہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایران میں یونیورسٹی گریجویٹس کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ زائد بنتی ہے۔ تاہم ملازمتوں میں ان کی یہ تعداد 12 فیصد تک ہی بنتی ہے۔ صنف سے متعلق قوانین کے علاوہ جنسی ہراسانی اور دقیانوسی تبصرے ان خواتین کے لیے کام کی جگہ کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔

اس خبر کے لیے بی بی سی نے جتنی خواتین سے بات کی ہے ان کی کثیر تعداد کا یہ کہنا ہے کہ انھیں کام کی جگہ پر زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

ورلڈ بینک کی ایک سابق مشیر نادرہ چیملو کا کہنا ہے کہ ’ایران میں متعدد قانونی اور ثقافتی رکاوٹیں خواتین کو افرادی قوت کی مارکیٹ سے دور رکھتی ہیں۔‘

نادرہ کا کہنا ہے کہ لیگل فریم ورک کی کمی اور قانونی حدود، صنف کی بنیاد پر کم تنخواہ سمیت دیگر مسائل ایرانی خواتین کو ملازمت سے دور رکھتے ہیں۔

قانونی اور ثقافتی روکاوٹیں

مردوں کو یہ پتا ہے کہ وہ قانونی طور پر اپنی بیگمات کو ملازمت اختیار کرنے سے روک سکتے ہیں اور کچھ مرد تو قانون کو اپنے خاص استحقاق کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایک ایرانی تاجر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بار تو انھوں نے انتہائی غصے میں ایک مرد کو ہاتھ میں لوہے کا ڈنڈا لہراتے ہوئے دفتر کی طرف چیختے چلاتے دیکھا جو یہ کہہ رہے تھے کہ ’آپ کو کس نے میری بیوی کو یہ ملازمت دینے کی اجازت دی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب کوئی خاتون ان کے پاس ملازمت کے لیے آئیں تو ان سے وہ اجازت نامہ طلب کریں۔

رضیہ ایک نوجوان پیشہ وارانہ خاتون ہیں جو ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ انھوں نے ایک اسی طرح کا واقعہ سنایا کہ جب ایک ناراض مرد نے ان کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور کمپنی کے سی ای او کو کہا کہ ’مجھے یہ منظور نہیں ہے کہ میری بیگم یہاں پر کام کریں۔‘

رضیہ کے مطابق سی ای او نے پھر اس خاتون کو بتایا کہ جو کہ اس وقت اس کمپنی میں سینیئر اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں کہ گھر جائیں اور پہلے اپنے شوہر کے ساتھ معاملات سیدھے کریں، بصورت دیگر وہ مستعفی ہو جائیں۔

بالآخر اس خاتون نے پھر استعفیٰ ہی دیا۔

نادرہ چیملو کے مطابق نئے قانون نے بہت سی کمپنیوں کو نوجوان خواتین کو ملازمت دینے سے انکار کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کے مطابق اب یہ کمپنیاں ان خواتین پر سرمایہ نہیں لگاتیں جو بعد میں شادی کریں اور پھر ان کے خاوند ممکنہ طور پر انھیں ملازمت جاری رکھنے کی اجازت نہ دیں۔

An Iranian woman works behind the counter at a high-end French sushi chain that opened the previous week in northern Tehran in 2017
Getty Images

مگر جب یہ خواتین اپنے خاندان اور خاوند سے لڑ کر اجازت بھی لے لیں تو پھر انھیں ایک ایسی جگہوں پر کام کرنا ہوتا ہے جہاں امتیازی سلوک کے پشت پر قانون بھی موجود ہوتا ہے۔

ایران میں ایک ایسا ہی قانون آرٹیکل 1105 کی صورت میں موجود ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سول کوڈ کا حصہ ہے۔ اس قانون میں خاوند کو خاندان کا سربراہ اور نان نفقے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ مردوں کو خواتین پر ملازمت کے وقت ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر خواتین کو ملازمت مل بھی جائے تو ان خواتین کی مرد ملازمین کے مقابلے میں تنخواہ بہت تھوڑی ہوتی ہے۔

Women produce saffron at Novin Saffron company in Mashhad, Iran, in 2021
Getty Images

رض اب 30 برس کے قریب پہنچ چکی ہیں اور انھوں نے متعدد بار اپنی ملازمت تبدیل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی ملازمتیں ختم ہوئیں تو پہلے خواتین کو ہی گھر جانا پڑا۔ ان کے مطابق آخری ملازمت میں بھی ایسا ہوا جب ادارے میں تنظیم نو ہوئی تو زیادہ تر خواتین کو ہی گھر بھیجا گیا۔

ایک اور خاتون جنھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایک دہائی بعد اپنی ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا فیصلہ تب کیا جب انھیں یہ یقین ہو گیا کہ انھیں کبھی ترقی نہیں ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ جب تک مرد ان ملازمتوں کے لیے میسر ہیں جو کم اہلیت بھی رکھتے ہوں تو بھی مجھے کبھی ترقی نہیں ملے گی لہٰذا یہ میرے وقت کا ضیاع ہی ہے۔

نادرہ کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کو قانونی طور پر نان نفقے کے لیے ذمہ دار ہی نہیں سمجھا جاتا اور انھیں اہلیت پر پورا اترنے کے باوجود گھر کے لیے کسی بھی قسم کے فوائد اور بونس وغیرہ کا بھی حقدار نہیں سمجھا جاتا۔ کئی معاملات میں تو اگر وہ اس چیز کی اہلیت بھی رکھتی ہوں تو بھی ان کے متعدد برس کام کے باوجود انھیں مجموعی منافع نہیں دیا جاتا جو ان کے خاندان کا حق ہوتا ہے جیسے پینشن وغیرہ۔

Iranian women without a mandatory hijab sit in Bam-e Tehran (Roof of Tehran) overlooking the city of Tehran, 2024
Getty Images

ان کے مطابق وہ خواتین کے ان فوائد میں بھی کمی کر دیتے ہیں جو وہ اپنے خاندان کے لیے لے جا سکتی ہیں۔

سپیدی نے تہران یونیورسٹی سے آرٹس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، وہ وہاں پڑھاتی تھیں اور آرٹ کے آزاد پروجیکٹ چلاتی تھیں، لیکن چند سال ہو گئے ہیں کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گریجویشن کے بعد میں نے یہ سوچا کہ میں بھی کئی میرے جان پہچان والے مردوں کی طرف گزر بسر کروں گی۔ مگر ہمارا سماجی، معاشی ڈھانچہ کچھ اس طرح سے استوار کیا گیا ہے کہ خواتین کے کیریئر بنانا محال ہے۔‘

دو برس قبل ایران میں حجاب کی شرط سے متعلق قانون بڑے پیمانے پر مظاہروں کی وجہ بنا گیا تھا اور ملک میں تنازعات اور سیاسی اختلاف کے اہم موضوعات میں سے ایک تھا۔ یہ قانون ملازمتوں کی ایک حد بھی طے کرتا ہے خاص طور پر ایسی خواتین جو حجاب کے قانون پر عمل پیرا نہیں ہوتیں تو پھر ان کے لیے حکومتی اور پبلک سیکٹر میں ملازمتوں کا حصول ناممکن سی بات ہے۔

متوسط طبقے کی عدم نمائندگی

نادرہ چمیلو کہتی ہیں کہ ’ایران میں وہ بھی ہے جسے میں ’مسنگ مڈل‘ کہتی ہوں یعنی ملازمتوں میں تعلیم اور عمر کےاعتبار سے متوسط طبقے کی نمائندگی نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق اس میں ادھیڑ عمر، درمیانی درجے کے تعلیم یافتہ، ہائی سکول سے فارغ التحصیل، متوسط طبقے کی خواتین جو ملازمت نہیں کر رہی ہیں بھی شامل ہیں۔

ایران میں خواتین کی ریٹائرمنٹ کی کم سے کم عمر 55 برس ہے اور اس کے علاوہ خاوند کی طرف سے کام کرنے کی قانونی اجازت جیسی شرائط عام طور پر دیگر ممالک کے برعکس افرادی قوت میں ایک خاص عمر کی خواتین کی نمائندگی کو یقینی نہیں بناتی ہیں۔

ایران کی معیشت پابندیوں اور بدانتظامی کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ معاشی ترقی کا تعلق خواتین کی زیادہ سے زیادہ ملازمت کے ساتھ ہے، جس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر ایران میں خواتین کی ملازمت کی شرح کو مردوں کے روزگار کے برابر لایا جائے تو ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

Iranian pastry chef Shahrzad Shokouhivand (R), works in the kitchen of her luxury pastry company in Tehran
Getty Images

اگرچہ نادرہ چمیلو کے خیال میں فی الحال کوئی ’فعال یا شعوری سیاسی مرضی‘ نہیں ہے جو خواتین کو افرادی قوت میں لانے کے لیے تبدیلیوں میں سہولت فراہم کرے۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ ایران میں خواتین معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہیں اور اپنے لیے ’لیبر مارکیٹ‘ کو کھولنے کے لیے چھوٹے آزاد کاروبار بنا رہی ہیں۔

ان کے مطابق کھانے والی ایپس سے لے کر ڈیجیٹل ریٹیل پلیٹ فارمز تک کچھ جدید ترین کاروباری آئیڈیاز خواتین نے شروع کیے ہیں۔ کیونکہ وہ ’ایران میں حقیقی نجی شعبے‘ کو زیادہ تر خواتین کی ملکیت والے کاروبار کے طور پر دیکھتی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.